Home افسانہ میری آواز سنو!-شاہ تاج

میری آواز سنو!-شاہ تاج

by قندیل

”کاشف بیٹا! لاؤڈاسپیکر کی آواز تھوڑی کم کر دیجئے۔رات کے نو بج رہے ہیں۔“زوہیب کے داداجی نے کہا۔
”جی چاچا جی!ابھی کر دیتا ہوں۔“کاشف نے فوراً آواز کم کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا! ہمیں اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کے آرام کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔“دادا جی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”آج شادی تھی اس وجہ سے ہم نے پورا دن تیز آواز میں میوزک بجایا۔لیکن اب خیال رکھیں گے۔“کاشف نے کہا۔
”جی کاشف!کل آپ کے دوست بجا رہے تھے۔اور کل کوئی دوسرا تیز میوزک بجائے گا۔اوپر سے یہ ٹریفک بھی اب بہت پریشان کرنے لگا ہے۔“دادا جی نے کہا تو کاشف نے کہا۔
”یہ تو آپ نے صحیح کہا۔اپنے سامنے والی سڑک پر شام ہوتے ہی اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ کئی گھنٹوں تک اپنی ہی آوازیں خود کو سنائی نہیں دیتیں۔صرف گاڑیوں کے ہارن سنائی دیتے ہیں۔چاچا جی!آپ پریشان نہ ہوں،ہم تھوڑی دیر میں میوزک بند کر دیں گے۔“کاشف کا شکریہ ادا کرنے کے بعددادا جی نے زوہیب اور فرحین کو ساتھ لیااور شادی ہال سے نکل کرتینوں گھر کے لیے پیدل چل دیئے۔چلتے ہوئے زوہیب نے پوچھا۔
”دادا جی!یہ تو میوزک ہے،کوئی گاڑیوں کا شور نہیں۔تیز آواز کے بنا تو میوزک سننے میں بالکل مزا نہیں آتا۔“داداجی نے مسکرا کر جواب دیا
”زوہیب!آپ نے ٹھیک کہا ہے۔لیکن کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم تھکے ہوتے ہیں اورسونا چاہتے ہیں تب ہمارا سب سے پسندیدہ میوزک بھی ہمیں شور معلوم ہوتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم آٹھ گھنٹے سے زیادہ شور برداشت نہیں کر سکتے۔ہماری پسندیدہ آوازیں بھی ایک خاص وقت کے بعد شور کی آلودگی (Noise pollution)میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔“تو فرحین نے حیران ہوتے ہوئے دادا جی سے پوچھا۔
”ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے؟آواز(sound)بھی شور(noise)بن جاتی ہے؟“
”جی فرحین! 85dB سے زیادہ شدّت کی آوازیں ہمارے کانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔اور یہ بھی ہم صرف آٹھ گھنٹے تک ہی برداشت کر سکتے ہیں۔اگران آوازوں کی سطح(level) یا پھر مدّت(duration)بڑھ جائے تو ہم مختلف مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔شور کی آلودگی ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر بے شمار مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔حالانکہ لفظ شور،ناگوار،تیز اور ناپسندیدہ آوازوں کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب شور کی وجہ سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے تو میں کتنا چڑچڑا ہو جاتا ہوں۔سب سے زیادہ تو آپ کو ہی میری ڈانٹ کھانے کے لیے ملتی ہے۔یعنی منظم آوازیں بھی ہر ایک کو ہر وقت پسند آئیں،یہ ضروری نہیں ہے۔“دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا اور زوہیب کے سارے بال بکھیر دیے۔
”کیا دادا جی!یہ dBکیا ہے؟“زوہیب نے اپنے بال ٹھیک کئے۔اور سوال کیا۔
”dBیعنی ڈیسیبل(decible)۔صوتی سطح کا میٹر۔جیسے ہم دودھ کو لیٹر میں،سبزیوں کو کلو گرام میں،ایسے ہی آواز کو ڈیسیبل میں ماپتے ہیں۔یہ آواز کی شدّت (intensity)مانپنے والی اکائی ہے۔“دادا جی نے جواب دیا۔
”دادا جی! ہم اور آپ کتنے ڈیسیبل کے درمیان بات کر رہے ہیں؟“فرحین نے پوچھا تو دادا جی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”عام طور پر 30سے70ڈیسیبل کے درمیان کی سطح پر ہم لوگ بات چیت کرتے ہیں۔“فرحین نے زوہیب کی شکایت کرتے ہوئے کہا
”دادا جی!زوہیب بھائی بہت تیز آواز میں میوزک سنتے ہیں۔میرے کانوں میں تو درد ہونے لگتا ہے۔بس یہ آپ کے کہنے پر ہی آوازکم کرتے ہیں۔مجھے تو چڑھانے کے لیے آواز اور تیز کر دیتے ہیں۔جب بھی آواز کم کرنے کے لیے کہتی ہوں تو یہی کہتے ہیں کہ میوزک تو تیز آواز میں ہی سننے میں مزا آتا ہے۔“دادا جی ِ،فرحین کی بات پر تھوڑا مسکرائے اور کہنے لگے۔
”بیٹا! کچھ وقت تک ہم بہت تیز آوازیں سُن بھی سکتے ہیں اور انہیں برداشت بھی کر سکتے ہیں۔دس پندرہ منٹ کی چھوٹ تو دی ہی جاسکتی ہے۔ہم 20,000 Hzتک کی تعدد اِرتعاش(frequency)آوازوں کو آرام سے جھیل سکتے ہیں۔“دادا جی نے ہنستے ہوئے بتایا
”داداجی! اب یہHzکیا ہے؟“زوہیب نے سوال کیا۔
”Hzکو ہرٹز(hertz)کہتے ہیں۔یہ آواز کی تعدد اِرتعاش(frequency)ماپنے کی اکائی ہے۔“دادا جی نے وضاحت کی تو زوہیب نے ہاں میں اپنا سر ہلایا۔
”دادا جی جب آپ بہت دھیرے کچھ بولتے ہیں تو مجھے آپ کی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی؟“زوہیب نے کہا تو فرحین نے کہا۔
”بھائی!زیادہ تیز آوازیں سنتے سنتے آپ کے کان خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔“فرحین کی بات سن کر دادا جی ہنسنے لگے اور زوہیب،فرحین کو مارنے کے لیے اُسے داداجی کے پیچھے سے کھینچنے لگا۔داداجی نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”زوہیب!ہم20Hzسے کم کی تعدداِرتعاش(frequency)کی آوازوں کو سُن نہیں سکتے۔اور20,000Hzسے زیادہ تعدد اِرتعاش(frequency) کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔یہ نارمل بات ہے۔اور ہاں ایک بات اور یاد آئی کہ 20Hzسے نیچے کی تعدد اِرتعاش(frequency)کی آواز کو زیریں صوت یا انتہائی ہلکے تعدد کی آواز(INFRASOUND)اور 20,000Hzسے زیادہ تعدد اِرتعاش(frequency)کی آوازوں کو بالا صوت(ULTRASOUND)کہتے ہیں۔“فرحین نے فوراً کہا۔
”ultrasoundتو مجھے ابھی یاد ہو گیا۔“باتیں کرتے ہوئے تینوں اب گھر پہنچ گئے تھے۔لیکن زوہیب اور فرحین ابھی دادا جی کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔داداجی اپنے کمرے کی طرف جانے لگے تو زوہیب نے کہا۔
”داداجی!کیا ہم تھوڑی دیر مزید بات کر سکتے ہیں؟میں آپ سے کئی باتیں آواز کے تعلق سے جاننا چاہتا ہوں۔صبح پھر اسکول چلا جاؤں گا اور بات نہیں ہو پائے گی۔“داداجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگ کپڑے تبدیل کرکے میرے کمرے میں آجائیے۔تب تک میں بھی ہاتھ منہ دھو لیتا ہوں۔ہم لوگ اپنی گفتگو کا آغاز پھر سے کریں گے۔“
”جی داداجی!ملتے ہیں بریک کے بعد!“دونوں بچے کپڑے تبدیل کرنے چلے گئے۔آواز سُن کر فرحین اور زوہیب کی امّی اپنے کمرے سے باہر آگئیں۔آج اُن کی طبیعت کچھ ناساز تھی اِس لیے وہ دعوت سے جلدی واپس آ گئی تھیں۔انہیں دیکھتے ہی زوہیب کے دادا جی نے پوچھا۔
”بہو! آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟“
”جی ابو! اب میری طبیعت کافی بہتر ہے۔فرحین کے ابو آپ کے ساتھ نہیں آئے؟“فرحین کی امّی نے پوچھا۔
”جی بہو!ابھی وداعی میں تھوڑا وقت تھا اس لیے وہ ہال میں اپنے دوست کے ساتھ انتظام دیکھ رہا ہے۔بھئی اُس کے دوست کی بہن کی شادی ہے وداعی تک تو اسے رکنا ہی چاہئے۔“دادا جی نے کہا۔
”جی!آپ نے درست کہا۔لگتا ہے آج آپ کی سائنس کی کلاس لگنے والی ہے۔کیا میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاؤں؟اوراگر آپ آرام کرنا چاہتے ہوں تو میں دونوں بچوں کو سمجھا دیتی ہوں کہ آپ کو پریشان نہ کریں۔“زوہیب کی امّی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں بہو! مجھے سائنس کے تعلق سے بچوں کو سمجھانا اچھا لگتا ہے۔پوری زندگی اسکول میں بچوں کو سائنس پڑھاتے ہوئے گزر گئی۔لیکن میرے پوتے پوتی کی طرح سوال کرنے والے بچے بہت کم ملے۔اِن کے سوالات مجھے متحرک رکھتے ہیں۔لیکن ایک کپ چائے کی ضرورت پڑے گی۔اگر آپ کو پریشانی نہ ہو تو۔“دادا جی نے کہا۔
”میں اب کافی بہتر ہوں۔میں،آپ کے اور اپنے لیے گرما گرم چائے بنا کر ابھی لاتی ہوں۔کیونکہ میں بھی کلاس میں بیٹھنا چاہتی ہوں۔تاکہ میں بھی کچھ معلومات حاصل کر سکوں۔“زوہیب کی امّی چائے بنانے باورچی خانہ چلی گئیں تب تک دونوں بچے اپنے کاغذ قلم کے ساتھ دادا جی کے کمرے میں پہنچ گئے تھے۔داداجی نے بھی اپنی الماری سے ایک کتاب نکالی اور اُس کے صفحات پلٹنے لگے۔تب تک فرحین کی امّی دو کپ چائے لے کر آگئیں۔دادا جی نے چائے کی چسکی لی اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
”دادا جی!آواز کیا ہے؟اس کی تعریف کیسے بیان کر سکتے ہیں؟“زوہیب کے سوال پر داداجی نے اُسے شاباشی دی پھر کہنا شروع کیا
”کسی تھرتھراتی چیز کا کانوں پر احساس آواز کہلاتا ہے۔کسی بھی آواز کو ہمارے کانوں تک پہنچنے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔سب سے پہلا ہے تھرتھراتا ہوا مادی وجود(vibrating body)،دوسرا ہے واسطہ(medium)،اور تیسرا ہے وصول کنندہ (reciever) یعنی ہمارے کان۔“داداجی کی بات مکمل ہوتے ہی فرحین کی امّی نے کہا:
”میں سمجھی نہیں۔کچھ آسان طریقے سے بتائیے۔“دادا جی نے کچھ سوچا پھر کہنا شروع کیا۔
”آج ہی کی مثال لیتے ہیں۔لاؤڈاسپیکر سے تھرتھراہٹ پیدا ہوئی،اور ہوا میں موجود سالمہ (molecules) نے اس تھرتھراہٹ کواگلے سالمہ کو منتقل کیایہ میڈیم تھااور وہ تیز تھرتھراہٹ ہمارے کانوں تک پہنچی یعنی ہم ہوئے وصول کنندہ۔شاید اب بات کچھ واضح ہوئی ہو۔!“دادا جی نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”شور عموماًسب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والا خطرہ ہے۔کیونکہ ہمیں صوتی آلودگی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پر اِس کا اثر نہیں ہوتا۔شور کی آلودگی صحت کے لیے مختصر اور طویل مدتی پریشانیوں کا سبب بنتی ہے۔دل کے مسائل،ذہنی دباؤ،قوتِ سماعت کا نقصان وغیرہ۔“دادا جی نے شور کی آلودگی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا:
”ابّو جی!ہمارے ارد گرد اتنا شور ہے۔ہم تو اب اس شور اور ان آوازوں کے عادی ہو چکے ہیں۔کیا تب بھی ہمیں نقصان ہوگا؟“زوہیب کی امّی نے فکر مند ہوتے ہوئے پوچھا۔
”جی! ہر وقت ہمارے چاروں طرف جو شور ہوتا رہتا ہے اُس کی طرف ہم دھیان دینا تو بند کر سکتے ہیں لیکن اُس سے ہونے والے نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتے۔“دادا جی کی بات سن کر فرحین نے کہا۔
”دادا جی!کیا شور کو کم کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے؟“
”کیوں نہیں کر سکتے، ضرور کر سکتے ہیں۔جب آپ ٹی وی پر پروگرام دیکھیں تو آواز کم رکھیے،کار چلاتے ہوئے ہم غیر ضروری ہارن بجانے سے خود کو روک سکتے ہیں۔اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام ہم اور آپ کر سکتے ہیں۔ اورہاں! جتنا ممکن ہو پیڑ لگائیں۔پیڑ تو ہر معنی میں ہمارے لیے مفید ہیں۔“کافی دیر سے زوہیب خاموشی سے سب کی باتیں سُن رہا تھا دھیرے سے بولا:
”آج سے میں بھی میوزک سسٹم کی آواز کم ہی رکھا کروں گا۔“سب نے ایک ساتھ کہا:
”شاباش!“

You may also like

Leave a Comment