Home افسانہ کتنے گھر اور؟-عقبیٰ حمید

کتنے گھر اور؟-عقبیٰ حمید

by قندیل

ارے بھئی چھ بج گئے کیا کوئی ابھی تک نہیں اٹھا، اتنا سناٹا کیوں ہے۔ آج کل کے نوجوانوں کو سونے کو دے دو گھوڑے کدھے بیچ کر سوجاتے ہیں۔ نماز نہ روزہ ویسے بھی کتنا زوال آیا ہے مسلمانوں پر۔ لیکن ان کو کیا مطلب ان کو تو خالی مٹرگشتی سوجھتی ہے۔ کیا ہوا دادی صبح صبح کیوں بڑبڑا رہی ہے ارے سورج سر پر آگیا پر تم لوگوں کا بستر ابھی نہیں اٹھا۔ ارے دادی آپ کو پتہ ہے نہ دیر رات تک کمپیوٹر پرکام کرتی رہی اس لیے۔ لیجیے چائے ان لوگوں کو کئی بار کہا ہے اماں کو اتنی دیر سونا پسند نہیں۔ اچھا امی یہ بتائیے ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے تو گھر آتے ہیں ورنہ وہی کالج کے روٹین، رات دن پڑھائی اورصرف پڑھائی۔ مجھے تو ان کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے، ان کی نسل کا کیا ہوگا اور ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کا اللہ خیر کرے۔
مجھے پتہ ہے دادی امی کو منانا اتنا آسان نہیں۔ دادی آج میں آپ کے لیے پراٹھے بناتی ہوں اور چائے کے ساتھ گرم گرم پراٹھے بہت لذیذ لگیں گے۔ کھائیے نہ دادی امی ارے ابھی تو تیری اماں نے چائے پلائی ہے۔ پر یہ میرے ہاتھ سے دادی اچھا بابا لے لیتی ہوں۔ حسن کہاں ہے باہر گیا ہے وہی لفنگے دوستوں کے ساتھ کتنا سمجھاتی ہوں کچھ پڑھ لکھ لے مگر اس کے تو جوں نہیں رینگتی۔
عمر تم تو اپنے کاروبارمیں مصروف رہتے ہو بیٹا حسین کے لیے کچھ سوچو وہ اپنا سارا وقت لفنگوں کے ساتھ ضائع کرتاہے۔ ابھی بھی وقت ہے بیٹا پڑھنے لکھنے کا۔ میں تو کہتی ہوں مریم کے ساتھ ہی اس کا بھی ایڈمیشن علی گڑھ میں کروا دو کم سے کم ان دوستوں کا پیچھا تو چھوٹے گا۔میں سوچتی ہوں تمہاری طرح یہ بھی ساری زندگی چھوٹا موٹا کاروبار میں ہی اپنی زندگی نہ صرف کردے آنے والاوقت تو اور مشکل ہوگا۔ تم تو حالات دیکھ رہے ہو ہندوستان کا۔ جب سے کورونا والاوقت آیا تو اور بھی مارا ماری ہے نوکری چاکری کے اور مسلمانوں پر تو لگتا ہے قہر ہی نازل ہے خدا کا۔ اگر تمہارے سسر نے یہ گھر نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا ہم تو سڑک پر ہوتے۔ تمہارے دونوں بھائی پڑھے لکھے تھے تو کامیاب ہوگئے مگر میں نہیں چاہتی بیٹا تمہاری طرح حسین بھی۔ ہاں اماں آپ صحیح کہتی ہیں میں حسین سے بات کرتا ہوں۔
دوبار حسین کا ٹیسٹ دلایا گیا پر حسین کامیاب نہ ہوپائے۔ابا اور دادی حسین کو پپوا بلاتی ہے یہ ہمارے گھر کے سامنے والے ہوٹل میں پپوا نام کا ایک ۱۵۔۱۶ سال کا لڑکا کام کرتا ہے۔ حسین اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے خالہ آئی تھی اپنے بیٹے کی نوکری لگنے کی خوشی میں مٹھائیاں لائی تھی ابا نے بڑے غصے میں حسین کی طرف مٹھائی کا ڈبا بڑھایا اور کہا لے پپسوا تو بھی کھالے شاید تیرے پلے بھی کچھ پڑجائے۔
اس کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے نجمہ لیکن اس کے کچھ بھی پلے نہیں پڑتا۔ نجمہ خالہ نے جلدی سے پان منھ میں ٹھونس کر۔ ارے بھائی سب ایک جیسے ہوجائیں تو دنیا کا نظام ہی نہ بدل جائے۔ ویسے میں نہ کہتی ہوں بھائی صاحب یہ نوکری ووکری تو کرنہ پائے گا اسے پپوا کے ساتھ لگا دو کوئی کام برا تھوڑی ہوتا ہے۔ وہ بھی تو آخر ایک لڑکا ہے۔ چار پیسے بھی آئیں گے اور ان نکمے دوستوں سے چھٹکارا بھی مل جائے گا۔
نجمہ خالہ کے طنز بھرے الفاظ ابا کو گولیوں کی طرح لگ رہے تھے۔ ابا خاموشی سے خالہ کی باتیں سنتے رہے۔ کچھ بولنا چاہتے تو خالہ اپنی باتوں کی رفتار اور تیز کرلیتی۔ پان تو خالہ چبارہی تھی پر رنگ ہم پر چڑھ رہا تھا۔دن مہینے سال گزرتے گئے خالہ بہت جلد ہی کار سے آنے جانے لگی۔
دیکھ دروازے پر کون ہے میں دیکھتی ہوں امی۔ ارے روبی، کیسی ہو بہت دنوں بعد آنا ہوا۔ ہاں جیسے خودتو روز آتی ہو ہمارے گھر۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کیوں خالہ، ہاں روبی مگر مریم کا آنا بھی کم ہوتا ہے اور جب آتی ہے کچھ نہ کچھ بوالہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ ابھی کل ہی دیکھو کوئی بات نہیں تھی بس ذرا سا سامان دینے میں دیر ہوگئی دکان کا سارا سامان توڑ دیا۔ آج کل کے کھلے سانڈوں نے کتنی بربادی کی کچھ تو باہر پھینک دیا کچھ پیروں سے روند ڈالے۔ ہاں آنٹی بھائی بتارہا تھا۔ امی ابو بھی آنے کو تھے مگر ضروری کام سے کہیں جانا پڑا۔ کریلی کا ماحول دن بہ دن بہت خراب ہوتا جارہا ہے۔ آنٹی کچھ وقت پہلے ہمارے ہوٹل میں بھی کچھ لڑکے گھس آئے تھے۔ لڑکے نہیں سانڈ ہیں سانڈ۔
دادی کی آواز کمرے میں گونج اٹھی دادی سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی کہاں کچھ پہلے جیسے رہ گیا ہے ہمارا زمانہ تھا پاروتی کا آنگن اور بچپن جسے کبھی ہم بھولے ہی نہیں۔ کھانا، پینا، ناچنا، گانا سبھی ایک ساتھ ہوا کرتا تھا۔ بچپن کی یادیں پاروتی کے آنگن میں دفن ہوجیسے۔ بیل کا درخت، آم کا درخت، مہوا کا درخت اور وہ گل بہار کی خوشبو، دادی لمبی سانس لے کر آنگن میں پڑی تپائی پر بیٹھ گئی تھی۔
جمعہ کی نماز پڑھی جاچکی تھی لوگ اپنے گھروں کی اور بڑھنے لگے تھے تبھی فائرنگ کی آواز سنائی دی کچھ لوگ آواز کی طرف بھاگنے لگے کچھ اپنے گھروں کی طرف کچھ اپنی دوکانوں میں چھپ گئے۔ مسجد میں جو لوگ رہ گئے تھے انہیں باہر نکلنے کا راستہ نہ سوجھتا تھا۔ گیٹ میں تالا ڈال دیا گیا تھا۔ اللہ کے گھر میں بھی چین نہ ملتا تھا۔ مانو صور پھونک دی گئی ہو، حشر کا میدان تیار تھا۔ سبھی اپنے اعمال نامہ لیے دوڑ رہے ہوں کسی کو کسی سے مطلب نہیں تھا۔ سبھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوگئے تھے پولیس والوں کا ایک جھنڈ سامنے کی طرف تھا اور نوجوانوں کا چوراہے کی طرف جس کے پیچھے مسلم محلہ پڑتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ملیٹری فورس نے کریلی کو چاروں اور سے گھیر لیا تھا۔ پورا ایریا چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ پتھر بازوں پر گولیاں برسائی جارہی تھیں۔ نہ جانے کتنے موٹر، کار آگ کے حوالے کردی گئی تھی۔
کسی کے گیٹ بھڑبھڑانے کی آواز آئی۔ مریم نے جلدی سے دروازہ کھولا۔ کیا ہوا زاہد سب خیر تو ہے۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے خالہ کہاں ہے۔ زاہد جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ خالو اور حسین کو پولیس اٹھالے گئی۔ میں مسجد سے دیوار پھاند کر آیا ہوں۔ سبھی لوگ ہمت سے کام لو ان کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ آج زاہد کتنا بڑا لگ رہا تھا۔ اس نے من میں سوچا تھا۔زاہد اس سے پورے چار سال چھوٹا تھا۔ اسکول کے دنوں میں وہ اکثر اس کا لنچ کھاجاتا تھا۔ میں نے ایک دن موقع پاکر خالہ کو بتا دیا تھا جب خالہ ہمارے گھر آئی تھی۔ خالہ نے زاہد کی جھاڑو سے پٹائی کی تھی۔ اس کے بعد زاہد میرے کلاس میں آنا بند کردیا تھا۔مگر راستہ میں وہ مجھ سے ضرور پوچھتا ٹفن میں کیا لائی تھی۔میں اس کے لیے لنچ ضرور بچا دیتی اور دھیرے سے اسے دے دیتی۔ زاہد مجھ سے پورا چار کلاس چھوٹا تھا۔ یہ خالہ کاوہی ہونہار بیٹا تھا جس کی کچھ مہینے پہلے ہی سرکاری نوکری لگی ہے۔
زاہد خبر دے کر جاچکا تھا سبھی صدمے میں تھے۔مریم نے جان پہچان کے سبھی بڑے لوگوں کو فون لگاڈالا تھا کچھ لوگوں سے بات ہوپائی تھی کچھ نے تو دسیوں بار کرنے پر بھی فون نہیں اٹھایا۔ان کی کچھ خبر آئی نہیں۔ دو دن ہوگئے میرے بچے کس حال میں ہوں گے کچھ کھایا بھی ہوگا کہ نہیں، مارا پیٹا تو نہیں میرے بچوں کو، دادی فجر کی نماز پڑھ کر جانمازلپیٹتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔ امی کچن میں چائے بنارہی تھی کسی کے پکارنے کی آواز آئی۔ مریم جلدی جلدی سیڑھیاں اتری کون نوٹس آئی ہے۔ گیٹ کے باہر ایک لمبا چوڑا افسر کھڑا تھا۔ دو دن کے اندر گھرخالی کرنا ہے۔ کیا ہوا مریم کون ہے دادی کی کئی بار آواز آچکی تھی۔مریم کچھ نہ بول پارہی تھی۔ گھر نہیں یہ تو ہماری چھوٹی سی دنیا تھی جس میں نہ جانے کتنی یادیں بسی تھیں۔ اس گھر کے ایک ایک اینٹ سے ہمیں محبت ہے۔
مریم نے چاروں طرف دیکھا اور خاموشی سے آنگن میں رکھی تپائی پر بیٹھ گئی۔ کیا ہوا؟ کون آیا تھا۔ بتاتی کیوں نہیں۔ دادی کے چیخنے پر۔۔۔۔۔۔۔۔ دادی اس پوری کائنات کا حاکم کون، مالک کون، اور دیکھیے تو دادی جھوٹے لوگ جو اپنے کو خدا سمجھتے ہیں ہم سے ہمارا گھر چھیننا چاہتے ہیں۔وہ بہت زور زور سے ہنسنے لگی اس کی ہنسی اور تالیوں کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی۔ پاروتی کا آنگن آج سرخ ہوچکا تھا۔ اس کے آنگ میں دفن مردے چیخ رہے تھے۔ ان کو مڑ کر کوئی نہ دیکھتا تھا۔ سب دوڑے چلے جارہے تھے۔

You may also like

Leave a Comment