Home افسانہ بُلاوا (افسانہ)-ڈاکٹر محفوظ الرحمان جاوید

بُلاوا (افسانہ)-ڈاکٹر محفوظ الرحمان جاوید

by قندیل

سابق استاذ، شعبۂ اردو
گلاسگو یونیورسٹی، برطانیہ
[email protected]

ریشل ابھی اپنے گھر سے چند گز کے فاصلے پرتھی جب اس نے ایک اجنبی شخص کو اپنے گھر کی ڈیوڑھی سے باہرنکلتے دیکھا۔ اس نے سوچا شاید یہ اجنبی اس کے شوہر ابرم کا کوئی دوست ہوگا، مگرحیرت کی بات تھی کہ آنکھوں کے علاوہ اس انجان شخص کا پورا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایک لحظے کے لیے دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور ریشل کے سارے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ شخص رکا نہیں بلکہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ وسوسوں میں گھری ہوئی ریشل اپنے گھر کی طرف بڑھی اور دروازے پر نگاہ پڑتے ہی اس کے اندیشوں کی تصدیق ہوگئی، دروازے پر وہ اجنبی ایک اشتہارچسپاں کرگیا تھا جس میں اسے تین دن کے اندر قربان گاہ پر طلب کیا گیا تھا۔
تین دن توبہت کم ہوتے ہیں، ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی، تیس سال! ابھی تو اس کو بہت کچھ کرنے کی تمنا اور ہوس تھی، ریشل اداسیوں کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی۔ خوف و دہشت نے اس کے اعصاب مفلوج کردئیے، اس کے پاؤں اٹھ نہیں رہے تھے، بدقت تمام اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔ گھر میں کوئی نہیں تھا، ابھی ابرم وانا کو لے کر بازار سے نہیں لوٹا تھا۔
آج پتہ نہیں کیا ہوا تھا کہ کارخانے کے مالک نے ریشل کو وقت سے پہلے چھٹی دے دی تھی۔ اس نے سوچا کہ ابرم اور وانا کسی بھی وقت آتے ہوں گے لہذا کھانا بنانے کی تیاری کرنی چاہیئے۔ اشتہار دیکھنے کے بعد اس کے اندر کچھ بھی کرنے کی سکت نہیں رہ گئی تھی، پھر بھی کسی طرح اس نے اپنے آپ پر جبر کیا اور باورچی خانے میں داخل ہوئی، معاًابرم اور وانا بھی گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کی آواز سن کر وہ باورچی خانے سے دوڑکرباہر نکلی اور لپک کر وانا کو اپنے جسم سے لپٹالیا، اس کے ضبط کابندھن ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی، روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وانا، جو ابھی بمشکل سات سال کی رہی ہوگی، حیران و پریشان تھی کہ اس کی ماں اس قدر زار و قطار کیوں رو رہی ہے، وہ اپنی ہتھیلیوں سے اپنی ماں کے آنسو پونچھنے لگی اور ابرم سے دریافت کیا کہ اس کی ماما اتنا کیوں رورہی ہے۔ ابرم لاتعلقی سے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ جب کچھ دیر بعد ریشل کے دِل کا غبار نکل گیا تو وہ اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہوئی۔
"تم نے دروازے پر چسپاں اشتہار دیکھ لیا؟” وہ گویا ہوئی۔
"ہاں، دیکھ لیا۔” ابرم نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
"پھر اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟” ریشل نے دریافت کیا۔
"کرنے کا کیا ارادہ ہے! جو بھی نظم کا فیصلہ ہے، ہمیں اس کی اطاعت کرنی ہوگی۔ ” ابرم نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
” لیکن میرا کیا ہوگا؟ میں تم سے اور وانا سے کتنی محبت کرتی ہوں، وانا میرے بغیر کیسے جی سکے گی؟” ریشل نے سسکتے ہوئے کہا۔
"دیکھو ریشل ! تین دن بعد تم کو ہوش بھی نہیں ہوگا کہ وانا نام کی تمھاری کوئی بیٹی تھی،” ابرم تفہیمی انداز میں بولا، "رہ گئے میں اور وانا، تو مجھے آغاز میں یقیناً کھانے پینے کی پریشانی ہوگی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کا بھی کوئی انتظام ہوجائے گا۔ وانا ابھی بہت معصوم اور چھوٹی ہے، تم کو بھولنے میں اسے زیادہ وقت نہیں لگے گا، خاص کر اگر مجھے شادی کے لیے جلد ہی کوئی مناسب لڑکی مل جاتی ہے۔”
"مگر اِس میں میری خطا کیا ہے؟” ریشل ہذیانی انداز میں چیخی۔
"میں کیا بتا سکتا ہوں۔ نظم کا فیصلہ ہے کہ تم کو ایک موذی بیماری لگ گئی ہے، لہذا تم کو تجریدی عمل سے گزرنا ہوگا،” ابرم کا لہجہ ہر قسم کے تاثر سے پاک تھا۔
"یہ کون سی بیماری ہے، جس کا نام بھی مجھے نہیں بتایا گیا، دو دن قبل میرے مرض کی تشخیص ہوئی ہے اور آج تین دن کے اندر مجھے قربان گاہ پر طلب کرلیا گیا؟” ریشل کے لہجے میں احتجاج تھا۔
"تم مجھ سے کیوں حجت کرتی ہو؟ کیوں نہیں خود ہی طبیب کے پاس چلی جاتی ہو، شاید وہ تمھاری کوئی مدد کرسکے۔” ابرم غسل خانے کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
ریشل نے خاموشی اختیار کرلی، وانا کو اپنے بازوؤں میں لے کر باورچی خانے میں داخل ہوئی اور اس کو ایک مونڈھے پر بٹھادیا۔ ایک ہاتھ سے اس نے آٹا گوندھنا شروع کیا ، دوسرے ہاتھ سے وانا کو پیار کرتی جاتی۔ وہ خاموش تھی مگر بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں، وانا اس کو سمجھاتی "ماما، نہ روئیں، سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔”ریشل چپ تھی مگر جب وانا اس کو سمجھاتی تو وہ پیار سے اس کی طرف دیکھتی اورمسکراکر رہ جاتی۔
تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہوگیا، ریشل نے ابرم اور وانا کو کھانا کھلایا اور طبیب کے پاس جانے کےلیے تیار ہوگئی۔ "تم کھانا نہیں کھاؤ گی؟” ابرم کے لہجے میں خشونت تھی۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔” ریشل کا جواب تھا۔
طبیب کا حجرہ بستی کے وسط میں تھا۔ غروبِ آفتاب میں ایک ساعت سے کچھ اوپر وقت رہ گیا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی اس نے دیکھا کہ اس کا پڑوسی تمیر اپنی ضعیف ماں کو کندھے پر بٹھاکر حسبِ معمول کنارِ دریا سیر کرانے لے جارہا ہے۔ "تمیر کی ماں اسی، پچاسی سال سے کیا کم ہوگی؟” اس نے سوچا، "مگر ابھی تک قربان گاہ سے اس کا بلاوا نہیں آیا ہے، میرا کیا جرم تھا کہ تیس سال کی عمر میں مجھے طلب کر لیاگیا؟” وہ سوچتی رہ گئی۔
ریشل نے آگے بڑھ کر دونوں کو ادب سے سلام کیا، مگر وہ دونوں اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ شاید انہوں نے اس کی آواز نہیں سنی تھی۔ راستے میں اس کو کئی ایک پڑوسی اور واقف کار ملے، اس نے اُن کو متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر اسے حیرت تھی کہ سبھوں کے چہرے پر اجنبیت کی چھاپ تھی، وہ اس کے سلام کا جواب دینے کے بجائے تیز تیز قدموں سے آگے گزر جاتے۔ لوگوں کے طرزِ عمل سے ریشل کو یقین ہوگیا کہ بستی والوں کو اس کی بیماری اور قربان گاہ میں بلاوے کا علم ہوچکا ہے۔ "اگر ایسی بات ہے تو میں ان کی ہمدردی کی مستحق زیادہ ہوں، نہ یہ کہ وہ مجھ سے اظہارِ نفرت کرنے لگیں۔” ریشل کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔
بستی کے وسط میں پہنچ کر مزید تصدیق ہوگئی، چوک کے سنگی منارے پر اس کے نام کا اشتہار چسپاں تھا، ریشل کا دہن تلخی سے بھر گیا۔ طبیب اپنے حجرے میں کسی مریض کے ساتھ تھا، باہر سائبا ن میں چند ایک مریض مونڈھوں پر بیٹھے اپنی باریوں کا انتظار کررہے تھے۔ ریشل بھی ایک مونڈھے پربیٹھ گئی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد طبیب کے معاون نے ریشل کو حجرے کے اندر جانے کا اشارہ دیا۔ وہ اندر داخل ہوئی اور جیسے ہی طبیب کی نگاہ ریشل پر پڑی، وہ اپنی مسند پر بیٹھے بیٹھے ہاتھ اٹھاکر بولا "تم کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں تھی، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، یہ نظم کا فیصلہ ہے”۔
ریشل سنی اَن سنی کرتے ہوئے مریضوں کے مونڈھے پر جاکر بیٹھ گئی اور بولی ” لیکن آپ یہ تو بتاسکتے ہیں کہ مجھے بیماری کیا لاحق ہوئی ہے؟”
"اب یہ غیر متعلق سی بات ہے کہ تمہاری بیماری کی نوعیت کیا ہے۔ نظم کا فیصلہ آچکا ہے اور یہ حتمی ہے۔ اگر تم کو اپنے مرض کی تفصیلات کا پتہ چل بھی گیا تو اس سے تم کو مزید دکھ ہوگا۔ تمہارے پاس محض تین ایام ہیں اور میری خواہش ہے کہ تمہارے آخری لمحات خوشی کے ہوں تاکہ تمہاری روح کو ابدی سکون ملے۔” طبیب کا لہجہ تیقن سے بھر پور تھا۔
"میری روح کو اسی وقت سکون ملے گا جب مجھے معلوم ہو کہ میرا جرم کیا ہے۔ اگر آپ کو میری فلاح و بہبود اور ابدی مسرت کا اتنا خیال ہے تو آپ مجھے میرے گناہ سے آگاہ کریں۔” ریشل نے زہر خند لہجے میں کہا۔
"تمہارا گناہ یہ ہے، ریشل” طبیب نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا "کہ تمہاری محبت کا پیمانہ خالی ہوچکا ہے اور جب کسی کی محبت کا پیمانہ خالی ہوجائے تو وہ اِس دھرتی پر بوجھ بن جاتا ہے۔ ”
"میں آپ کی بات پر یقین نہیں کرسکتی” ریشل کی آنکھیں آنسؤوں سے جھلملارہی تھیں، ” میری بچی وانا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، میں ابرم کو ٹوٹ کر چاہتی ہوں، میرے والدین اور میرے اعزہ و اقارب میری زندگی کا محور ہیں۔ میری محبت کا پیمانہ تو لبریز ہے، نظم نے کیسے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ میں محبت سے تہی دست ہوں؟”
"نظم کو اس سے کوئی سروکارنہیں ہے کہ تم دوسروں سے کتنی محبت کرتی ہو، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ لوگ تم سے کتنی محبت کرتے ہیں۔” طبیب نے وضاحت کی۔
"اچھا، تو کیا نظم یہ سمجھتا ہے کہ میری بچی جو بے لوث پیار مجھ سے کرتی ہے، وہ مصنوعی ہے؟” ریشل کے چہرے پر بے اعتباری تھی۔
"وانا ابھی معصوم بچی ہے، جب تک اس کی عمر تیرہ سال کی نہیں ہوجاتی، نظم کے پیمائشی اصول اس کی محبت یا نفرت پر لاگو نہیں ہوتے۔” طبیب یہ کہتے ہوئےاٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا "سورج ڈوبنے والا ہے، تم کو پتہ ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد میں کسی مریض کو نہیں دیکھ سکتا، ابھی مجھے کئی مریضوں کو دیکھنا ہے۔ تمہارے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے گھر پہنچ جاؤ ورنہ تمہارے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔”
ریشل خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور باہر نکل گئی۔
بے چینی کے سبب ریشل کو رات بھر نیند نہیں آئی، پھر بھی وہ علی الصبح اٹھ گئی، ابرم اور وانا کے لیے ناشتہ تیار کیا، جب وہ ناشتہ سے فارغ ہوگئے تو اس نے ابرم سے کہاکہ اس کے پاس اب زیادہ وقت نہیں ہے ، اس لیے اب وہ کارخانے نہیں جائے گی۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ اپنے والدین سے ملنے جارہی ہے اور ابرم سے درخواست کی کہ وہ بازار میں اپنی دوکان پر جاتے ہوئے وانا کو ا س کے مکتب میں چھوڑ دے۔ ابرم نے زبان سے کچھ نہیں کہا، محض شانے اچکاکر رہ گیا۔
ریشل کے والدین کی بستی کئی کوس کی مسافت پر تھی، اس کی کوشش یہ تھی کہ دھوپ میں حدت آنے سے پہلے وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ ریشل کے والدین گھر پر تھے، اس نے دونوں کو سلام کیا، اس کی ماں نے اس پراچٹتی نگاہ ڈالی، باپ نے دھیرے سے اس کے سلام کا جواب دیا۔ ان دونوں کی سرد مہری سے اسے اندازہ ہوگیا کہ قربان گاہ میں اسکے بلاوے کی خبر ان تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے دل میں یہ خواہش مچل اٹھی کہ اس کے والدین اس خبر پر اظہارِ تاسف کریں مگر دونوں کے چہرے جذبات سے عاری تھے۔ بالآخر وہ اپنے باپ سے مخاطب ہوکر بولی "بابا، کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ لوگ مجھ سے محبت نہیں کرتے ہیں؟”
"یہ سوال پوچھتے ہوئے تم نے بہت تاخیر کردی” اس کے باپ نے جواب دینے میں دیرنہیں لگائی۔
"میں انتہائی معذرت خواہ ہوں اگر تاخیر سے یہ سوال کررہی ہوں، مگر مجھے آپ دونوں بتائیں کہ کیا آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے؟” ریشل نے اصرار کیا۔
"تمہاری معذرت اب تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔ پہلے تم صبح شام ہماری خدمت میں جُٹی رہتی تھیں مگر جب سے تم نے ابرم سے شادی کی ہے، ہفتے میں ایک بار آتی ہو۔ تمہاری ساری توجہ اپنے شوہر، اپنی بچی ، اپنے کام اور اپنے گھر پر ہوتی ہے۔” اس کے باپ نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے دل کا حال بیا ن کردیا۔
” یہ صحیح ہے کہ میں ہفتے میں ایک بار آتی ہوں مگر پورے ہفتے کا کام کرکے جاتی ہوں۔ کیا مجھے شادی کرنے، گھر بسانے اور بچہ پیدا کرنے کا حق نہیں تھا؟” ریشل ہار ماننے والی نہیں تھی۔
"ضرور تھا، مگر تم ہمارے پڑوس میں بھی مکان لے سکتی تھیں۔” ریشل کی ماں پہلی بار بولی۔
"آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ میں بھی یہی چاہتی تھی، مگر ابرم راضی نہیں تھا۔ پھر آپ دونوں کی مرضی سے میں ابرم کی بستی میں منتقل ہوئی۔ اگر آپ دونوں کو میری خوشیاں عزیز نہیں تھیں تو آپ اس کا اظہار تو کرتے۔ آپ کی محبت آپ کی نفرت میں کب تبدیل ہوگئی، مجھے اس کا پتہ کیوں نہیں چلا؟” ریشل کی آواز درد سےلرز رہی تھی۔
"ہمیں کھیتوں پر جانا ہے” اس کا باپ اٹھتا ہوا بولا "تمہارا چھوٹا بھائی زیوف پہلے ہی کھیتوں پر جاچکا ہے۔ اگر چاہو تو ہمارے ساتھ چلو”۔ ریشل فوراً تیار ہوگئی۔ کھیتوں پر زیوف ملا، دیکھتے ہی پھٹ پڑا "مجھے یقین تھا کہ تمہارے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ تم سارا بچپن میری انگلی پکڑ کر مجھے چَلاتی رہیں اور جیسے ہی تمہاری شادی ہوئی، تم مجھ کو بھول گئیں۔”
"میں کب تم کو بھول گئی؟” وہ روہانسی ہوکر بولی "تم بڑے اور جوان ہوچکے تھے، تمہاری اپنی بھی ذمے داریاں تھیں۔ ویسے بھی میں تمہاری بہن ہوں، ماں نہیں ہوں کہ ساری زندگی تمہارے ساتھ ماں بن کر گزارتی۔”
"اچھا تو کیا پھر نظم کا فیصلہ غلط ہے؟” زیوف نے چڑانے کے انداز میں کہا۔
ریشل کچھ نہیں بولی، وہ درخت کے سائے میں جاکر بیٹھ گئی اور پھر کچھ دیر میں اپنی بستی کے لئے روانہ ہوگئی۔
دن کا بقیہ حصہ ریشل نے بستر میں اوندھے منہ لیٹ کر گزارا۔
اگلے روز ریشل بمشکل بستر سے اٹھی، اس کے پاؤں من من بھر کے ہورہے تھے۔ اسے پتہ تھا کہ اُس کے پاس صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا تدبیر اختیار کی جائے جس سے اس کے اضطراب میں کمی ہوسکے۔ معاً اسے معبد کا خیال آیا جو بستی کے جنوب میں واقع تھا، ا س نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کچھ وقت معبد میں گزارنے سے اس کی بے چینی رفع ہوسکے۔ وانا کو مکتب میں چھوڑ کر وہ معبد کی طرف نکل گئی، معبد کا دروازہ بند تھا، وہ معبد کے پائیں باغ میں اس امید سےداخل ہوگئی کہ شاید کوئی ایسا شخص مل جائے جو اس کے درد کا مداوا کرسکے۔ اس کی امید بر آئی، معبد کا عابد باغ میں چہل قدمی کررہا تھا۔ ریشل اس کی طرف بڑھتی چلی گئی، عابداس کو دیکھ کر ٹھٹکا اور بولا:
"اے عورت ! تم کون ہو اور کیا چاہتی ہو؟”
” اے مقدس شخص ! میں ایک دُکھیاری عورت ہوں اور ہدایت کی متلاشی ہوں” ریشل نے فریاد کی۔
” یہاں ہر جویائے راہ کو ہدایت ملتی ہے، بولو تمہارا سوال کیا ہے؟” عابد نے متانت سے جواب دیا۔
"مجھے بتایئے محبت کیا ہے؟” ریشل کے لہجے میں درد پنہاں تھا۔
"محبت خود غرضی کی دبیز چادر کو چاک کردینے کا نام ہے” عابد رسان سے بولا۔
"اور نفرت؟” ریشل کی آنکھوں سے آنسؤوں کا سیلاب پھٹ پڑا۔
"نفرت وہ تاریک وادی ہے جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے اور منزل کھوٹی ہوجائے” ۔ عابد کے لہجے میں وقار تھا۔
"خود غرض کون ہوتا ہے؟” ریشل کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
"خود غرض حرص و طمع کے بند گنبد میں بسیرا کرتا ہے، وہ دوسروں کو سننے سے قاصر رہتا ہے، اس کو ہمیشہ اپنی ہی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔” عابد نے مستند لہجے میں وضاحت کی۔
"اے راست گوانسان! آپ کی باتوں سے میرا اضطراب رفع ہوگیا، میری دعا ہے کہ سلامتی آپ پر ہمیشہ سایہ فگن رہے۔” ریشل یہ کہہ کر مڑی اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔

آخری رات بھی کسی نہ کسی طرح کٹ گئی۔ اشتہار میں درج ہدایات کے بموجب ریشل نے صبح سویرے غسل کیا ، نئے کپڑے زیب تن کیے، خوشبو لگائی اور دو دن کا زادِ راہ تیار کیا، پانی کا ایک مشکیزہ بھی تیار کرلیا اور فرستادے کا انتظار کرنے لگی۔ وانا جب تیار ہوکر ابرم کے ساتھ مکتب جانے لگی تو وہ اس کو دالان میں لے گئی اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگی "میرے جگر کے ٹکڑے! ہوسکتا ہے کہ جب تم مکتب سے واپس آؤ تو مجھے نہ پاؤ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی بھی ایک دوسرے سے نہ ملیں مگر یاد رکھنا کہ میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں گی، تمہارے خوابوں میں، تمہارے خیالوں میں، تمہارے دل میں، تمہارے دماغ میں، تمہارے جسم میں اور تمہارے گردوپیش۔ تم کو جب بھی میری ضرورت پڑے گی، میں تمہارے پاس حاضر ہوجاؤں گی۔” ریشل کی آنکھوں سے پھر آنسو جاری ہوگئے۔
وانا کہنے لگی "ماما، آپ بہت روچکی ہیں، اب مزید مت روئیں۔”
"یہ میں آخری بار رورہی ہوں، وعدہ کرتی ہوں اس کے بعد نہیں روؤں گی۔” ریشل نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
وانا اپنے باپ ابرم کے ساتھ مکتب چلی گئی اور کچھ ہی دیر بعد فرستادہ گھوڑا گاڑی لے کر آگیا۔ ریشل نے اپنی زنبیل ایک ہاتھ میں اٹھائی اور دوسرے ہاتھ میں مشکیزہ پکڑا اور خاموشی کے ساتھ گھوڑا گاڑی میں بیٹھ گئی۔
ریشل کو لے کر فرستادہ شمال کی طرف روانہ ہوا۔ بستی میں لوگ نظم کی گھوڑاگاڑی دیکھ کر سر جھکادیتے اور ادب سے سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے۔ ریشل کی بستی کے بعد کئی ایک بستیاں راستے میں ملیں، چار مزید لوگ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ بعد دوپہر انسانی بستیاں ختم ہوگئیں، فرستادہ گاڑی آگے بڑھاتا رہا، پھر پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا اور گاڑی ایک وسیع وادی میں داخل ہوگئی۔ سہ پہر کے قریب ایک پہاڑ کے دامن میں گاڑی رکی اور پانچوں مسافروں سے اترنے کو کہا گیا۔ یہ مختصر سا قافلہ کافی دیر تک پیدل چلتا رہا اور ایک غار کے دہانے پر پہنچ کر رک گیا۔ ریشل نے دیکھا کہ ان کی طرح بے شمار انسانوں کے چھوٹے چھوٹے قافلے غار کے دہانے کے پاس کھڑے ہوکر اذنِ باریابی کا انتظار کررہے ہیں۔ غروبِ آفتاب سے پہلے محتسبین کی ایک جماعت غار سے نکلی اور اپنے اپنے قافلوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ غار کےاندر داخل ہوتے ہی ریشل کو انسانوں کا ایک جمِّ غفیر نظر آیا، اس میں جوان، بوڑھے، بچے اور عورت، مرد سبھی شامل تھے، یہ لوگ مختلف ٹولیوں میں تقسیم بیٹھے تھے۔ ہر طرف آہ و بکا کی صدائیں بلند ہورہی تھیں اور کان پڑے آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ ریشل بھی اپنے محتسب کے حکم پراپنے سامان کے ساتھ ایک ٹولی میں شامل ہوگئی۔ ٹولی میں شامل لوگ رورہے تھے اور اپنی اپنی کہانیاں ایک دوسرے کو سنارہے تھے۔ ریشل کچھ بولی نہیں، خاموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔ ریشل نے دیکھا کہ بہت سارے محافظ ہاتھ میں چابک لیے انسانی بھیڑ کی نگرانی کررہے ہیں اور ہر ایک ساعت کے بعد جانوروں کی طرح ان کو ہانک کر مزید غار کے اندر دھکیل دیتے ہیں۔ روشنی کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا ، اندھیرے ہی میں ٹٹول کر ریشل کی ٹولی نے اپنی اپنی زنبیل سے کھانا نکال کر کھایا ۔ یہ سارے لوگ تھکے ماندے تھے اور کچھ ہی دیر میں ان کی اکثریت سوگئی، باقی لوگوں نے آہ و فغاں کرتے رات گزاری۔ ریشل کو نیند نہیں آئی، وہ ساری رات وانا ، ابرم، والدین، بھائی اور دیگر اقارب کو یاد کرتی رہی۔

صبح ہوئی مگر ریشل کی ٹولی اس وقت غار کے اس حصے میں تھی جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ جب محافظین نے چابک لہرا لہرا کر انہیں غار کی دوسری طرف ہانکنا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ شاید صبح ہوچکی تھی۔ سارا دن غار کے اندر ہی دھیرے دھیرے سفر کرتےگزرا، سہ پہر کے قریب ریشل کو غار کی دوسری طرف روشنی کی ہلکی سی کرن نظر آئی مگر غار کے دہانے تک پہنچنے سے پہلے رات ہوگئی اور محافظوں نے سارے لوگوں کو شب بسری کا حکم دیا۔ بالآخر دوسری صبح ہوئی اور ریشل کی ٹولی نے غار سے قدم باہر نکالا۔ باہر انہیں ایک وسیع وادی نظر آئی، جس میں ایک عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ ریشل کی ٹولی سے پہلے کئی ایک ٹولیاں قطار میں کھڑی تھیں۔ عمارت کے سامنے ایک چبوترہ بنا تھا جس پر ایک نقیب کھڑا تھا ، وہ نقارہ بجاتا جاتا اور اعلان کرتا جاتا، فاصلہ ہونے کی وجہ سے ریشل کو کچھ سنائی نہیں دیا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ریشل کی ٹولی بھی عمارت کے سامنے پہنچ گئی، نقیب نے نقارہ بجایا اور بلند آواز میں اعلان کیا "یہ عمارت فال گھر ہے، اس میں ہر ایک کو تجریدی عمل سے گزرنا ہوگا۔ تجریدی عمل کے نتیجے میں انسان اپنے جذبات و احساسات سے عاری ہوجاتا ہے، اپنی یادداشت مکمل طور پر کھودیتا ہے اور اپنے ماضی ، حال اور مستقبل سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بالآخر انسان پر ایک دائمی سکینت طاری ہوجاتی ہے اور وہ ابدی مسرت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ ایک مثالی، معیاری اور کامل سماج کی تشکیل دینے کے لیے تم لوگوں کو جس آخری قربانی کے لیے منتخب کیا گیا ہےاس کی جزاکے طور پرنظم کی طرف سے یہ تجریدی عمل ایک انعام ہے۔”
ٹولی میں شامل سارے افراد کے چہرے ساکت ہوگئے، ایسا لگتا تھا کہ پتھر کے مجسمے ہوں۔
ایک محافظ آگے بڑھا اور ریشل کی ٹولی کو فال گھر میں اندر جانے کا اشارہ کیا۔ اندر لاتعداد چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے، ایک دوسرے محافظ نے ریشل کوایک حجرے میں داخل ہونے کا اشارہ کیا۔ حجرے میں پہلے سے ایک عامل تھا جس کا سارا چہرہ اور جسم پردے سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے ریشل کو ہدایت کی کہ وہ اپنے سارے کپڑے اور زیورات اپنے جسم سے اتار دے، اس نے خاموشی سے تعمیل کی۔ مزید حکم ہوا کہ کپڑے، زیورات، زنبیل اور پانی کا مشکیزہ قریب پڑی ایک ٹوکری میں ڈال دے، ریشل سارے احکام بجا لائی۔

پھر عامل نے اسے ایک پیالے میں سبز رنگ کا مشروب پینے کو دیا، مشروب پیتے ہی ریشل کے پپوٹے بھاری ہونے لگے اور چند ہی لمحوں میں اس کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ تجریدی عمل کئی ساعتوں پر محیط تھا، دوپہر سے کچھ پہلے ریشل کی ٹولی میں شامل افراد فال گھر کی دوسری جانب نکالے گئے۔ باہر ایک وسیع و عریض باڑا بنایا گیا تھا جس کی دوسری طرف قربان گاہ واقع تھی۔ تجریدی عمل سے گزرنے کے بعد لوگ اسی باڑے میں ہانک کر اکٹھا کیے جاتے تھے۔ ایک محافظ ریشل کی ٹولی کو باڑے کی طرف ہانک کر لایا۔ باڑے میں پہلے سے بہت سارے لوگ موجود تھے، ریشل کی ٹولی بھی ان میں شامل ہوکر خلط ملط ہوگئی۔ یہ سب مادر زاد ننگ برہنہ تھے، ان کے چہرے سُتے ہوئے تھے، چہرے ہر قسم کے جذبات سے عاری۔ قوت گویائی سے محروم نہ تھے مگر غوں غاں کے علاوہ ان کے منھ سے کوئی آواز نہ نکلتی تھی، کبھی وہ روتے اور کبھی کھلکھلاکر ہنستے۔ کبھی محسوس ہوتا کہ وہ نوزائیدہ بچے ہیں، محض ان کے جسم بڑے ہیں اور کبھی لگتا وہ بے جان لاشے ہیں۔
دوپہر کے بعد محتسب اعلی آیا، اس نے باڑے کے چاروں طرف گھوم پھرکر قربانی کے انسانوں کا جائزہ لیا۔ وہ آج کی کھیپ سے کافی مطمئن نظر آرہا تھا۔ اس نے ایک محافظ کو اشارے سے بلایا اور اس سے کہا کہ نگراں کو جاکر بتادو کہ مزید کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے تجریدی عمل آج کے لیےموقوف کردیا جائے۔ کچھ دیر میں جلاد بھی آگیا اور پھر دونوں نے مل کر قربان گاہ کے انتظامات کاجائزہ لیا، جو کمیاں تھیں ان کی نشان دہی کی، محافظین نے فوری طور پر ان کا ازالہ کیا۔

سہ پہر کے قریب قاضی بھی آگیا اور قربانی کا عمل شروع ہوگیا۔ محافظ باری باری ایک ایک فرد کو ہانکتے ہوئے لاتے، ان کو قربان گاہ پر کھینچ کر اوپر لے جاتے ، ایک چوبی تخت پر بٹھاکر سر کو اس سے کچھ بلندی پر ملحق ایک دوسرے تخت پر نیہوڑا دیتے، دونوں بازؤوں کو بھی تختے پر پھیلادیتے۔ قاضی چند دعائیہ کلمات جپتا اور نظم کا آخری فرمان سناتا۔ جیسے ہی فرمان ختم ہوتا، جلاد اپناکلہاڑا فضا میں بلند کرتا اور قربانی کے انسان کا سر قلم کردیتا۔ قربان گاہ کے قریب دو بیل گاڑیاں کھڑی تھیں، محافظین ایک گاڑی میں سر اور دوسری گاڑی میں دھڑ پھینکتے رہتے، جب یہ گاڑیاں بھر جاتیں تو وہ کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوجاتیں، ان کی جگہ دوسری خالی بیل گاڑیاں لاکر کھڑی کردی جاتیں۔
ریشل باڑے کے ایک کنارے بیٹھی تھی اس لیے اس کی باری دیر سے آئی۔ باڑے میں خال خال کوئی بچا تھا جب محافظین اس کو لے کر قربان گاہ کی طرف چلے۔ شام ہوچلی تھی، آفتاب پہاڑ کی اوٹ میں چھپ چکا تھا، گرچہ ابھی پہاڑ کی چوٹیوں پردھوپ چمک رہی تھی مگر وادی میں اندھیرا پھیل رہا تھا۔ یکایک ریشل جھٹکے سے اپنے آپ کو دونوں محافظین کے بازؤوں سے چھڑا کر ایک طرف بھاگ کھڑی ہوئی اور قریب کی جھاڑی میں گھس گئی، جھاڑی میں جگنو جگمگارہے تھے۔ محتسب اعلی نے دونوں محافظوں کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا، اسے یقین تھا کہ انھوں نے کوئی ایسی حرکت ضرور کی ہوگی جس کی وجہ سے قربانی کی اِس عورت سے اِس قسم کے ردِ عمل کا مظاہرہ ہوا۔

دونوں محافظ جھاڑی کی طرف دوڑ پڑے، دوسرے محافظ بھی ان کی مدد کے لیے آگئے اور سبھوں نے مل کر کھینچ کھانچ کر ریشل کو کسی طرح جھاڑی سے نکالا اور قربان گاہ کے تختے پر لاکر بٹھادیا۔ سر کو پیشانی کے بل تخت پر ٹِکادیا اور دونوں بازو پھیلادیے۔ قاضی نے دعائیہ منتر جپنا شروع کیا، پھر اس نےنظم کا آخری فرمان سنایا۔ جلاد کا کلہاڑا فضا میں بلند ہونے لگا کہ ناگاہ قاضی کی نظر ریشل کے ہاتھ کی طرف پڑی، اس نے دیکھا کہ اس کی ایک مٹھی بند ہے۔ محتسب اعلی سے اس نے کرخت لہجے میں پوچھا کہ عورت کی مٹھی میں کیا ہے؟
جلاد کا کلہاڑا فضا میں بلند ہوچکا تھا۔
قبل اس کے کہ محتسب اعلی کوئی جواب دیتا، ریشل نے سر اٹھایا اور مٹھی کھول دی۔ اس میں ایک جگنو جگمگا رہا تھا۔
"یہ میری بیٹی وانا ہے۔” جگنو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریشل بڑے فخر سے بولی، اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ قاضی کا چہرہ دہشت سے سپید پڑگیا۔ محتسب اعلی جلاد کی طرف دیکھ کر پوری قوت سے چلایا "رُک جاؤ” مگر تب تک جلاد کا کلہاڑا نیچے آچکا تھا اور چشمِ زدن میں ریشل کا سر تن سے جدا ہوگیا۔

 

 

You may also like

Leave a Comment