Home خاص کالم اسد الدین اویسی صاحب سے ایک ملاقات ـ فتح محمد ندوی

اسد الدین اویسی صاحب سے ایک ملاقات ـ فتح محمد ندوی

by قندیل

 

حال ہی میں بر صغیر پاک و ہند کے عظیم روحانی میکدہ معرفت خانقاہ رائپور میں بیرسٹر جناب اسد الدین اویسی صاحب صدر مجلس اتحاد المسلمین سے باضابطہ شرف نیاز حاصل ہوا ۔اسد الدین صاحب کی یہاں کی یہ حاضری رائپور کے سجادہ نشین عظیم روحانی اور عرفانی روایتوں کے حامل حضرت الحاج شاہ عتیق احمد صاحب دامت برکاتہم کی زیارت اور شرف ملاقات صرف اسد الدین صاحب کی عقیدت اور محبت کے اظہار کی خاطر تھی۔ اس میں ان کی کسی قسم کی سیاسی آمیزش اور مفاد شامل نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سیاسی گفتگو طرفین سے ہوئی۔اس غیر سیاسی ملاقات میں شامل نوجوان عالم دین جناب ڈاکٹر عبد المالک صاحب مغیثیی۔ حضرت شاہ عتیق صاحب کے جانشین اور فرزند ڈاکٹر بدر عالم صاحب رائپوری۔جناب قاری مستقیم صاحب کھجناوری جناب مولا نا محمد اسلم صاحب کھجناوری۔ جناب آس محمد صاحب۔جناب قاری عاطف صاحب۔ جناب قاری مصروف صاحب۔قاری افتخار صاحب۔ قاری مزمل صاحب ۔جناب شوکت علی صاحب جناب وسیم صاحب جناب مستفیض کاشفی صاحب۔ وغیرہ کے علاوہ اور دیگر احباب شامل تھے ۔

‌ذاتی طور پر میرے لیے یہ ان سے ملاقات بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ اب تک ان سے جو تعارف تھا وہ محض غائبانہ تھا.اس لیے ان کو سننے سے زیادہ دید کا شوق اور دید سے زیادہ سننے کا اشتیاق طبیعت پر غالب تھا۔ آج اس خواہش کی تکمیل ہوئی اور اسد الدین صاحب کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ مضبوط اور فولادی اعصاب۔ آہنی ارادے۔ اورمردان حسن کا شاہکار۔ پر شکوہ شخصیت لاکھوں ہندوستانی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن اور محبوب شخصیت کا سراپا یہ تھا کہ تواضع اور عاجزی سے بچھاجارہا تھا۔ نہ ہی اس کے چہرے پر تکبر اور بڑائی کی سلوٹیں تھیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو صدر مجلس سمجھ رہا تھا بلکہ عجز و انکساری کا زندہ پیکر تھا۔ اس کی چوڑی اور چمک دار پیشانی اور اس کی آنکھوں کے سرخ اور لال ڈورے اور اس کی لمبی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ وہ ملت کی نیا کو ساحل مراد تک پہچانے کی خاطر شکست اور فتح کی حد بندیوں سے بالاتر ہوکر کسی لمبے سفر پر نکلا ہوا ہے۔ جہاں نہ اس کے چہرے پر کسی قسم کی تھکن کے آثار تھے اورنہ ہی پائے استقامت میں کوئی تھرتھراہٹ تھی۔

 

اسد الدین اویسی صاحب سے میری طرح بہت سے لوگوں کو بہت سے معاملات میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص تنہا سب کے معیار اور منشا پر کھرا نہیں اتر سکتا۔ اور میرے خیال میں اس کو سب کے معیار پر کھرا اترنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔اسی طرح ان لوگوں کو بھی صبر اور شانتی کا مظاہرہ پیش کرنا چاہیے جن کی رائے کے خلاف کوئی قدم حالات اور مصلحت کے پیش نظر اٹھ جائے۔

ہمیشہ سے ہماری کسی بھی قائد اور رہنما پر مخالفت کے معیار الگ الگ رہے ہیں۔ بعض وہ لوگ ہیں جو کسی سیاسی پارٹی یا جماعت سے وابستہ ہیں وہ ہر صورت اپنے مد مقابل کی مخالفت کرے گا۔ہر عیب اور برائی اس میں تلاش کریگا۔غرض اسے مخالفت ہر صورت کرنی ہے چاہے فریق مخالف کتنا ہی پاک صاف کیوں نہ ہو۔

کچھ بلاوجہ ہی فریق بن جاتے ہیں۔ ان کو مخالفت سے کچھ ذاتی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بس وہ مخالفت کر رہے ہیں۔ کیوں کر رہے ہیں ان کو بھی پتہ نہیں۔بلکہ ان کو اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ صحیح یا غلط کا ادراک کرسکیں بس انہیں بلاوجہ مخالفت سے کام۔

اسد الدین صاحب کی مخالفت جو لوگ کررہے ہیں ان میں سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملت کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ ملت کے نام پر اپنی تجوریاں بھری ہیں۔ اب انہیں اپنی سیاسی دکان اجڑ تی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس بے چینی کے سبب وہ مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی وہ ان کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے ہیں اور کبھی سیکولر ووٹوں کا کا ٹنے والا غرض ستر سال سے کسی نہ کسی بہانے اور چالاکیوں سے مسلم قیادت کو خود مسلم قیادت نے ابھرنے نہیں دیا پاؤں میں زنجیریں ڈال دی یا پاؤں ہی کا ٹ کر رکھ دیے۔ یہ اس ملت کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے کہ اجتماعی طور پر کبھی کسی پر اعتماد خود مسلم قیادت نے ہونے نہیں دیا۔

اسد الدین صاحب بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے قد کو گھٹانے بلکہ ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ شروع ہوچکا ہے وہی الزام لگنے شروع ہو گئے جو پچھلے ستر سالوں سے ہماری عادت کا حصہ کسی نہ کسی صورت میں رہے ہیں۔

۔ہم اسد الدین صاحب کو سمجھیں، پرکھیں۔ دوسری معاصر سیاسی جماعتوں اور قائدین سے ان کا تقابل کریں۔ ان کی گزشتہ سیاسی زندگی کا ملت اور قوم کے حوالے سے مطالعہ کریں۔ اس کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچ کر آپ فیصلہ کیجییے کہ وہ قوم کے لیےکتنے مفید اور کتنے نقصان دہ ہیں۔اس نے اب تک

ملت کے لیے۔ قوم کے لیے بلکہ ہندوستان کے ہر شہری کے لیے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے۔ ہندوستان کے امن و شانتی کے لیے۔ اس کی ترقی اور اس کی قانونی با لادستی اور وقار کے لیے۔ کیا نقصان اور کیا فائدہ کیا ہے۔اگر آپ واقعی سچائی سے ان کی پارٹی اور خود ان کا جائزہ لیں تو بلامبالغہ ان سے تمام تر سیاسی اختلاف کے باوجود وہ اپنی ذات میں ایک خوبصورت ہندوستان کا عکس اور نمونہ ہیں۔ان کی تمام سیاسی زندگی ہندوستان کی جمہوریت اور قانونی با لادستی کا اعلان اور عنوان ہے۔ کیونکہ وہی ایک سچا ہندوستانی ہوسکتا ہے جو آئین کی آواز اور جمہوریت کا محافظ اور نگہبان ہو۔اسد صاحب نہ صرف جمہوریت کے محافظ ہیں۔بلکہ انہوں نے دوسرے لوگوں کو خاص طور پر سخت گیر عناصر کو بھی جمہوریت اور آئین کے پاس و لحاظ کا پاٹھ بھی پڑھا یا ہے۔

آپ کے حوالے سے حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب نقشبندی کی رائے کی تائید کرتا ہوں۔ ابھی ملک کی جو صورت حال ہے۔اس میں ان کی رائے بہت مناسب ہے۔ ابھی ہمارا مقابلہ براہ راست یہاں کی اکثریت سے کسی بھی صورت مناسب نہیں ہوگا۔ بلکہ ابھی ان طاقتوں سے مقابلہ کیا جائے۔ جو جمہوریت اور آئین کی مخالف ہیں۔جو ملک کے سیکولر ڈھانچے کو گرانا چاہتی ہیں۔ اس کی آئینی اور قانونی بالا دستی کے مخالف ہیں۔ان آئین مخالف عناصر کا مقابلہ ہم ان سیاسی جماعتوں اور سیکولر ذہن رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر بہ خوبی کر سکتے ہیں۔ اس ملک میں آج بھی ایسے لوگ اکثریت میں خود موجود ہیں۔جو ملک کی اقلیت کو عزیز اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ملک کی قانونی اور آئینی بالادستی کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے جدوجہد بھی کرتے ہیں۔

دوسری رائے حضرت مولانا سلمان حسینی صاحب کی ہے۔ہم ان کی تائید بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے آپ کو ان دونوں حضرات کی رائے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے بلکہ پوری ملت کو ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔

اسی پس منطر میں آپ سے یہ درخواست گزار ہوں کہ ضلع سہارنپور بیہٹ سیٹ سے آپ کی پارٹی سے امجد علی عباسی صاحب کنڈ یڈیٹ ہیں۔ دوسری طرف بسپا سے رئیس ملک صاحب ہیں اور سماجوادی وادی سے عمر علی خان صاحب ہیں۔ اس سیٹ سے یہ تین مسلم کنڈیڈیٹ ہیں۔ تینوں کنڈیڈیٹ میں یہاں مضبوط عمر علی خان صاحب ہیں۔ وہ پندرہ سال سے مسلسل یہاں محنت کر رہے ہیں۔ با اخلاق اور طبیعت کے نیک ہیں۔ بلا تفریق مذہب و ملت ان کو عوامی محبوبیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے اگر آپ اپنے کنڈیڈیت امجد عباسی صاحب پر غور فرمالیں تو مناسب ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فریق مخالف اس سے فائدہ اٹھا لے۔

You may also like

Leave a Comment