Home افسانہ بیوہ عورت -ایم اے صابری

بیوہ عورت -ایم اے صابری

by قندیل

جگن ناتھ مشرا کالج مظفرپور

آدھی رات ستاروں کی روشنی سے جگما کر گزر چکی تھی – چاند بھی اپنی چمک بکھیر کر تھک چکا تھا – درخت کے پتے اور زمین کے سبزے شبنم کی گرفت میں آ چکے تھے – ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں مسلسل درخت کے پتوں کو رقص کروا رہی تھیں – ان سب سے بے نیاز ہوکر شاہد اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سو رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور ہے – شاہد جب دو سال کا تھا تب اس کے والد کینسر جیسی خطرناک بیماری کے شکار ہو گئے- وہ دور اب کہاں باقی رہا جب لوگ بیوہ سے نکاح کیا کرتے تھے – قسمت کی ماری رخسانہ بھلا کہاں جاتی؟ اس نے اپنے سسرال میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ۔ رخسانہ کا دیور مظہر ایک بینک میں ملازم تھا۔ وہ بھی بچپن میں اپنے باپ کے سائے سے محروم ہو چکا تھا،چنانچہ شاہد کے والد مرحوم اظہر نے ہی اس کی پرورش کی تھی اور سخت محنت کر کے اسے پڑھایا لکھایا تھا۔ وہی بیوہ رخسانہ اور یتیم شاہد کی دیکھ بھال کرتا تھا – رات کا ایک ایک لمحہ بمشکل گزر رہا تھا – رخسانہ شاہد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سونے کی ناکام کوشش کر رہی ہے – اپنے شوہر اظہر کے انتقال کے بعد رخسانہ اور نیند کے درمیان پکی دشمنی ہوگئی۔ دن تو کام کاج میں گزر جاتا تھا مگر رات کی کالی چھایا اس کی آنکھوں میں سما کر ہمیشہ اس کی نیندیں اڑا دیتی تھی – مظہر کی شادی سے قبل گھر میں بالکل امن و سکون تھا مگر اس کی شادی کے بعد اس کی بیوی کی آمد سے گھر کا پورا نظام ہی بدل گیا – مظہر کی بیوی چاندنی ذرا ذرا سی باتوں پر رخسانہ کو ڈانٹ دیتی تھی – آج تو حد ہو گئی ایک روٹی اور اپنے بیٹے کا حصہ مانگنے پر اسے بہت کچھ سننا پڑا اور روٹی بھی نہیں دی گئی – رخسانہ سب کچھ برداشت کرتی اور کچھ نہ کہتی۔ اب رات کی تاریکی ختم ہو رہی تھی اور صبح کا اجالا منظر عام پر آ رہا تھا – آسمان کے ستارے بادلوں میں چھپ کر آفتاب کے طلوع ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ۔ رخسانہ بستر سے اٹھ کر گھر کے کام کاج میں لگ گئی
– شاہد کو نہلا دھلاکر اسکول کے لیے تیار کیا اور باورچی خانے میں جاکر شاہد کے لنچ کے لیے کچھ پکانے لگی – تھوڑی ہی دیر کے بعد مظہر کی اہلیہ باورچی خانے میں آکر……. آپ کو صبح صبح باورچی خانے میں آنے کی اجازت کس نے دی؟ بہو وہ شاہد کے اسکول کا آج پہلا دن ہے نہ اس لیے اس کے لیے لنچ تیار کر رہی ہوں – واہ بڑی آئیں صفائی دینے والی خود کھانے کا من ہے تو بچے کا نام لے رہی ہیں – نکلیں آپ باورچی خانے سے آئندہ بلا اجازت کبھی بھی باورچی خانے میں داخل ہونے کی جرات مت کجیے گا ورنہ اس کا انجام بہت برا ہوگا چاندی نے گرج کر کہا۔ رخسانہ اپنی دیورانی کی زہر بھری باتیں سن کر آنکھوں میں آنسو چھپائے مایوس ہوکر باورچی خانے سے باہر نکل آئی – مظہر جو شادی سے قبل اپنی بیوہ بھابھی اور بھتیجے کا بہت خیال رکھا کرتا تھا افسوس کہ شادی کے بعد وہ کافی بدل چکا تھا – جب شاہد کا اسکول میں داخلہ کروانے کی باری آئی تب مظہر نے پیسے کی تنگی کا عذر کر لیا – آخر کار رخسانہ کو اپنے زیور بیچ کر شاہد کا داخلہ اسکول میں کروانا پڑا – پہلے دن باپ کے سائے سے محروم معصوم شاہد کو بھوکا ہی اسکول جانا پڑا۔ بیٹے کو ایسی حالت میں اسکول بھیج کر رخسانہ شدید فکر میں مبتلا ہو گئی۔ اس کا دل بہت بے چین ہوتا جا رہا تھا ۔ اری او مہارانی جلدی باورچی خانے میں آئیں ناشتہ تیار کرنا ہے ورنہ ان کو آفس جانے میں دیر ہو جائے گی چاندنی نے اکڑتے ہوئے کہا۔ رخسانہ باورچی خانے میں جاکر ناشتہ تیار کرنے لگی – مگر دل اب بھی اپنے لخت جگر کے لیے پریشان تھا – ہائے نہ جانے کیسا ہوگا میرا لعل؟ صبح بھی اسے کچھ کھلا نہ سکی اور لنچ بھی نہ دے سکی – میرے لعل سے بھوک برداشت نہیں ہوتی ہے کیسے رہے گا وہ؟ باورچی خانے میں یہ ساری باتیں سوچ سوچ کر رخسانہ پریشان ہو رہی تھی – بھابھی کتنی دیر لگا رہی ہیں آپ جلدی ناشتہ تیار کریں آفس کے لیے دیر ہو رہی ہے – مظہر نے اونچی آواز میں کہا – رخسانہ….. ہاں ابھی لائی…. روٹیاں سینکنے میں جلد بازی کرنے پر رخسانہ کی انگلیاں بری طرح جل گئیں – جلی ہوئ انگلیوں کی مدد سے روٹیاں اٹھا کر اس نے مظہر کے دسترخوان پر رکھ دیں – رخسانہ نے بھی رات سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا چونکہ چاندنی اسے کھانے کے لیے محض دو ہی روٹیاں دیتی تھیں – جس میں دونوں ماں اور بیٹے کا پیٹ بھرنا مشکل تھا- کل رات اس کی ایک روٹی بکری کھا گئی اور جو دوسری روٹی بچی تھی اسے رخسانہ نے شاہد کو کھلا دیا مگر پھر بھی اسے اپنی بھوک کی کوئی پروا نہیں تھی – اس کا دل شاہد کے لیے شدید بے چین تھا – مہارانی جی کام چور کی طرح نہ بیٹھیں سارے بترن صاف کرنے ہیں چاندنی نے رخسانہ کو بیٹھتا دیکھ کر کہا – بغیر کچھ کہے رخسانہ برتنوں کی صفائی کرنے لگی – میرا لعل آئے گا تو اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی- من ہی من رخسانہ خود سے یہ بات کہہ رہی تھی – برتنوں کی صفائی مکمل کرنے کے بعد چاندنی سے رخسانہ نے اپنا اور اپنے بیٹے کے حصے کی دو روٹیاں مانگیں – چاندنی نے غرور میں آکر کہا کہ آپ کی تمام حرکتیں فقیرنی کی طرح معلوم ہوتی ہیں – ذرا سا کام کیا کر لیں کہ آپ کو بھوک لگ گئی – میرا دماغ صبح سے ہی خراب ہے دور ہو جائیں میری نظروں سے – خدارا ایسا مت کہو بہو میں فقیرنی نہیں ہوں – محنت کرتی ہوں تو تم مجھے مزدوری کی صورت میں دو وقت کی روٹی دیتی ہو – فضول باتیں سننے کا وقت میرے پاس نہیں ہے اتنا کہہ کر چاندنی نے باورچی خانے میں تالا لگا دیا – اس کی ایسی حرکت سے پریشان ہوکر رخسانہ جب مظہر کے کمرے میں گئ تب وہ ناشتے سے فارغ ہوکر آفس جا چکا تھا – پھر وہ مایوس ہوکر اپنے کمرے میں لوٹ آئ اور چادر میں منہ چھپا کر رونے لگی – چاندنی رخسانہ کے کمرے میں آکر….. آپ جیسی کام چور کا کہیں گزارا نہیں ہونے والا ہے.. مفت میں میرے شوہر کے ٹکڑوں پر پلتی ہیں اور کام ادھورا چھوڑ کر اس طرح آرام فرماتی ہیں گویا آپ ہی اس گھر کی مالکین ہوں – جھاڑو کون لگائے گا؟ آپ کا مرا ہوا شوہر! خبردار چاندنی میرے شوہر کے بارے میں ایسا کہنے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئ ؟ رخسانہ نے غصے سے لال ہوکر کہا – کیوں کہوگی… کیا کر لیں گی آپ؟ اتنا کہہ کر وہ رخسانہ کے مرحوم شوہر کو گالیاں دینے لگی – بیوہ رخسانہ اپنے شوہر کی شان میں گستاخی کیونکر برداشت کرتی اس نے آپے سے باہر ہوکر چاندنی کو دو چار زوردار تھپڑ رسید کر دیے – چاندنی نے اس کا بدلہ لیتے ہوئے وہی کیا جو عموماً عورتیں کرتی ہیں اس نے رخسانہ کے بال نوچ لیے – آج آنے دیجیے ان کو تب بتاتی ہوں بھکارن کو انہوں نے سر پر بٹھا رکھا ہے آج آپ کی کھال ادھیروا دوں گی دیکھ لجیے گا گھمنڈ سے چھور ہوکر چاندنی نے اتنا کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف رخ کر لیا – دوپہر کی دھوپ کی تپش سے زمین کا گوشہ گوشہ توے کی ماند گرم ہو چکا تھا – دروازے پر اسکول کی گاڑی رکی … رخسانہ بے قراری کے ساتھ گاڑی کی طرف دوڑی شاہد کا منہ خشک اور اس کا نازک سا بدن پسینے سے تر ہو چکا تھا – اپنے لعل کو ایسی حالت میں دیکھ کر وہ اور بے قرار ہو گئ – امی بہت بھوک لگی ہے جلدی کچھ کھانے کو دیجیے شاہد نے اپنی ماں سے لپٹ کر کہا- رخسانہ اپنے بیٹے کی بھوک کیسے مٹاتی؟ باورچی خانے میں تو چاندنی نے تالا لگا رکھا تھا – چنانچہ اس نے اپنے بیٹے کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا میرے لعل جب تمہارے چچا آئیں گے تبھی سب کو کھانا ملے گا – مگر امی مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی ہے کچھ تو کھانے کو دیں – رخسانہ نے شاہد کی بھوک مٹانے کی خاطر پانی لا کر دیا – پانی پی کر بھوکے شاہد کو تھوڑی راحت ملی اور وہ اپنی ماں کی آغوش میں سر رکھ سو گیا – رخسانہ اپنے بیٹے کو سلاکر یاد ماضی میں کھو گئی – جب اس کے شوہر اظہر حیات سے تھے تو دن بھر رخسانہ کی چوڑیوں کی کھنک سے اس کا پورا گھر گونجتا رہتا تھا – وہ اپنی سونی کلائیوں کو دیکھ کر اس پل کو یاد کر رہی تھی جب اظہر اپنے ہاتھوں سے اس کی گوری گوری کلائیوں میں ہری ہری ہری چوڑیاں پہنایا کرتے تھے – جب تک اظہر حیات سے تھے تب تک رخسانہ کبھی بھوکی نہیں سوئ تھی حتیٰ کے وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا کرتے تھے – جب رخسانہ ان سے روٹھتی تب وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے مناتے – لیکن اب وہ کس سے خفا ہوگی ؟ کون منانے والا ہے اسے؟ اسے تو اب بھوکا سونا اور بھوکا ہی جاگنا پڑتا ہے – وہ گھر جس کو اظہر نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کروایا تھا اسی گھر میں اس کی بیوی اور بچے کے ساتھ نوکروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا – شام کو جب مظہر گھر آیا تو اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حیرت سے پوچھا.. بگیم صاحبہ آپ کیوں رہو رہی ہیں؟ آگ تو لگ ہی چکی تھی اب بس اس میں گھی ڈالنا باقی تھا – اپنی آنکھوں میں گھڑیال کے آنسو لے کر چاندنی نے دن کا سارا قصہ بڑھا چڑھا کر اپنے شوہر کو کہہ سنایا – مظہر اپنی بیوی سے ساری باتیں سن کر آگ بگولا ہو گیا اور رخسانہ کے کمرے میں داخل ہوکر اسے مارنے لگا – بد چلن عورت میرے پھینکے ہوئے نوالے کھاتی ہے اور میری ہی بیوی پر ہاتھ اٹھاتی ہے – رخسانہ…….. مظہر پہلے میری بات تو سنو… مجھے کچھ بھی نہیں سننا اب میں اپنے گھر میں کسی بے حیا اور بدچلن عورت کو برداشت نہیں کر سکتا جتنی جلدی ہو سکے میرا گھر خالی کرو اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا – اپنی ماں کو مار کھاتا دیکھ شاہد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے … امی چچا جان بہت برے ہیں انہوں نے آپ کو مارا ہے اب ہم نہیں رہیں گے اس گھر میں – میں دیکھتا ہوں انٹی ہر بات پر آپ کو طعنے دیتی ہیں مجھ سے برداشت نہیں ہوتا یہ سب – اب ایک پل بھی یہاں نہیں رہنا مجھے جلدی چلیں امی – شام ڈھل چکی تھی آفتاب دنیا کو روشن کرتے کرتے تھک کر بادلوں کی چادر اوڑھ کر سو چکا تھا – رات میں پھر سے تاریکی دستک دینے لگی۔رخسانہ اپنے بیٹے کی ننھی انگلی تھام کر چپکے سے اس گھر سے نکل گئ جسے اس کے شوہر نے تعمیر کروایا تھا – اس گھر سے بہت ساری یادیں وابستہ ہونے کے سبب قدم بمشکل اٹھ رہے تھے مگر رخسانہ اور کر بھی کیا سکتی تھی – روتی ہوئ آنکھوں سے شاہد کو لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ایک ٹرین میں بیٹھ گئ – تھوڑی ہی دیر میں ٹرین بھی کھل گئ – سبھی سفیر اپنی اپنی منزل کی طرف ٹرین کی تیز رفتار کے ساتھ بڑھ رہے تھے – مگر! کون سی ٹرین ہے؟ ٹرین کہاں جائے گی؟ یہ رخسانہ کو پتہ نہیں تھا۔

You may also like

Leave a Comment