Home نقدوتبصرہ بچوں کا سائنسی ادب : اہمیت اور پیش رفت-عبدالودودانصاری

بچوں کا سائنسی ادب : اہمیت اور پیش رفت-عبدالودودانصاری

by قندیل

سابق پرنسپل اردو میڈیم گورنمنٹ پرائمری ٹیچرس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ
پوسٹ: نالی کل۔712402 (مغربی بنگال)

ادب ایک اکائی ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ادب ایک سمندر ہے جس کی وسعت کی پیمائش بھی ممکن نہیں ہے۔ادب سے ہی ایک آدمی اچھا انسان بنتا ہے،اچھا شہری بنتا ہے اور قومیں ترقی کر تی ہیں۔ادب کی پیدائش انسان کی پیدائش سے بہت پہلے ہوئی یہ الگ بات ہے انسان سے اس کی ملاقات میں قدرے تاخیر ہو ئی ہے۔ادب جب بچوں سے مخاطب ہو تا ہے تو بچوں کا ادب یا اطفا ل ادب کہلا تا ہے لیکن جب اس کے اندر سائنس کے تئیں دلچسپی پیدا کر تا ہے ، جستجووکھوج ا و رنئی د ریافت کاجذبہ ابھارتا ہے تو وہ سائنسی ادب کہلاتا ہے۔
بچوں کا ادب اور بچوں کا سائنسی ادب ایک ہی سکہ کے دورخ ہیں،مقناطیس کے دوقطب ہیں اور دریا کے دوپاٹ ہیںجسے ہر گز ہرگز الگ نہیںکئے جاسکتے ہیں۔بچوں کے اندر ہمہ جہت ترقی وشخصیت پیدا کر نے لئے دونوں کا ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ عین ضروری ہے۔دراصل بچوں کے ادب کے ذریعہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو آشکارہ کیا جاتا ہے لیکن بچوں کے سائنسی ادب کے ذریعہ ان میں قوت تکیل، تدبر،ادراک،ذہانت،فکرودانش اور تلاش و جتجو اور نئی نئی دریافت کی صفات پیدا کی جاتی ہیں جس کی ضرورت فی زمانہ رہی ہے اور ہر زمانے میں رہے گی۔میرا تو ماننا ہے کہ بچوں کا ادب اور سائنسی ادب اتنا ہی ضروری ہے جتنا بچوں کے لئے غذا ضروری ہے۔
تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ جب تک ہم نے سائنسی ادب کو سینے سے لگائے رکھا،ہماری حولیاں سائنس کے بالا خانوں میں تھیں اور اس سے ناآشنا اور منھ موڑنے والی قومیں ہماری چوکھٹ پر دستک دیتی تھیں اور ہمارے سامنے جانوئے ادب تہہ کر تی تھیں۔ہم سائنس کے امام تھے دیگر قومیں مقتدی تھیں۔ ہمارے ہی پاس بصریات کا امام،الجبرے کا موجد،علم مثلث کے اولین موجد اور با بائے کیمیا وغیرہ خطابات تھے۔ہماری ہی کتاب طب کا بائیبل کہلا تی تھی بلکہ ایک انگریزی مورخ نے تو یہاں لکھ دیا ’’مسلمانوں کے علوم(سائنسی علوم) سے اگر استفادہ نہ ہوتا تو یورپ کو مزید سو سال لگتے اس جگہ پہنچنے میں۔‘‘
آپ یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ سائنس اور ادب میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔اگر اطفال ادب بچے کی پوشیدہ صلاحیتوں کو آشکارا کر تا ہے تو بچوں کا سائنسی ادب ان میں قدرت کے سربستہ راز کو افشاں کر تا ہے جسے پاکر بچہ چاند پر پہنچتا ہے،مریخ پر کمندیں ڈالتا ہے،راکٹ و ہوائی جہاز بناتا ہے،موبائل، فیس بک،واٹس ایپ اور گوگل اور کمپیوٹرایجاد کر تا ہے،دل ،سرطان اور دوسری امراض کی تشخیص بھی کرتا ہے اور اور کامیاب علاج کرتا ہے حتٰی کہ مصنوئی اعضا بناکر انسان اور انسایت کو فیض بھی پہنچاتا ہے۔اگر آپ کہیں گے یہ سب سائنس کی بلند و بالا عمارتیں ہیں تو میں کہوں کہ ان کی خشت اول بچوں کا سائنسی ادب ہی ہے۔اب ہم ان عوامل کا ذکر کریں گے جن کے ذریعے بچوؓ کے سائنسی ادب میں پیش رفت ہو سکتی ہیں۔
1۔ علما ء ، خطیب اور واعظ حضرات اپنی تقریروں میں اس غلط فہمی کو دور کریں کہ سائنس مذہب کے خلاف ہے بلکہ یہ ثابت کر نے کی کوشش کریں کہ مذہب کے بہت سارے احکامات سائنس کی تعلیم کے ذریعہ اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں۔
2۔بچوں کے سائنسی ادیب اپنی سائنسی تخلیق کو غیر اہم تصور نہ کریں۔
3۔ اردو جاننے والے سائنس داں، اردو میں سائنسی مضامین لکھنا اپنی کسر شان نہ سمجھیں بلکہ اس کی ضرورت سمجھ کر پا بندی سے ثواب سمجھ کر سائنسی مضامین لکھیں۔
4۔ سائنس کے استاد خود بھی سائنسی مضامین لکھیں اور بچوں کے اندر بھی دلچسپی پیدا کریں۔ استاد لکھنے کی شروعات نصابی کتاب سے شروع کریں۔
5۔ اسکول کے اردو دیواری رسالے (Urdu Wall Magazines) کے نصف حصہ سائنسی مضامین پر مشتمل ہوں۔
6۔ مختلف طرح کے تحریری مقابلوں کے لیے مسلمان سائنس داںایوارڈ شروع کیے جائیں مثلاً خوارزمی ایوارڈ، البیرونی ایوارڈ، ابن ا لہشیم ایوارڈ وغیرہ ۔
7۔جس طرح سرسید ڈے، اقبال ڈے، غالب ڈے، یوم مادری ڈے وغیرہ منائے جا تے ہیں اسی طرح مسلمان سائنسداں ڈے بھی منا ئے جا ئیں۔
8۔ اسکولوں میں پابندی سے سائنسی ڈرامے پیش کیے جائیں۔
9۔ اسکولوں کی تعطیل کلاں میں سائنسی ورک شاپ منعقد کیے جا ئیں۔
10۔ سائنس کے ذہین اور فطین طالب علموں کی نگرانی کی جا ئے اور انہیں پُر کشش وظیفے دیئے جا ئیں۔
11۔ مادھیامک اور ہائر سکنڈری امتحانات میں سائنسی مضامین میں اسٹار مارکس لا نے والے طالبعلموں کو بہترین انعامات سے نوازا جا ئے۔
12۔ سائنسی رسالے نکالے جا ئیں اور ا ن کی ترسیل اور نکاسی کے بھر پور کوشش کی جائے۔
13۔ اردو اکاڈمیاں سائنسی نصابی کتابیں اردو میں لکھوائیں اور لکھنے والوں کو معقول اور پُر کشش معاوضے پیش کریں۔
14۔ ریاستی سطح پر سائنسی مقابلے کے پروگرام منعقد کیے جا ئیں۔ اول، دوم اور سوم آنے والے بچوں اور بچیوں کو انعامات سے نوازا جا ئے۔
15۔ اسکولوں کے درمیان بھی سائنسی مقابلے کیے جا ئیں۔ اول ،دوم اور سوم آنے والے اسکولوں اور ان کے بچوں اور بچیوں کو انعامات سے نوازے جا ئیں۔
16۔ کل ہند اردو سائنس کمیٹی برائے فروغِ ِبچوں کے سائنس ادب قائم کی جا ئے۔
17۔ اردو اخبارات ہفتے میں کم از کم دو دن سائنسی صفحات شائع کریں۔
18۔ دینی رسالوں میں بھی سائنسی مضامین شامل ہوں تاکہ مدرسے کے بچے بھی سائنسی معلومات حاصل کر سکیں۔
19۔سائنسی ڈرامے منعقد کئے جائیں۔
20۔ ہر محلے میں سائنسی کلب قائم کیے جا ئیں۔
21۔ شاعر حضرات سائنسی نظمیں ، غزلیں اور ربا عیات لکھیں۔
22۔ ہر ماہ سائنسی مشاعرے منعقد کیے جا ئیں۔
23۔ مبصر بچوں کے سائنسی ادب پر لکھی کتابوں پر تبصرہ کرکے اسے عام کریں۔
24،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی اور ریاستوں کی اردو اکاڈمیاں بچوں کے سائنسی ادب پر لکھنے والی کتابیں زیادہ سے زیادہ شائع کریں۔
25۔بچوں کے سائنسی ادیبوں کی ایک تنظیم بنائی جائے اور ہر سال ان کی ایک ساتھ نشست ہو۔نئی نئی صنف تلاش کی جائیں۔
26۔گارجیں ہرماہ بچوں کے سائنسی رسالے خرید کر بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔
27۔قومی کونسل برائے فروغ اردو ادب،نئی دہلی اور ریاست کی اکاڈمیاں ہر سال بچوں کے سائنسی ادب پر سیمینار کرائیں جن میں بچے بھی شامل ہوں۔
28۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی بچوں کے سائنسی ادب پر لکھی کتابوںکو اسٹاک میں نہ رکھیں بلکہ مسلسل اسے مشتہر کرتی رہے۔
29۔ڈاکٹر،پروفیسر،انجینیئراور سائنس داں بچوں کے لئے سائنسی مضامین لکھنے میں اپنی ہتک محسوس نہ کریں۔
30۔استاد اور سرپرست بچوں میں احساس دلاتے رہیں کہ تم بھی ایک وقت بہت بڑے سائنسی ادیب بن جاؤگے اگر برابر سائنسی رسالے پڑھتے رہو گے۔
یہ تھیں چند تراکیب راقم کی نظر میں جن کی تکمیل سے اردو میں سائنسی ادب کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن صرف لکھ دینے سے مسائل حل نہیں ہو تے بلکہ اس کے لیے عزم،حوصلہ، سنجیدگی اور عمل پیہم کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہو نے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے صرف ’’جہاں جاگو وہیں سویرا‘‘ کے پیش نظر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کامیابی ہمیں تحفہ میں نہیں مل سکتی بلکہ ہمیں ہی وہاں تک چل کر جانا ہو گا اور زندگی کے ہر لمحے کو نچھاور کر نا ہو گا۔ یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح ڈال لیجئے کہ ہماری ملت کے نوجوانوں میں ایسے ہونہار،ذہین اور غیر معمولی قوت ارادی کے مالک اور بے مثال عزم و حوصلہ والے ہیرے و جواہرات موجود ہیں جو اُٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کو زیر و زبر کر سکتے ہیں۔بقول اقبال:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اور اگر ایسا نہ ہوا اور اب بھی ہم خواب خرگوش اور غفلت میں پڑے رہے ، ہوش کے بجائے صرف جوش سے کام لیتے رہے یا پدرم سائنس داں بود کہتے رہے تو پھر معاملہ جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں پر منجمد ہو کر رہ جا ئے گا اور ایسا ہوا تو بقول حالی:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

You may also like

Leave a Comment