رک جاؤ!!!!
ایودھیا کی اس گلی کی سنسان اور پر ہول فضا میں ایک آواز ابھری۔ ۔۔بڑی پر عزم ، رعب داب والی ،گھن گرج دار آواز۔۔۔رک جاؤ۔۔۔!!پھر خاموشی چھا گئی گویا وہ آواز بھٹکنے لگی۔۔۔سہنوا گاؤں کی پگڈنٖڈیوں میں۔میر باقی کے باقیات میں ۔۔۔قدیم گنبدوں کی باز یافت میں۔۔۔ سر گرداں و پیچاں۔۔۔ان قدیم گنبدوں سے ٹکرا کر وہ گھن گرج والی آوازباز گشت میں تبدیل ہوجانا چاہتی تھی، مگر نامراد۔۔۔ناکام۔۔۔وہ مردانہ آوازباز گشت نہ بن سکی اور آواز کی ہی شکل میں دوبارہ اس کی سماعت کے پردے سے ٹکرائی۔۔۔رک جاؤ۔۔۔!!میں کہتا ہوں رک جاؤ!!!!
وہ سوچنے لگی ہفتے بھر سے ویران پڑی فیض پورہ کی مسلم آبادی میں یہ کون آ گیا ؟؟؟میرے اللہ۔۔۔!! اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔پچھلے ہفتے کا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے تیزی سے گردش کرنے لگاجب پولیس والوں کے بوٹوں کی کریہہ آواز کے ساتھ پورا علاقہ چھائونی میں تبدیل ہونے لگا تھا۔بستی کے لوگ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ دبے دبے لفظوں میں سب کے کان تک یہ آواز پہنچ گئی کہ بڑے والے یوگی جی اگلے شنیوار کو رام للا کے درشن کو آ رہے ہیں۔ درشن استھل تک جانے والے تمام راستے ایودھیا کی عوام کے لئے بند کر دئے گئے۔سڑک کی دونوں طرف کی عمارتوں کو رنگ روغن کر کے چمکایا جانے لگا۔ راتوں رات سڑک پر تارکول ڈال کر پچی کاری کر دی گئی تاکہ بڑے والے یوگی جی اور ان کے ساتھ آنے والے سادھو سنتوں ، سنیاسی سنیاسنیوں کو رتی بھرتکلیف نہ ہو۔ان کی چمچماتی لمبی لمبی قیمتی کاریں زناٹا بھرتی یہاں سے گذر جائیں۔نکڑ والی چائے کی دوکان پر اس نے بھگوتی ماسٹر جی کو بات کرتے سنا تھا کہ بڑے والے یوگی جی کا مہا قافلہ یہاں اس لئے پدھار رہا تھا کہ اس رام نومی کے پاون موقع پر وہ سب کے سب اپنے جپ تپ اور پوجا ارچناسے بھگوان رام کو خوش کر سکیں ۔۔۔ وہ بھگوان رام جو یگوں یگوں کے بعد اچانک پھر سے پرکٹ ہو گئے تھے۔۔۔وہ بھگوان رام جو ابھی نومولود ہیں، رام للا ہیں ۔۔۔ان کو خوش کرکے ان کا آشیرواد لیں۔ بھگوان ان کے پنیہ کو سویکار کریں اور ان کی مانو سیوا کا پرسکار دیں۔رام للابڑے والے یوگی جی ، سادھو سنتوں اور سنیاسی سنیاسنیوں کے شبھاچار سے خوش ہوکر مستقبل میں ان پر اپنی کرپا بنائے رکھیں۔
اس پوتر یاترا کے لئے انتظامیہ نے اس طرح کا اہتمام کیا تھا کہ بڑے والے یوگی جی کی نگاہ کسی صورت رام للا کی دھرتی پر بسنے والے غریبوں کی غریبی پر نہ پڑے۔ بستی کے لوگوں کی چائے کی دکانیں تھیں یا پان کی، کچھ رکشا چلاتے تھے تو کچھ مزدوری کرتے تھے۔ غرض روز کا کمانا روز کا کھانا۔ رہنے کو بہت مشکل سے ایک کوٹھری ۔ کسی کسی کا پکا مکان ۔بھولے بھالے لوگوں کو یقین تھا کہ بڑے والے یوگی جی رام للا کے درشن کو پدھار رہے ہیں تو یہاں ان کے قدم پڑنے سے ایودھیا کی دھرتی پنیہ ہو جائے گی۔
فیض پورہ میں پچھلے ہفتے جیسے ہی پولیس کی پہلی کھیپ اتری، بستی والے ایک دم سہم گئے۔ ساٹھ ستر لوگوں کی مسلم آبادی تھی۔ پچھلی تین دہائی میں اس بستی کے لوگوں نے بڑے اتار چڑھائو دیکھے۔سفید گنبد کے زمین دوز ہونے سے زعفرانی تخت و تاج کے عروج تک کا منظر ۔یہ ساری داستان اسی سرزمین پر لکھی گئی۔ان لوگوں نے قتل و غارت ، اپنے کنبے کے لوگوں کاخون اور تباہی بھی دیکھی۔ تب سے آج تک جب بھی کسی بڑے والے صاحب کا دورہ ہوتا ہے تو ان لوگوں پر خوف کے سائے منڈرانے لگتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جان بچا نے کے لئے اپنی گرہستی لے کر جمن پورہ کے پیچھے والے نالے کے اطراف میں چلے جاتے ہیں۔یہ تماشہ دس دن سے کم کا نہیں ہوتا ۔جب بڑے والے صاحب چلے جاتے تو پولیس کے بھاری بوٹوں کی خوفناک آوازیں بھی تھمنے لگتیں۔ ادھر ان کے ٹرک جانے شروع ہوتے ادھر فیض پورہ کے لوگوں میں زندگی کے آثار آنے شروع ہوجاتے۔
پچھلے ہفتے بھی ایسا ہی ہوا ۔جیسے ہی پولیس کی پہلی کھیپ آئی ، اس کے جوانوں نے اس بستی کو بڑی خونخوار نگاہوں سے دیکھا۔بستی والوں نے حسب معمول اپنی چھوٹی سی گرہستی اٹھائی ،گھر میں تالا لگایا اور جمن پورہ کے پیچھے والے نالے کے اطراف میں چلے گئے۔وہ بھی اپنے تین چھوٹے بھائی بہنوں کا ہاتھ تھامے بستی والوں کے ساتھ ہو لی۔ بے سہارا ۔۔۔بے یار و مددگار۔نہ ماں ۔۔۔نہ بابا۔ تین چھوٹے بھائی بہنوں کی سب کچھ وہی تھی۔ محلے والوں کے کپڑے سل کر جو مل جاتا اسی سے گذارا ہوتا۔۔۔مگر اب کیا ہو۔۔۔چائے کی دوکان، پان کی دوکان ، محنت مزدوری اور اس کی کپڑوں کی سلائی کا کام ،سب بند۔۔۔جہاں صبح سے شام تک مشقت کرنے پر رات کو ایک بار چولہا جلتا تھا ۔۔۔ان حالات میںچار جانوں کا پیٹ بھرنا اس کے لئے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ایک ہفتہ جیسے تیسے کٹالیکن اس کے بعد نہ کھانے کو کچھ اور نہ پاس میں پیسے۔اس الجھن اور پریشانی میں وہ کبھی آسمان کی طرف منہ اٹھا کر اپنے اللہ سے کچھ کہتی۔۔۔کبھی ماں بابا کے روٹھ جانے کا ماتم کرتی ۔۔۔کبھی بھوکے سوئے اپنے بھائی بہنوں کو دیکھ خود کو لعنت ملامت کرتی۔۔۔اس وقت وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہی تھی۔۔۔اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔ مایوسی ہی مایوسی ۔۔۔کہ اچانک اس کے ذہن میں روشنی کی ایک کرن لہرائی۔ اسے یاد آیا کہ اس کی ماں نے ایک بار کوٹھری کی کچی زمین کھود کر چاندی کے ایک جوڑی کنگن مٹی میں دفن کئے تھے۔اس وقت اسے ماں کی وہ حسرت بھری نگاہیں یاد آ رہی تھیںجب اس نے کہا تھا کہ ۔۔۔چلو کسی وقت ضرورت پر کام آ جائیں گے۔۔۔پہننا تو شائد ہی نصیب ہو۔۔۔اور آج وہ منحوس وقت آن پڑا تھا۔کنگن کی یاد آتے ہی اس نے آئو دیکھا نہ تائو۔برقع پہنا اور دبے قدموں سوتے لوگوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی بستی کی راہ لی۔یہاں سے وہاں تک رات کا سناٹا پسرا تھا۔۔۔ سنسان ویرانہ ۔۔۔آدم نہ آدم زاد ۔۔۔وہ اور اس کے قدموں کی چاپ ۔۔۔پورے راستے پر کتوں کا راج تھا۔دو ایک اسے دیکھ کر بھونکے بھی مگر وہ ان سب سے بچتی بچاتی بستی کے پچھواڑے کے موڑ تک آ گئی۔یہاں سے بستی کے جتنے بھی گھر نظر آرہے تھے سب کے دروازوں پر تالا لٹک رہاتھا ۔دروازے بھی کیا تھے ۔لکڑی کے دو اینٹھے پاٹ ۔کسی بھی گھر کے دروازے کے دونوں پاٹ سلامت نہیں تھے۔ٹوٹے پھوٹے ، بوسیدہ دیواروں کے سہارے بس اٹکے ہوئے۔پولیس والوں کے بھاری بھر کم بوٹ کی ایک ضرب ان دروازوں کو زمین بوس کر دینے کے لئے کافی تھی ۔ان میں تالا ڈالنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ مگر پھر بھی اپنی تسلی کے لئے سب نے تالا ڈال دیا تھا۔
اس نے اپنے گھر جانے والی گلی میں قدم رکھا۔سب کچھ بالکل اپنا سا تھا ، بالکل مانوس ۔۔۔جو غیر مانوس تھا ، وہ تھا گلی میں پسرا سناٹا۔وہ دعائیں پڑھتی چار چھہ قدم آگے بڑھتی اور پھر خوف زدہ ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھتی، پھر ہمت کر کے آگے بڑھتی۔اللہ اللہ کر کے دسواں گھر پار کرنے کے بعد اس کا گھر آ گیا۔آج اسے گلی میں اپنا گھر گیارہواں نہ ہوکر کسی دور کی بستی میں آباد گھر لگ رہا تھا۔جہاں تک وہ بہت مشکل سے پہنچ پائی تھی۔گھر کے دروازے پر پہنچ کر ایک بار پھر اس نے گلی کے دونوں طرف نگاہ دوڑائی۔ایک انجانا خوف مستقل اس کا پیچھا کر رہا تھا۔کسی صورت اس نے برقع کی جیب سے چابی نکالی ۔کنڈی میں اٹکا تالا کھولا اور دعائیں پڑھتی اندر داخل ہوئی۔اس چھوٹی سی کوٹھری کی مختصر سی گرہستی کی ہر چیز اسے پتہ تھی کہ کہاں رکھی ہے۔اس نے ماچس تلاشی اور چراغ کی ڈبیا جلائی ۔ایک لمحے کو اس منظر کو تصور میں دہرایا جب اس کی ماں نے دادی کے چڑھائے چاندی کے پشتینی کنگن اس کوٹھری کی تاریک کوکھ میں ڈال کر فرش کو دوبارہ لیپ پوت کر برابرکر دیا تھاجیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔حالانکہ دل تو اس کا بھی اندر ہی اندر ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا تھا۔مگر ذرا ہی دیر میں وہ گھر گرہستی میں مرنے کھپنے کو ایسے تیار ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اس نے ان خیالات کی گٹھری کو ایک طرف رکھا اور چولھے کی آڑ میں پڑے چمٹے کو اٹھاکراس جگہ فرش کھودنا شروع کر دیاجہاں اسے کنگن دفن کئے جانے کا اندازہ تھا۔اس نے پورے چمٹے کی گہرائی تک فرش کھود ڈالاتب کہیں جا کر کنگن کا سراغ ملا۔گڈھے میں ہاتھ ڈال کر اس نے مٹی کو اوپر نکالاپھر ان کنگنوں کی تھیلی نکالی۔جذبات میں ڈوبتے اتراتے، ماں کی یادوں کے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوئے اس نے کنگن کو تھیلی سے نکال کر نہ جانے کتنی مرتبہ الٹ پلٹ کر دیکھا۔بار بار انھیں ہاتھ میں ڈالتی ، پھر نکالتی ۔اس بیچ اسے بھی ارمانوں کی ٹولی نے آ گھیرا ۔ کاش اس کے ماں باپ ہوتے۔اس کی بھی شادی کی بات چلتی۔وہ بھی کسی کو خیالوں میں بساتی۔پھر ایک دن اس کو لینے وہ آتا اور وہ لجاتی شرماتی اس کے ساتھ رخصت ہو جاتی۔جب وہ سسرال پہنچتی تو اسے بھی پشتینی کنگن چڑھائے جاتے۔یہ سب سوچتے ہوئے ایک بار پھر اس نے کنگن ہاتھوں میں پہن لئے اور اپنے ذہن سے ان لطیف خیالات کو جھٹک دیا۔اسے تو غریبی کی چکی میں پسنا ہے۔بھائی بہنوں کی اکیلے دیکھ بھال کرنی ہے۔شادی بیاہ ، گھر بسانے جیسا سکھ اس کے نصیب میں کہاں۔انھیں خیالوں میں گم اس نے ایک حسرت بھری نگاہ اپنی کلائی میں پڑے کنگنوں پر ڈالی۔ان کنگنوں کو کل وہ رحمو چاچا کو دے گی کہ وہ انھیں شہر سے دور والی بستی میں جا کر بیچ دیں تاکہ کچھ پیسوں کا انتظام ہو جائے۔اس نے بھاری دل سے اپنی کوٹھری دیکھی۔سہیج سمیٹ کر رکھنے جیسا کچھ تھا ہی نہیں۔اس نے برقع پہنا اور ہاتھ میں تالا کنجی لئے باہر نکل آئی۔داہنے بائیں دیکھا ۔وہی خوفناک سناٹا ۔ہر گھر کے دروازے پر تالا پڑا۔پوری بستی خالی۔نہ آدم نہ آدم زاد۔پھر ٹرک بھر بھر کے یہ حفاظتی دستے کس کے لئے؟؟؟ اگلے ہی پل اسے لگا وہ بیکار کے خیالوں میں الجھ رہی ہے۔اس نے دروازے کی کنڈی میں تالا لگایااور آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی۔حالانکہ غریب بستی والوں کے پاس بچا ہی کیا تھا جس کے لٹنے کا ڈر ہومگر تنکا تنکا جوڑ کر بنائے گھر کی محبت تو بہر حال تھی۔ان لوگوں کو لگتا تھا گویا بستی کا رہنے والا ہر شخص میر ہو اور اس کا بنایایہ کچا مکان اس میر کے تعمیر کئے گنبد کی نشانی، جو اب باقی نہیں ہے ۔۔۔۔مگر ڈر اور خوف کے سائے تلے لٹکتے تالے۔۔۔۔حفاظتی دستوں کا ہجوم۔۔۔ویران بستی میں اڑتی زعفرانی دھول۔۔۔اتنے مناظر اس کی نگاہوں کے سامنے بڑی تیزی سے چکر کھا رہے تھے کہ وہ رعب دارآواز پھر گونجی ۔۔۔۔
’’رک جاؤ ۔۔۔سنا نہیں تم نے ۔۔۔میں کہتا ہوں رک جاو!!‘‘
اس نے ڈر کے مارے برقع کے کونے کو کس کر پکڑ لیا اور اس آواز کو ان سنی کرتے ہوئے تیز تیز قدم بڑھانے لگی ۔اس کے دل کی دھڑکن کی رفتار پیمائش کی حد پار کر رہی تھی۔وہ تو جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی۔اس میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ پلٹ کر پیچھے دیکھتی۔اس وقت وہ پر لگا کر اڑ جانا چاہتی تھی مگر یہ کیا۔ابھی چار پانچ قدم ہی اٹھا پائی تھی کہ وہ آواز جسم بن کر اس کے بالکل قریب آ کھڑی ہوئی۔ اب تو خوف کی آخری وجہ بھی رو برو تھی ۔مگر وہ اسے دیکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔اس کی آواز سے اس نے بس اندازہ لگایا کہ تیس بتیس برس کا ایک نوجوان ہے۔اب نا ہی اس کے قدم ساتھ دے رہے تھے اور نا دل و دماغ۔۔۔۔وہ چکرا کرگرنے والی تھی کہ نو جوان نے لپک کر اسے تھاما اور دیوار کے سہارے بٹھادیااورخود اس سے دو قدم دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔ شاید اس کے نارمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
اس کا پورا بدن انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔یہ ویرانا ۔اور سامنے کھڑا شخص ۔ اس کے بابا اکثر بتایا کرتے تھے کہ جب تین دہائی پہلے یہاں اسی طرح کا بہت بڑا قافلہ آیا تھا تو بستی کی عورتوں کے ساتھ کچھ ایسا ویسا بھی ہو ا تھا اوراس کے بعد انھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔۔۔ایسے ویسے کا خیال آنا کہ نا جانے کہاں سے اس میں ہمت آگئی ۔اس نے اپنے برقع کو درست کیااور دیوار کا سہارا لیتے ہوئے اٹھی ۔اسے کچھ ایسا ویسا ہونے سے خود کو ہر حال میں بچانا تھا ۔کسی بھی انہونی کا ڈر اس کے دل کی دھڑکن کو بڑھاتا چلا جا رہا تھا۔کچھ بھی ہو اسے اپنی عصمت کی حفاظت کرنی ہے۔وہ اس وقت وہاں سے پر لگا کر اڑ جانا چاہتی تھی مگر وہ تو ناممکن تھا۔کام تو اس کے پیروں کو ہی آنا تھا۔یہ سب سوچتے ہوئے وہ ابھی پہلا قدم بڑھانے ہی والی تھی کہ اس سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑے نوجوان نے اس مرتبہ بڑی نرمی سے التجا کی ۔
’’رک جاؤ !!پلیز رک جاؤ!! ڈرو مت ۔۔۔میں سمیرہوں ۔۔۔یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ۔۔۔میں سچائی ٹی وی کا نیوز رپورٹر۔۔۔میں پہلے بھی یہاں آتا رہا ہوں۔۔۔‘‘
نوجوان نے سچائی ٹی وی کا نام لیا تو صبا کی ڈری ڈری نگاہیں اچانک اس کی جانب اٹھ گئیں۔وہ ایک خوبرو نوجوان تھاجس کے چہرے پر سکون چھایا ہوا تھاجب کہ صبا کچھ ایسا ویسا ہو جانے کے ڈر سے بوکھلائی ہوئی تھی۔اس کے ذہن میں بابا کی بتائی باتیں ہی چکر کاٹ رہی تھیں۔ایسا ویسا۔۔۔انہونی ۔۔۔اس وقت اسے اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔وہ سوچنے لگی۔
کیوں وہ رات کے اس پہر یہاں چلی آئی۔؟صبح تک رک نہیں سکتی تھی ۔۔؟؟ اس نے غلطی کی ہے ۔۔۔خود کو کسی انہونی کے حوالے کر دیا ہے ۔۔۔وہ دل ہی دل میں اپنے اللہ سے فریاد کرنے لگی۔
’’یا اللہ !!! میں کیا کروں۔؟؟ میری مدد کر میرے معبود۔۔۔میں بہت اکیلی ہوں۔۔۔بس تو ہی میرا سہارا ہے ۔۔۔میرے پاک پروردگار۔۔۔میری عزت و ناموس کی حفاظت کر مولیٰ۔‘‘
نوجوان اس کی بوکھلاہٹ کو سمجھ رہا تھا۔اسے اس بات کا احساس تھا کہ سامنے کھڑی لڑکی پر اس وقت جو بھی گذر رہی ہے اس کا ذمہ دار وہ ہے۔کچھ لمحے کی خاموشی کے بعدوہ جو سراپا التجا بنااس کے سامنے کھڑا تھا۔اس نے سرگوشی کے انداز میں بس اتنا کہا:
’’رک جاؤ نا ۔۔۔پلی ی ی ز۔۔۔‘‘
اس کا لہجہ اب بھی پر وقار تھا مگر اس میں بلا کی نرمی گھلی ہوئی تھی ۔اس نے ’پلی ی ی ز ‘بڑی اپنائیت سے کہا تھا۔لڑکی نے اس کی طرف دیکھا۔دونوں کی نگاہیں ملیں اور ایک دوسرے کے چہرے پر ٹھہر گئیں۔نا جانے کیسا جادو تھا اس نوجوان کی التجا میں جو اس سنسان ،پر ہول فضا میں پیار کے رنگ گھول گیا۔۔۔ہلدی کا رنگ ۔۔۔مہندی کا رنگ ۔۔۔آبادی کا رنگ ۔۔۔خوش حالی کا رنگ۔صبا کے ہاتھوں کی گرفت انجانے میں ہی برقع پر ڈھیلی پڑ گئی۔اس کے دل کی دھڑکنوں نے اپنی رفتار دھیمی کی تو اس کے چہرے کے نقوش خود بخود اپنی اصلیت کو لوٹنے لگے ۔جب اس کے دل میں سمایاخوف و ہراس قدرے کم ہوا تواس نے ایک بار پھر بھر پور نگاہ نوجوان کے سراپے پر ڈالی۔اس دوران دونوں کے بیچ ایک ان کہا معاہدہ ہو چکا تھا۔وہ جو اس کی التجا پر خوف کا لبادہ اوڑھے رک گئی تھی۔۔۔ اگلے ہی پل دونوں اجنبی بڑی اپنائیت سے قدم سے قدم ملاتے فیض پورہ کی سنسان بستی سے نکل کر جمن پورہ کے پیچھے والے نالے کی جانب چل دیے۔