Home ستاروں کےدرمیاں حقانی القاسمی نے حقِ دوستی ادا کیا !-سیفی سرونجی

حقانی القاسمی نے حقِ دوستی ادا کیا !-سیفی سرونجی

by قندیل

صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کی دوستی سے کون واقف نہیں ہے ۔ حقانی القاسمی برسوں دہلی میں ایسے ایسے لوگوں کے لیے کام کرتے رہے کہ جن کا ادب میں کوئی نام نہیں تھا ۔ بس لوگ حقانی القاسمی سے فائدہ اٹھاتے رہے اور ان کی صلاحیتیں ضائع ہوتی رہیں ۔ کہیں عربی کبھی انگریزی ہندی تخلیقات ومضامین کا ترجمہ کرتے کہیں کسی کے نام سے ادارئے لکھتے رہے ، آج سے کوئی تیس پینتیس برس پہلے میری پہلی ملاقات ان سے حاجی انیس دہلوی صاحب مرحوم کے دفتر میں ہوئی ، جہاں اکثر میرا قیام رہتا تھا ۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ حقانی وہ ہیں ، جن کی صلاحیتوں کو لوگ خوب استعمال کرتے ہیں اور معاوضہ صرف برائے نام ہوتا ہے ۔ حاجی صاحب نے بھی کئی ترجمے کرائے کبھی وہ آج کل میں تبصرے کرتے کبھی کسی اخبار میں غرض یہ کہ دہلی جیسے شہر میں وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے جگہ بناتے رہے بہرحال یہ بات طے ہے کہ صلاحیتیں کبھی چھپتی نہیں ہیں اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے اجاگر ہوتی رہتی ہیں ، حقانی کی شہرت ہوتی گئی یوں تو وہ دہلی آنے سے پہلے ہی انتساب سے جڑے ہوئے تھے ، ان کے کئی اہم خط انتساب میں شائع ہوئے ہیں ۔ جن میں انھوں نے ہمیشہ مجھے ایک بھائی کی طرح سمجھایا ہے اور رسالے کے معیار کے سلسلے میں اپنے مفید مشوروں سے نوازا ہے لیکن دہلی جانے کے بعد ان کی مصروفیات میں اضافہ ہوگیا ۔ ہاں دہلی جانے سے پہلے ان سے خطوکتابت تو رہی ، ان کے بہت خطوں میں سے ایک اہم خط یہاں پیش کرتا ہوں تاکہ حقانی صاحب سے میرے دیرینہ تعلقات سے قارئین کو بھی واقفیت ہوسکے ۔ اس خط میں تیس سال پہلے جو انھوں نے حوصلہ افزائی کی تھی ، وہ آج بھی میرے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے :
’’محترم سیفی سرونجی صاحب تسلیمات مجلہ انتساب دیکھنے کی خواہش برسوں سے تھی ، اب نئے سال میں جاکر آپ کی محبتوں کے طفیل دیرینہ خواہش پوری ہوئی ، میں نئے سال کے اس تحفہ کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ اداریہ پڑھ کر آپ کے کرب کا اندازہ ہوا ، جن شدائد ومشکلات سے آپ گزر رہے ہیں ، اس کا کچھ احساس مجھے بھی ہے کہ اس کوچہ نفاق میں رہتا ہوں جہاں لوگ منافقت کے جملہ آداب بڑی محبتوں سے بجا لاتے ہیں ۔ ایسی منافقت ہے کہ عقابوں کے حوصلے بھی پست ہوجائیں ۔ آپ کی بلند ہمتی کی داد دینی پڑے گی کہ تیز وتند ہوا میں بھی ادب کا چراغ جلا رہے ہیں ، اس راہ میں ایسے سخت جان وپر خطر مقام آتے ہیں ، جن سے بیشتر مدیران جرائد رسائل کو گذرنا پڑتا ہے ۔ کچھ ایسے حالات سے تاجور نجیب آبادی مدیر مخزن ، ادبی دنیا ، شاہکار بھی گذرے تھے اور جرأت کے ساتھ اپنے معائدین ومخاصمین کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا ’جن قابل رحم لوگوں نے ادبی دنیا کو اپنا مرض الموت بنا رکھا ہے ، ان کے کلیجے میں ایک ہوک اٹھے گی کہ ان کی عف عف سرائیوں سے اس ماہتاب عالمتاب کی جلوہ باریوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ان ہرزہ کاریوں کی فتنہ شعاری خود ان کے حق میں کانٹے بو رہی ہے ۔ یہ واقعیت ناقابل انکار بن چکی ہے کہ ادبی دنیا کے معاندین کی ہرزہ نگاہوں کو تعلیم یافتہ طبقے میں پڑھنے والا کوئی نہیں ۔ ادبی دنیا کے لیے یہ بات مشمہ برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی کہ اسے نتھو ا چھٹوا شہر کا گنگو تیلی اچھا نہیں سمجھے بلکہ کمال عروج پر پہنچنے کے واسطے ایسے پست فطرت حاسدوں کے ایک جم غفیر کی ضرورت ہے ۔ جو اس کی طلعت فشانیوں کو دیکھ دیکھ کر نواسنجان شب کی طرح زندگی کو اپنے لیے اجیرن بنا لیں ادبی دنیا اپریل ۱۹۳۲ء ؁ آپ یہ مان کر چلیے کہ اس زبان میں رسالہ نکال رہے ہیں ، جس میں بقراط زیادہ سقراط کم پائے جاتے ہیں اردو میں عبد اﷲ بن ابی منافق اعظم بیسیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ برادران یوسف جنم لے رہے ہیں ۔ تو خوف مت کھائے کہ کوئی نہ کوئی قافلہ ایسا ضرور گذرے گا ، جو آپ کو اندھیرے کنویں سے نکالے گا ۔ بلند عزائم کے ساتھ آگے بڑھئے خدا کی اس دنیا میں کشتیاں جلا کے آگے بڑھنے والوں کی خاصی تعداد رہی ہے ۔ حیف صد حیف اردو نواز اب ایسی ذلیل وگھٹیا حرکتوں پر اتر آئے ہیں ، خدا آپ کو بلند عزم وہمت عطا فرمائے ۔ میں اپنی طرف سے نیک تمنائیں اور خواہشات پیش کرتا ہوں اور مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں ۔
مخلص : حقانی القاسمی ‘‘
اس خط سے حقانی القاسمی کی محبتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ قاسمی انسانی ہمدردی کے پیکر ہیں ، خلوص محبت اور ایثار کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف بڑے بڑوں نے کیا ہے اور ان کی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے لیکن انھیں اب تک ایسا اچھا موقع نہیں مل پایا تھا کہ جس سے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کھل کر پیش کر سکیں ۔ اسی درمیان صلاح الدین پرویز سے ان کی فلم ’محبتوں کا سفر ‘ کی شوٹنگ کے دوران ممبئی ان کے گھر قیام رہا اور انھوں نے م۔ ناگ ، امریش پوری ، رضا مراد، عامر خان ، آر کے ہانڈہ اور دیگر فلمی ہستیوں سے ملوایا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ بہت جلد میں ایک سہ ماہی رسالہ ’استعارہ ‘ نکالنے جا رہا ہوں اور اس کے ایڈیٹر رہیں گے م۔ ناگ ۔ اتفاق سے ان کی تمام فلمیں فلاپ ہوگئیں اور محبتوں کا سفر بھی مکمل کرنے کے بعد بھی ریلیز نہ ہوسکی اور وہ اپنا سارا کاروبار بند کر کے دہلی شفٹ ہوگئے ۔ ا س دوران دہلی میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ فلمیں وغیرہ تو چھوڑ دیں اور اپنے اس خواب کو پورا کریں جو کہ آپ نے جو کہممبئی میں کہا تھا کہ میں ادبی سہ ماہی ’استعارہ ‘ نکالنا چاہتا ہوں ۔ دہلی اس کے لئے بہترین جگہ ہے اور یہاں سب زرائع بھی ہیں ۔ بمبئی میں تو انھوں نے م۔ ناگ کو ایڈیٹر بنانے کی بات کہی تھی لیکن دہلی میں معاملہ دوسرا تھا ، حالانکہ دہلی میں ان کے بہت اچھے دوستوں کا بڑا حلقہ تھا ، خاص طور سے محمود ہاشمی ، شہپر رسول اور بہت سے ۔ ابھی وہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے تھے کہ میرے ذہن میں آیا کہ یہی موقع ہے ۔ میں نے کہا میں ایسا نام بتا دوں کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا ۔ ایک ایسا باصلاحیت فنکار جس کو سب نے استعمال کیا ہے ۔ حقانی القاسمی اور واقعی پھر انھوں نے کر دکھایا ۔
استعارہ کی شاعت اور حقانی القاسمی کی شمولیت نے اردو ادب میں ایک ایسے رسالے کی شروعات کی جس نے ادبی دنیا میں دھوم مچا دی اور ایک سے بڑھ کر ایک شمارہ شائع کیا ۔ اب حقانی القاسمی کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا بھر پور موقع ملا ۔ کیسے کیسے مضامین تبصرے حقانی کے آئے کہ ساری ادبی دنیا نے انہیں نئی نسل کا ایک اہم نقاد تسلیم کرلیا ۔ پاکستان میں تو یہ عالم ہے کہ حقانی نئی نسل کے سب سے بڑے نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ حقانی اور صلاح الدین پرویز نے مل کر ادبی دنیا میں ایک ایسی ہلچل پیدا کی کہ ان کا استعارہ عصری ادب کا بہترین منظر نامہ پیش کرنے کا سب سے بڑا رسالہ تسلیم کیا جانے لگا اور اس کے مسلسل ادارئے تبصرے مضامین پر بحث ومباحثے ، ادب کی مختلف اصناف ناول ڈرامہ غزل افسانہ ایسی کوئی صنف نہیں جس پر گفتگو نہ کی گئی ہو اور یہ سب کمال حقانی القاسمی کا تھا ۔ صلاح الدین پرویز نے بھی پورے اختیارات حقانی کو سونپ دئے تھے اور حقانی نے استعارہ کے ذریعے ادب میں چھائے جمود کو جس سلیقے اور اپنی منفرد تحریروں سے توڑا ہے ۔ وہ حقانی القاسمی کا ایک ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ استعارہ کے تمام شمارے اس کے گواہ ہیں ۔ صلاح الدین پرویز اور حقانی کی دوستی نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا لیکن افسوس صلاح الدین پرویز کی موت نے حقانی کو راستہ ہی میں چھوڑ دیا اور استعارہ جس سے کہ بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔ بند ہوگیا ۔ میں نے صلاح الدین کی زندگی میں ہی ان پر کتاب ’’صلاح الدین بحیثیت نظم نگار ‘‘ لکھی تھی جو شائع ہونے والی تھی ۔ کمپوزنگ بھی ہوچکی تھی کہ صلاح الدین پرویز صاحب نے اس کی سی ڈی منگوالی کہ میں استعارہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع کروں گا ۔ افسوس ان کی موت کے بعد وہ مسودہ بھی کہیں غائب ہوگیا ۔ ایک بار پھر حقانی اکیلے رہ گئے اور میں بھی اپنے محسن اور کرم فرما سے محروم ہوگیا ۔ صلاح الدین پرویز کے انتقال کے بعد میری کتاب کی اشاعت تو نہ ہوسکی لیکن حقانی القاسمی نے حق دوستی ادا کر دیا کہ صلاح الدین پرویز کے انتقال کے بعد ان کے مضامین تو شائع ہوتے ہی رہے لیکن ’’تنقیدی اسمبلاژ ‘‘ کے نام سے چار سو چھپن صفحات پر مشتمل یہ کتاب صلاح الدین پرویز کے لئے بہترین خراج عقیدت کے طور پر شائع کر کے واقعی حقانی نے دوستی کا حق ادا کر دیا ۔ ساٹھ کے قریب تمام معتبر لکھنے والوں کے مضامین صلاح الدین پرویز کی شخصیت اور ان کی کتابوں پر تبصرے استعارہ کی اشاعت او ر دیگر تحریروں سے مزین تنقیدی اسمبلاژ حقانی کا ایک ایسا کارنامہ ہے کہ جو ایک تاریخ ساز کام ہوگیا ۔ اس کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ ، سلیم احمد ، فہیم اعظمی ، سحر انصاری ، بشیر بدر ، محمود ہاشمی ، نظام صدیقی ، احمد ہمیش ، شمیم حنفی ، حامدی کاشمیری سے لے کر درجنوں قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں اور سب سے اہم حقانی القاسمی کا دل دہلا دینے والا دیباچہ شامل ہے ۔ اس میں حقانی کی دلی کیفیت صلاح بھائی سے تعلق ان کی قربانیاں اور محبتیں اور استعارہ کے لئے سب کچھ قربان کردینے کے جذبے سب کچھ بیان کر دیا گیا ہے ۔ یہ حقانی کی ایسی تحریر ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔ یہاں ایک اقتباس پیش کرتا ہوں :
’’ و ہ صبح میرے لئے قیامت کی صبح سے کم نہ تھی ، سورج کی کرنوں کے ساتھ ساتھ میرے دل کی دھڑکنیں بھی بڑھتی جارہی تھیں ۔ ایسا لگنے لگا جیسے میں خود موت کے ایک تجربے سے گذر رہا ہوں ۔ شاید اس موت میں میری بھی موت شامل ہوگئی تھی ۔ ان لمحوں اور رتجگوں کی موت میں میری موت بھی شامل ہوگئی تھی ۔ ان لمحوں اور رتجگوں کی موت جن میں نئے آئڈیاز نے جنم لیا تھا ۔ ان لفظوں کی موت جو ہم دونوں نے مشترکہ طور پر وضع کیے تھے ، تخیل کی چنگاری کیموت جس نے استعارہ کو زندہ رکھا تھا ۔ اس ایک لمحے میں جانے کتنی موتیںواقع ہوئی تھیں کہ ان کا شمار میرے لئے مشکل تھا اور ان سب سے بڑی موت استعارہ کی تھی ، جو ہم دونوں کی زندگی تھی بلکہ بقول دیگرے ہم دونوں کا ہمزاد۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ استعارہ صلاح الدین اور حقانی کا ایک ایسا خواب تھا کہ اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دونوں نے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اپنی نیندیں قربان کیں ، دن رات اس کی اشاعت کے لیے کوشاں رہے اور اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ۔ استعارہ حقانی اور پرویز کی پہچان بن گیا ۔استعارہ کا لوگ بے چینی سے انتظار کرنے لگے ۔ ساری ادبی دنیا کو اور خاص طور پر نئی نسل کو ایک پلیٹ فارم مل گیا ۔ ان کے مسائل ان کی ادبی اہمیت کو تسلیم کرانے ، ان پر مضامین اور ان کے حق کے لئے استعارہ کی اشاعت میں اپنا گھر بار اپنی ضروریات کو بالائے طاق رکھ کر پابندی سے نکالنے کا خواب یہ سب کچھ صلاح بھائی کے انتقال سے اچانک ختم ہوگیا اور حقانی صلاح الدین پرویز دونوں ہمزاد کی یہ جوڑی بچھڑ گئی ۔ پروفسر قیصر نجفی نے صحیح لکھا تھا :
’’ استعارہ جسے میں صلاح الدین پرویز اورحقانی القاسمی دونوں کا ہمزاد تصور کرتا ہوں ممکن ہے اہل نظر الگ الگ وجود کا ایک ہمزاد تسلیم کرنے سے گریز کریں ۔ ان کے لئے عرض ہے کہ مادھولال حسینی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ۔ اگر مادھو لال اور سائیں حسینی کو ایک دوسرے کا عشق ایک کر سکتا ہے ، تو صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کو استعارہ کا عشق ایک جان اور سہ قالب کیوں نہیں کر سکتا۔ ‘‘
یہ سچ ہے کہ یہ صلاح الدین پرویز کی موت نہیں ہے بلکہ استعارہ کی موت ہوئی ہے اور استعارہ کی موت سے حقانی تو اپنے بہترین دوست ایک بھائی سے محروم ہو ہی گئے لیکن استعارہ کی موت سے نئی نسل جس محرومی کا شکار ہوئی ہے ، اس کی تلافی ممکن نہیں ہے ۔ حقانی اور پرویز نے استعار کی اشاعت کو استحکام بخشا تھا ۔ وہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تھا ، جس نے ادب کی دنیا میں ایک تاریخ مرتب کی ۔ حالانکہ یہ بات سچ ہے کہ صلاحیتیں چھپتی نہیں ہیں ۔ حقانی القاسمی کی شرافت انسانی ہمدردی ایمانداری ان کے اخلاق علمیت قابلیت سے ساری ادبی دنیا واقف ہے ۔ ان کی یہی ایمانداری اور قابلیت کو دیکھ کر اسد رضا صاحب نے صلاح الدین پرویز کی موت اور استعارہ کے بند ہونے کے فوراً بعد انہیں روزنامہ راشٹریہ سہارا اور بزم سہارا کی ٹیم میں شامل کر لیا ۔ یہ سچ ہے کہ سہارا جیسا میڈیا انہیں مل گیا لیکن ہر اخبار کی کچھ مصلحتیں ہوتی ہیں ۔ وہاں قدم قدم پہ مصلحتیں ہیں ، استعارہ جیسی آزادی نہیں کہ دونوں نے مل کر ادب کے دھارے کو موڑ دیا ۔ استعارہ میں حقانی القاسمی کو اپنی پوری صلاحیتیں اجاگر کرنے کی پوری آزادی تھی اور انھوں نے استعارہ کے چند شماروں میں ہی ثابت کر دیا تھا ۔ افسوس ہم استعارہ کی موت سے محروم ہوگئے لیکن مایوس نہیں کہ خدا شاید کوئی راستہ نکالدے او ر استعارہ کی پھر سے اشاعت ہوسکے ۔ حقانی القاسمی نے اس کتاب میں یعنی ’’تنقیدی اسمبلاژ ‘‘ میں صلاح الدین پرویز کی شخصیت اور ان کی ادبی خدمات پر مشتمل کتاب کی اشاعت سے حق دوستی تو ادا کر دیا لیکن کاش کوئی حقانی کی اس کیفیت کا اندازہ لگا سکے ، جس کا اظہار انھوں نے اس کتاب کے دیباچے میں کیا ہے کہ جسے پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ؎
وہ ایک شخص دوستو مر تو گیا مگر
روشن جہاں میں پیار کی قندیل کر گیا

You may also like

Leave a Comment