سابق ممبر اسمبلی مختار انصاری کی موت سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ وہ طبعی موت مرے ہیں یا انھیں زہر دیا گیا ہے، اس راز سے شاید ہی کبھی پردہ اٹھ پائے، کیونکہ صاحبان اقتدار حقائق کوبے نقاب کرنے سے زیادہ انھیں دفن کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مختارانصاری کی پرُاسرار موت پر اٹھائے جانے والے جائز سوالوں کے دباؤ میں فی الحال عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، لیکن اس قسم کی تحقیقات کا مقصدچونکہ لیپا پوتی کرنے سے زیادہ نہیں ہوتا، اس لیے ان کے نتائج سے بھی لوگ پہلے سے واقف ہیں۔ ایسی ہی تحقیقات گزشتہ سال سابق ممبرپارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے بارے میں بھی بٹھائی گئیں تھیں، جنھیں پولیس کی تحویل میں تین نوجوانوں نے گولیوں سے بھون دیا تھا اور اس کی باقاعدہ ویڈیو بھی بنی تھی، لیکن تحقیقات کے بعد اسی پولیس کو کلین چٹ دے دی گئی جس کی تحویل میں دونوں بھائیوں کا قتل ہوا تھا۔
مختار انصاری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کی موت کا سبب دل کا دوررہ بتایا گیا ہے، جبکہ ان کے گھر والوں نے انھیں زہرر دے کر مارنے کا سنگین الزام لگایا ہے۔ مختار نے خود یہ بات کہی تھی کہ انھیں جیل کے کھانے میں میٹھا زہردیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم میں جان باقی نہیں رہی ہے۔اس سلسلے میں جیل انتظامیہ اور عدالت کو بھی مطلع کیا گیا تھا اور بعد میں انھیں علاج کے لئے آئی سی یو بھی داخل کیا گیا تھا، لیکن باقاعدہ علاج نہیں کرایا گیا،جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے باندہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دے کر اپنے والد کا پوسٹ مارٹم ایمس کے ڈاکٹروں سے کرانے کی التجا کی تھی، لیکن اسے ٹھکرادیا گیا۔
سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جب مختار انصاری نے پچھلی پیشی کے دوران مجسٹریٹ کے روبرو اپنی جان کو لاحق خطرے کے بارے میں تحریری طورپر مطلع کیا تھا تو ان کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد جب انھوں نے جیل کے کھانے میں زہر دینے کی بات کہی تھی تو اس کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے مختارکی موت پر سوال اٹھائے ہیں اور اس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔مختار کی موت کے بعد اترپردیش میں نظم ونسق کی مشنری کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ پورے صوبے میں حکم امتناعی نافذ کردیا گیا ہے۔ مؤ اور اس سے متصل اضلاع میں انتظامی مشنری ہنگا می حالات سے دوچارہے۔ یہ علاقے مختار انصاری کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔پوروانچل کا یہ علاقہ جس میں غازی پور، وارانسی، چندولی، مؤ، اعظم گڑھ اور بلیا جیسے اضلاع شامل ہیں، یہاں مختار انصاری کی حیثیت بے تاج بادشاہ کی رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک ان علاقوں میں ان کا سیاسی دبدبہ قایم رہا۔ ان کے جنازے میں شامل ہونے والے جم غفیر کو دیکھ کر بھی ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مختار انصاری کے سیاسی کیریئر کا آغاز 1996 میں اس وقت ہوا جب انھوں ے بی ایس پی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا چناؤ لڑا ۔ تب انھیں گھوسی پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے قدآورلیڈر کلپ ناتھ رائے کے خلاف میدان میں اتاراگیا تھا، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے بعد بی ایس پی نے انھیں اسی سال مؤ صدر حلقہ سے اسمبلی کے الیکشن میں اتارا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ انھوں نے لگاتار چار بار اسی حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔تین بار وہ جیل سے الیکشن لڑکر کامیاب ہوئے۔ مگر 2022کے چناؤ میں انھوں نے اپنے بیٹے کو امیدوار بنایا، جو اس وقت یوپی اسمبلی کا ممبر ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس حلقہ سے انھوں نے پانچ بار اسمبلی کا الیکشن جیتا وہاں 80 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے۔
جس وقت مختار انصاری کا جسد خاکی ان کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا تو ان کے جنازے میں علاقہ کے ہندواور مسلمان یکساں تعداد میں موجود تھے۔ ان کی موت کے اگلے دن یعنی جمعہ کو ان کے گاؤں میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہندواور مسلمان دونوں ہی غمزدہ تھے اور ان کی یاد میں اپنے کاروبار بند رکھ کرغم کے آنسو بہارہے تھے۔ مختار انصاری ایک ہر دلعزیز لیڈر تھے اور پوروانچل میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ غریبوں کے مسیحا کہلاتے تھے اور اس میں کوئی فرقہ وارانہ تفریق نہیں تھی۔ہندوؤں اور مسلمانوں میں وہ یکساں مقبول تھے۔
مختار انصاری کا تعلق غازی پور کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔وہ نامور مجاہد آزادی ڈاکٹر مختار احمدانصاری کے پڑپوتے تھے۔ وہی ڈاکٹر انصاری جو نہ صرف آزادی سے قبل کانگریس پارٹی کے صدر رہے بلکہ وہ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد وہاں طبی مشن لے کر بھی گئے تھے۔مختار انصاری اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری میں ایک ہی مماثلت تھی کہ دونوں کی مونچھیں ایک جیسی تھیں۔دوسری طرف مختار انصاری کے ان بریگیڈیر عثمان کے نواسے تھے، جنھیں ہندوستانی فوج میں دشمن سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے پر بعد از مرگ پرم ویرچکر سے نوازا گیا تھا۔خودمختارکے والد ایک بہترین کرکٹر تھے۔ ان کے خاندان کا جرائم کی دنیا سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن ایک مقامی مافیا نے ان کے گھروالوں کو نشانہ بنایا جس نے مختارانصاری کوجرائم کی دنیا میں دھکیل دیا۔ ان پر ساٹھ سے زائد مقدمات قایم تھے، جن میں دو مقدموں میں انھیں عمرقید کی سزا ہوگئی تھی۔ مختار انصاری 2005سے مسلسل سلاخوں کے پیچھے تھے اور جیل میں رہ کر ہی انھوں نے اپنے حلقہ انتخاب مؤ سے اسمبلی کے تین الیکشن جیتے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اترپردیش میں یوگی راج آنے کے بعد مافیا راج ختم کرنے کے لیے جو کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں، ان میں مسلمان خاص نشانے پر ہیں۔سابق ممبرپارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پولیس حراست میں قتل نے جن سوالوں کو جنم دیا تھاوہی سوال اس وقت مختار انصاری کی موت سے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ظاہر ہے جب کسی قیدی کا قتل پولیس حراست میں ہوتا ہے تو اس پر اٹھنے والے سوالوں سے حکومت اپنا دامن نہیں بچاسکتی۔ جب اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی نظام موجود ہے تو پھر اس طرح ماورائے عدالت قتل کیوں ہورہے ہیں۔یہی سب سے بڑا سوال ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مختار انصاری کی پراسرار موت پر گودی میڈیا میں جو جشن منایا جارہا ہے، ایسا ہی جشن عتیق احمد اور ان کے بھائی کے بہیمانہ قتل پربھی منایا گیا تھا۔مختارانصاری کے جرائم کی داستانیں بھی ویسا ہی مرچ مسالہ لگاکر نشر کی جارہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک طبقہ کو نفسیاتی سکون پہنچانے اور دوسرے کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کیا جارہا ہے۔ہم نہ تو مختار انصاری اور نہ ہی عتیق احمد کی مجرمانہ سرگرمیوں کے طرفدار ہیں۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مجرموں کو ٹھکانے لگا نے کے لیے جو نیا طرز اختیار کیا گیا ہے، اس کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جب سے یوپی میں یوگی راج آیا ہے تب سے ایک ہی فرقہ کے ”مافیاؤں“ کو ٹھکانے لگانے کی روش کیوں اختیار کی گئی ہے۔ نہ صرف انھیں راستے سے ہٹایا جارہا ہے بلکہ جو بھی مسلمان اپنے اپنے علاقہ میں سیاسی طورپر بارسوخ ہیں وہاں ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی ہے۔ اس کی ایک مثال اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر محمداعظم خاں ہیں،جو اس وقت سیتاپور جیل میں قید ہیں۔ ان کے خلاف رامپور میں سو سے زائد مقدمات درج ہیں، جن میں مرغیاں، بکریاں، بھینسیں اور کتابیں چوری کرنے تک کے مقدمات ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اعظم خاں اترپردیش میں مسلمانوں کی ایک مضبوط آواز تھے، جسے اب خاموش کردیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں اترپردیش میں کئی اور مسلم ممبران اسمبلی بھی جیل میں ہیں۔ ان میں کانپور کے عرفان سولنکی اور کیرانہ کے ممبراسمبلی ناہید حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کے بااثر سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن مختلف مقدمات میں ماخوذ کرکے انھیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا ہے۔مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنادئیے جانے کے بعد ان کی قیادت کے صفائے کی مہم اس لیے چل رہی ہے تاکہ وہ پوری طرح بے یار ومددگار ہوجائیں۔ کچھ قائدین کی زبانیں کاٹ لی گئی ہیں اور کچھ کو اس طرح خاموش کیا جارہا ہے۔ بقول شاد لکھنوی
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گُھٹ کے مرجاوں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)