"انسان بچھڑ جاتا ہے، مر جاتا ہے مگر اپنے کارناموں کے نقوش اور اپنی یادیں دیکھنے اور ملنے والوں کے ذہنوں میں چھوڑ جاتا ہے” یہ باتیں برادر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے اپنی کتاب "قندیلیں ” کے دیباچہ میں لکھی ہیں جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، انہیں ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے 2 سال گزر گئے۔ اس عرصے میں وہ بہت یادآئے۔کیوں نہ یاد آتے۔ ان کی شخصیت ہی ایسی تھی۔ مجھ سے گھریلو مراسم تھے. اکثر فون کرتے. گھر کے ایک ایک فرد کی خیریت دریافت کرتے. جب کبھی پٹنہ آتے ضرور ملاقات کرتے۔ ویشالی، مظفر پور، پٹنہ، پھلواری شریف اور کئی دوسری جگہوں پر اردو کے حوالے سے ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ وہ اردو اور اردو ادب کے پکے اور سچے خادم تھے۔ اپنے گھر پر بھی ادبی محفلیں آراستہ کرتے۔ احباب و مخلصین کو بلاتے. ان کی سنتے اور خود بھی سناتے۔پرتکلف ضیافت بھی کرتے۔ انہوں نے غالباً آخری ادبی محفل 14 مارچ 2021کو اپنے گھر حاجی پور ویشالی میں سجائی تھی جس میں ادب نوازوں کی باوقار موجودگی میں ان کی کتاب "قندیلیں” کا اجراء عمل میں آیا تھا. یہ ان کے شخصی اور تاثراتی مضامین کا ایک خوبصورت مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں تقریباً 64 ایسی شخصیات پر ان کے تاثراتی مضامین ہیں جووفات پا گئے۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے. لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی کتاب کے اجراء کے ایک ماہ کے اندر ہی ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائیں گے۔ انہوں نے مجھے بھی بہت ہی محبت اور خلوص کے ساتھ پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن میں اس میں شریک نہیں ہو سکا تھا حالانکہ اس دن میں حاجی پورمیں موجود تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اسی دن اردو کے ایک اور بے لوث خادم محترم شاہد محمود پوری صاحب نےبھی اپنے یہاں اردو کانفرنس اور اپنی تحقیقی کتاب” نقوش ویشالی "کے اجراء کی ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے انہوں نے تقریباً پندرہ دن پہلے ہی مجھے دعوت دے دی تھی۔ اتفاق سے اسی دن ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے بھی اپنی کتاب کے اجرا کی تاریخ طے کر لی اور مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔ چونکہ میں پہلے شاہد محمود پوری صاحب سے ان کی تقریب میں شرکت کا وعدہ کرچکا تھا اس لیے میں نے برادر ڈاکٹر ممتاز احمد خان سے معذرت کر لی لیکن میں نے ان سےوعدہ کیاکہ میں کسی وقت بھی خواہ تقریب ختم ہی کیوں نہ ہو جائے ان شاء اللہ حاضر خدمت ہوں گا۔ شاہد محمود پوری کی تقریب ختم ہونے کے بعد میں وعدے کے مطابق شام میں ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور انہیں مبارک باد دی۔ میرے ساتھ میرےدیرینہ رفیق برادر سرفراز عالم بھی تھے. ممتاز صاحب نے ہم دونوں کو بہت محبت کے ساتھ اپنی تازہ ترین تصنیف” قندیلیں” عنایت فرمائی. اس موقع پر کچھ تصویریں بھی لی گئیں. یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف ایک ماہ کے اندر یہ خبر ملے گی کہ ڈاکٹر صاحب بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں. پھر خبر ملی کہ انتقال ہو گیا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ،ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔
برادر ڈاکٹر ممتاز احمد خان سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ یاد نہیں۔ غالباً پٹنہ میں اس وقت ہوئی جب وہ پروفیسر کلیم الدین احمد کےڈکشنری پروجکٹ میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے. پہلی ملاقات میں ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ انہیں اردو اور انگریزی ادب کی اچھی واقفیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سے میرے تعلقات پروان چڑھتے رہے۔ ہر چند کہ اردو تحریک میں وہ پروفیسر عبدالمغنی کے ساتھ تھےاور میں غلام سرورکی قیادت والی بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کا سرگرم کارکن تھا لیکن یہ گروپ بندی ہم دونوں کےتعلقات میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی.کیونکہ ہم لوگوں میں فکری ہم آہنگی تھی۔ پروفیسر عبدالمغنی نہ صرف اردو تحریک کے قائد تھے بلکہ اردو ادب میں بھی وہ قائدانہ کردار ادا کر رہے تھے۔ اردو ادب جب ایک زمانے میں تیزی سے بے راہروی کا شکار ہو رہاتھا اور مذہب بیزاری عام ہوتی جارہی تھی تو اسلام پسندوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ اردو ادب کوفکری کج روی سے بچانے کے لیے پورے ملک میں سرگرم تھا اور بہار میں اس طبقے کی قیادت پروفیسر عبد المغنی کر رہے تھے۔ برادر ڈاکٹر ممتاز احمد خان بھی اس گروپ کے مضبوط ستون تھے۔ میں بھی اسی گروپ میں شامل تھا جو ادب میں بے راہ روی کا شدید مخالف تھا۔ اس طرح ڈاکٹر ممتاز احمد خان اور میرے مزاج میں بہت حد تک ہم آہنگی تھی. اس ہم آہنگی نے قربت کو اور جلا بخشی۔ جب ان کے ایک مخلص شاگرد اور اردو کے ایک بے لوث خادم ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق( جن کو مرحوم لکھنا میرے لیے آسان نہیں) نے ڈاکٹر ممتاز احمد خان پر ایک ضخیم کتاب ان کی باسٹھویں سالگرہ پر”ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں” ترتیب دی تو انہوں نے مجھ سے بھی تاثرات لکھوائے تھے۔ میں نے اپنے تاثرات میں جہاں کئی دوسری باتیں لکھی تھیں وہیں یہ بھی لکھا تھا کہ "ان سے میری ملاقات وقت کے ساتھ پروان چڑھتی رہی اور اتنی مضبوط اور پائیدار ہو گئی کہ میں ان کی فکر اور تحریک کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔” آج برادر ڈاکٹر ممتاز احمد خان ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان سے وابستہ بےشمار یادیں تازہ ہیں. کس کو لکھوں اور کس کو چھوڑوں ۔وہ ویشالی میں اردو تحریک کے روح رواں تھے۔ویشالی میں ادبی سرگرمیاں بھی ان ہی کے گرد گھومتی تھیں۔ انہوں نے ویشالی میں اردو کی ایک ایسی شمع روشن کی تھی جس کی روشنی بہار کے دوسرے حصوں میں بھی پہنچی اور شمع سے شمع روشن ہوئی۔ ویشالی میں آج بھی ان کے چاہنے والے سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے ان کی روشن کی ہوئی شمع کو تھام رکھا ہے ان میں کاروان ادب حاجی پور کےصدر محترم مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور جنرل سیکریٹری برادر انوارالحسن وسطوی سر فہرست ہیں۔