Home تجزیہ اسرائیل پر ایران کے حملے کے مختلف پہلو-شکیل رشید

اسرائیل پر ایران کے حملے کے مختلف پہلو-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

اسرائیل پر ایران کے حملے کا نتیجہ چاہے جو برآمد ہو ، برصغیر یعنی ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر اس حملے کے اثرات دو طرح سے مرتب ہوے ہیں ؛ مسلمان دو دھڑوں میں بٹ گیے ہیں ، ایک دھڑا حملے کو فلسطین کے قضیے سے جوڑ کر اس پر خوشیاں منا رہا ہے ، اور دوسرا دھڑا اس حملے کو ایران کا فریب قرار دے کر اسے اسرائیل کا گہرا دوست ثابت کرنے پر اتارو ہے ، اور سارے معاملے کو مسلکی رنگ میں رنگ رہا ہے ۔ یہ دونوں ہی رویے اپنی جگہ درست نہیں ہیں ۔ ایران کا اقدام خالص اپنی سرزمین کی سالمیت اور استحکام کے تناظر میں تھا ۔ اسرائیل نے یکم اپریل کو شام میں ایران کے قونصل خانے پر بڑی خاموشی سے ، بزدلانہ حملہ کیا تھا اور ایران کے تین سے پانچ اعلیٰ فوجی اہلکاران سمیت سولہ ایرانیوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ ایران نے باقاعدہ انتباہ دے کر کہ حملے کا بدلہ لیا جاے گا ، سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب اسرائیل کے مختلف اہداف پر ڈرونز اور کروز میزائلوں سے حملہ کیا اور حملے کے بعد یہ اعلان کیا کہ اس نے شام کے حملے کا بدلہ لے لیا ہے لہٰذا اب یہ باب بند ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ وہ اب مزید حملے نہیں کرے گا ۔ یہ اعلان اپنے آپ میں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل پر ایران کے حملے کا تعلق غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی سے قطعی نہیں ہے ۔ اس نے بس اپنے قونصل خانے پر حملے کا انتقام لیا ہے ، اور اپنے اس اقدام سے اسرائیل کو ایک سخت انتباہ دیا ہے کہ وہ اپنے خلاف ایسے حملے برداشت نہیں کرے گا ، جواب دے گا ، اس لیے اسرائیل ہوش میں رہے ۔ لہٰذا ایران کے حملے کو غزہ ، فلسطین اور قدس سے جوڑ کر خوشیاں منانا ایک ناسمجھی کی حرکت ہے ۔ اب رہے وہ جو ایران اور اسرائیل کو ایک دوسرے کا دوست ثابت کرنے پر اتارو ہیں ، تو انہیں پتا ہونا چاہیے کہ ایران سے کہیں زیادہ اسرائیل کی دوستی عرب ممالک سے ہے ۔ ایران کے اسرائیل سے تاجرانہ معاملات بھی نہیں ہیں جبکہ کئی عرب ممالک اسرائیل سے درآمد و برآمد کرتے ہیں اور دولت کماتے ہیں ۔ ترکیہ جیسے ملک نے ابھی چند روز قبل اسرائیل سے تجارت روکی ہے ورنہ غزہ پر بمباری کے دوران بھی اس کی اسرائیل سے تجارت جاری تھی ۔ ترکیہ کے سربراہ طیب اردوگان مقامی انتخابات میں شرم ناک شکست کے بعد اسرائیل سے دوری بنانے پر مجبور ہوے ہیں ۔ مسلک کی بنیاد پر ایران کو اسرائیل نواز ٹھہرانا افسوس ناک ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ترکی کے بعد اسرائیل کو منظور کرنے والا ایران دوسرا اسلامی ملک تھا ، لیکن ایران کے انقلاب کے بعد اس نے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جو آج تک منقطع ہیں ۔ ایران اور اسرائیل کی دشمنی کی کئی وجوہ ہیں ، ایک تو ایران کا نیوکلیائی منصوبہ جسے اسرائیل اپنے وجود کے لیے خطرہ گردانتا ہے ، اور مسلسل کوشش میں ہے کہ کسی طرح مشرق وسطیٰ کی جنگ کو ایران تک پہنچا دے اور امریکہ و یوروپ کی مدد سے ایران کے نیوکلیائی منصوبے کو خاک میں ملا دے ۔ دوسرا ایران کی حزب اللہ ، اسلامی جہاد ، حوثیوں اور حماس کی فنڈنگ ۔ اس حملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر جوابی حملہ کیا تو یہ جنگ سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ، اور پھر اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا کوئی ممکنہ حل بھی نکل سکتا ہے ۔ لہٰذا ساری مسلکی سر پھٹول کو بھول جائیں اور امید رکھیں کہ ایران نے جو ہمت کی ہے اسے دیکھ کر عرب ملکوں کو بھی ہمت آے اور فلسطین کے مسئلے کا کوئی بہتر حل نکل آئے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like