Home افسانہ اجمل نگر کی عید (افسانہ) – ثروت فروغ

اجمل نگر کی عید (افسانہ) – ثروت فروغ

by قندیل

شعبۂ تعلیم
جامعہ ملیہ اسلامیہ

اجمل نگر پھر سے سجایا جا رہا تھا، مارچ کا مہینہ تھا ، جھکَّڑ جیسی تیز ہوا وقفے وقفے سے چل رہی تھی۔ سیمر کے درخت سے بچی کُھچی پرانی سوکھی پتیاں ٹوٹ ٹوٹ کر کہیں کہیں زمین پر اس طرح گر رہی تھیں گویا اپنی عاجزی اور بے بسی کا ثبوت پیش کر رہی ہوں، تو کہیں ہوا کے دوش پر ننھی کلیاں ایسے جھوم رہیں تھی گویا سارا زور اپنے کھِل جانے پر صرف کر رہی ہوں، ذرا سی کھِلی ہوئی کلیوں کے گُچھے ہلکی ہلکی نیم گلابی مسکراہٹ کے ساتھ ڈول رہے تھے۔ ہلکی لالی میں ڈوبے ہوئے پھول ہوا کے جھونکوں پہ خوشی سے ایسے جھوم رہے تھے گویا اپنی جوانی پر اِٹھلا رہے ہوں ۔ پھولوں سے پھوٹتی ہلکی سبز رنگ کی کونپل اور ان کا ساتھ دیتی نئی ہری پتیاں ہوا کے زور پر ایک دوسرے سے ٹکرا کر زندگی میں نئی روح ، نئی روشنی ، نئی امید اور نئے جذبوں کا راگ الاپ رہی تھیں ۔
بارش کی بڑی بڑی اِکّادُکّا بوندیں زمین پر پڑنے لگیں۔ ماں اجمل بتا رہا تھا کہ اس کے ماسٹر صاحب بچوں کو بتا رہے تھے کہ جنگلات اور پیڑوں کی زیادہ کٹائی کی وجہ سے زمین پر خطرناک بدلاؤ ہو رہا ہے ۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے وقت میں موسم کی حالت کیا ہوگی ۔ لو آج کا ہی دیکھ لو نا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تیز دھوپ تھی اور اب کیسے بادل چھائے ہوئے ہیں، اور مارچ کا مہینہ بھلا کہیں برسات کا مہینہ ہوتا ہے؟ میں نے تو دادی اماں کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ جولائی اگست کا مہینہ برسات کا مہینہ ہوتا ہے۔ اجمل لگاتار بولے جا رہا تھا۔
اچھا ، باتیں کم کرو اور جاؤ جاکر آنگن میں سوکھ رہی ساری لکڑیاں اکٹھی کرو ورنہ بھیگ گئیں تو رات کا کھانا پکانا مشکل ہو جائے گا ، ساجد کی ماں نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا ماں جا رہا ہوں ۔
ساجد دوڑ کر آنگن میں پہنچ گیا ، لکڑیاں سمیٹ کر جلدی جلدی بوری میں بھرنے لگا ،گوپال اور اجمل بھی اُچھلتے کُودتے ، گاتے بجاتے وہاں آپہنچے
بادل آئے ، بادل آئے
نیارے نیارے،پیارے پیارے
کالے کالے،بادل آئے
ارے ساجد آؤ نا تم بھی ہمارے ساتھ کودو ،جھومو اور خوشی سے گاؤ گوپال نے کہا اور پھر
نیارے نیارے ،پیارے پیارے
بادل آئے ،بادل آئے
ہمممم ، ساجد نے جلدی جلدی لکڑیاں سمیٹے ہوئے بے دلی سے کہا۔
"کتنا اچھا ہے نا، اجمل اور ساجد کے گھر گَیس ہے انہیں کبھی لکڑیوں کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا ہے ، نا ہی ان کی ماں کو بار بار چولہے کو پھونک مارنے میں اپنی پھولتی سانس اور آنکھوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ ہمیں تو سرکار نے بِن پیسے کا گیس چولہا دیا بھی تو بھلا اس سے ہمارا کیا فائدہ ہوا ؟ ، گَیس کا دام بڑھا کر اتنا زیادہ کر دیا کہ اس کو ہر مہینے بھروانا ماں کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ ماں کی سِلائی کے سارے پیسے تو اس مہنگائی کے دور کی مہنگی دواؤں میں ہی کَھپ جاتے ہیں ۔ کل عید کا بھی دن ہے ، ماں نے میری وجہ سے اپنے لئے کپڑے نہیں خریدے ۔ میں نے کل ان کو اجمل کی ماں سے کہتے ہوئے سنا تھا کہ اگر وہ اپنے لئے کپڑے خرید لیتی تو میرے کپڑے کے لئے پیسے نہیں بچتے -” ساجد من ہی من میں سوچ رہا تھا ، اس کا چہرہ روہانسا ہوگیا۔
ارے ساجد کیا سوچ رہے ہو جلدی جلدی سمیٹو ۔ اجمل کی آواز پر وہ چونکا اور اپنے آنسوؤں کو چھُپاتے ہوئے کہا:
وہ ہ ہ کچھ چھ نئیں
بس ایسے ہی
بےفکری اور ہنسنے کھیلنے کی عمر میں حالات نے اس کو کتنا حسّاس اور فکرمند بنادیا تھا۔
بس بس ، گوپال ! گانا بعد میں آؤ پہلے ہم دونوں مل کر جلدی جلدی لکڑیاں اٹھانے میں ساجد کی مدد کرتے ہیں پھر تینوں مل کر خوشی سے گائیں گے ، اجمل نے کہا ۔
اجمل خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مِزاج ، نرم دل اور ہمدرد دوست تھا۔گوپال کو أجمل کے خلوص نے ہی دوستی کے رشتے میں باندھا تھا ۔گوپال اب بہت مخلص ہوگیا تھا، ساجد کے ساتھ بھی اس کی ہمدردی دن بدن بڑھتی جارہی تھی ۔ ساجد ان دونوں کے بارے میں سوچتا تو اس کی اداسی کم ہوجاتی اور اس کا حوصلہ بڑھ جاتا تھا۔
بادل چَھٹ چکے تھے، دھوپ نکل آئی تھی، لیکن تینوں دوست ایک ساتھ خوشی سے اس طرح اُچھل کود کر رہے تھے گویا رِم جِھم برستی بارش میں تیز ہوا کے جھونکوں پر جھوٹے بڑے ہر قد اور ہر قسم کے درخت لہلہاتے اور بَحال ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
شام ہونے تک تینوں دوست کھیلتے رہے۔ جب اپنے اپنے گھر جانے لگے تو أجمل نے ساجد سے کہا۔ دیکھو ساجد! اب کی بار کوئی بہانہ نہیں چلے گا ، سورج ڈھلنے کے بعد تمہیں میرے گھر آنا ہے۔
ہاں ساجد ! آج ہم تینوں مل کر ایک ساتھ عید کا چاند دیکھیں گے ، کل نئے کپڑے پہن کر عید گاہ جائیں گے، سیوئیاں کھائیں گے ، میلے میں تو برگر، آلو ٹِکّی ،آئس کریم، پاپڑ اور بہت ساری چیزیں ہونگی۔ میں تو مُنّے کے لئے بھی کھلونے لاؤنگا گوپال نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا ۔
ساجد کی آنکھوں کے سامنے چُولہے کے سامنے بیٹھی ماں کا چہرہ پِھر گیا اور مَمتا سے بھری وہ آنکھیں جن کے رنگ کو چُولہے کے زہریلے دھوئیں کے اثر سے آنکھوں میں اُمنڈتے پانی نے دھندلا کر دیا تھا ۔ لیکن ان آنکھوں سے بہتا ہوا دھوئیں دار پانی دیکھ کر اس کو ایسا محسوس ہوتا گویا اُن آنسوؤں سے بھی وہ اپنی مَمتا کا اظہار کر رہی ہو ۔
زیادہ سوچو نہیں ، یاد سے آجانا اجمل نے تاکید کرتے ہوئے کہا ۔
ساجد نے گھر کے اندر آتے ہوئے خوشی سے ماں سے پوچھا ” ماں ” اجمل اور گوپال نے چاند دیکھنے کے لئے بلایا ہے ، کیا تم بھی میرے ساتھ چاند دیکھنے چلوگی ؟؟
ماں نے ساجد کی پیشانی کو چوم کر اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا :
بیٹا ! مجھے چاند دیکھنے کے لئے کہیں اور جانے کی بھلا کیا ضرورت؟، میرا چاند اور میری زندگی کی ساری خوشیاں تمہاری خوشیوں سے وابستہ ہیں ۔
بابا
کاش
کاش بابا اس عید پر بھی زندہ ہوتے،اگر وہ زندہ ہوتے تو ماں کے لئے کپڑے لاتے ،سیوئیاں لاتے ،مجھے بہت سارے پیسے دیتے ۔ میں بھی اجمل اور گوپال کی طرح برگر اور آئس کریم کھاتا ، کھلونے خریدتا ،بابا کے ساتھ خوشیاں مناتا ۔ ساجد رات بھر سوچتا رہا ،آنکھ سے آنسو بہتے رہے ۔ بہتی آنکھوں میں نیند نے کب پناہ لی اسے خبر بھی نہیں ہوئی ۔
اگلی صبح آنکھ کھلی تو دیکھا، سب کچھ بدلا ہوا تھا ۔ آج واقعی عید کا دن تھا ۔ ایک ایسی عید کا دن ، ایک ایسی خوشی کا دن جس میں بابا تو نہیں تھے لیکن وہ ساری خوشیاں تھیں جو عید کے دن بابا کی طرف سے اسے ملتی تھیں۔
اجمل اور گوپال اس کے سو کر اٹھنے سے پہلے ہی اس کے گھر پہنچ گئے تھے۔ دونوں نے ایک جیسے کپڑے ،جوتے اور گھڑی پہن رکھی تھی، دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔
اب دیکھتے ہی رہوگے یا جلدی سے تیار بھی ہونا ہے گوپال نے کہا:
ہاں بھائی ساجد ! جلدی کرو عیدگاہ بھی جانا ہے۔ ہمیں تو عید کی نماز بھی ادا کرنی ہے ۔ وہاں جاکر ہم میلے میں گھومیں گے اور بہت ساری چیزیں بھی خریدیں گے ۔
اجمل کے ہاتھ میں پکی ہوئی اور چکی سیوئیاں، کھیر ، ناریل، چھوہارے، مکھانے ، سوکھے میوے ، کئی قسم کی مٹھائیاں اور پھل سے بھری ہوئی ایک بڑی سی تھالی تھی ۔ گوپال کے ہاتھ میں بڑا سا تھیلا تھا جس میں میرے لئے نئے کپڑے، جوتے ، گھڑی اور ایک لفافے میں عیدی کے کچھ پیسے تھے ۔
ساجد جلدی جلدی عیدگاہ جانے کے لئے تیار ہونے لگا ، تینون کے کپڑے،جوتے اور گھڑی بالکل ایک جیسی تھی۔ یہ دیکھ ساجد خوشی سے اُچھلنے لگا لیکن ” ماں ” ،
"کیا وہ نئے کپڑے نہیں ؟
ماں کا خیال آتے ہی اس کے چہرے پہ اداسی چھا گئی ۔
ارے ساجد بیٹا!
تم ابھی تک اٹھے نہیں؟نہا دھو کر جلدی سے عیدگاہ جانے کے لئے تیار ہو جاؤ کہتے ہوئے ساجد کی ماں کمرے میں آئی ۔
ماں۔۔۔۔تم م م۔۔۔۔؟
اس کو یقین نہیں ہو رہا تھا.
نئے کپڑے ، نئی چپّل اور آنکھوں میں خوشی کی نئی چمک۔۔۔؟
یہ سب ۔۔۔۔؟
وہ "وہ” نہیں تھی جس کو کل تک اس نے ہانپتے ہوئے تیز تیز پھونک مار کر چُولہے کی لکڑیاں دہکاتے دیکھا تھا۔ آج اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی ، چہرہ کسی انہونی مُسرَّت سے روشن تھا ، گلابی رنگ کے کپڑے میں مَمتا کا نِکھرا ہوا روپ آج اور بھی زیادہ نِکھر گیا تھا۔ گیارہ مہینے کے بعد اس نے ماں کو پہلی بار اتنا خوش دیکھا تھا۔
وہ جیسے ہی خوشی سے ماں سے لپٹنے کے لئے آگے بڑھا اس کے قدم کسی مانوس آواز پہ رک گئے تھے ۔
ساجد بیٹے کہاں ہو !
یہ لو تمہاری عیدی ، کہتے ہوئے تیز قدموں سے چلتی ہوئی اجمل کی ماں کمرے میں آئی ۔
آنٹی آپ؟
ساجد حیرت زدہ نظروں سے انہیں تکنے لگا۔
انہوں نے بالکل ویسے ہی کپڑے پہن رکھے تھے جیسا کہ انہوں نے ساجد کی ماں کے لئے پسند کئے تھے۔
ساجد ان سے لپٹ کر رونے لگا ۔
آنٹی بہت شکریہ
بہت شکریہ
زبان سے شکریہ کے الفاظ اور آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں مسلسل بہہ رہے تھے ۔ ساجد کے آنسوؤں کو پیار سے پوچھتے ہوئے اجمل کی ماں نے کہا ساجد بیٹے ! اصل معنی میں عید تو وہی ہوتی ہے، جس میں سب کی خوشیوں کا خیال رکھا جائے، ایک دوسرے میں خوشیوں کو تقسیم کیا جائے اور سب ایک ساتھ مل کر عید کی خوشیاں منائیں ۔
ساجد نے آہستہ سے اپنے بھیگے گالوں کو صاف کرتے ہوئے کہا:
جی
اچھا تو پھر ذرا جلدی سے ہم سب کو ہنس کر دکھاؤ ، اجمل کی ماں نے ساجد کا مرجھایا ہوا چہرہ بڑے پیار سے اوپر اٹھایا ۔ ساجد مسکراتے ہوئے ماں سے لپٹ گیا، دعائیں لیں ، اجمل اور گوپال آگے بڑھے ، دونوں نے ساجد کو گلے سے لگایا اور تینوں دوست خوشی خوشی عیدگاہ کی طرف چل پڑے
"اجمل اور گوپال دو دوستوں نے مل کر انسانیت اور دوستی کی ایسی مثال قائم کی کہ اس دن سے "ہری نگر ” "ہری نگر سے اجمل نگر” ، "خوبصورت رشتوں کا نگر” بن گیا اور وہ آنے والے لوگوں کے لیے انسانی بھائی چارے ،خلوص و ہمدردی،اُنس و محبت ، خوبصورت رشتے ،عید اور اصل خوشی کی لافانی مثال بن گئے ۔”

You may also like

Leave a Comment