Home ستاروں کےدرمیاں ابو الحیاحضرت مولانا قاری فخرالدین فخرؔ گیاویؒ

ابو الحیاحضرت مولانا قاری فخرالدین فخرؔ گیاویؒ

by قندیل
team

عبدالباری قاسمی
ریسرچ اسکالردہلی یونیورسٹی

عالم ربانی،نمونۂ یادگار سلف،خلیفۂ اجل حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،جگر گوشہ مایہ نازعالم دین حضرت مولانا خیر الدین صاحب ؒ گیاوی،عارف باللہ ،حامئی سنت،ماحئی بدعت،فاضل جلیل، بے مثال ادیب و شاعر ،جامع شریعت و طریقت حضرت مولانا ابو الحیا فخر الدین فخرؔ گیاویؒ ایک ممتاز عالم دین،بلن پایہ مشاق قاری ،غایت درجہ کے متقی اور علوم دینیہ میں اعلی درجہ کا رسوخ اور کمال رکھنے والے ایک عظیم انسان تھے ،آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی،جس کا ہر پہلو قابلِ رشک اور باعثِ تقلیدہے،آپ ظاہری وباطنی ہر قسم کے کمالات کا مجموعہ تھے ،آپ کی ذات گرامی گیا اور اس کے اطراف میں اس طرح چمکی کہ وہ علاقہ جہاں ہرطرف بدعات و خرافات کا دور دورہ تھا آپ کے میدان میں آتے ہی سب ختم ہوتا چلا گیا حالاں کہ آپ نے ان خرافات کے قلع قمع کیلیے مباحثوں کامیدان یا مناظروں کا اسٹیج قائم نہیں کیا؛بلکہ خداد اد حکمت و دانائی سے ان کے درمیان قرآن و سنت کا ایسا نمونہ پیش کیاکہ خود بہ خود تمام بدعتی حضرات بدعات و خرافات سے تائب ہوکر اہلِ سنت والجماع میں شامل ہوتے چلے گئے۔
آپ مختلف علوم و فنون میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے خواہ علم حدیث ہو یا فقہ وتفسیر ،تجوید و قراء ۃ ہو یا منطق و فلسفہ ،شعر و شاعری ہو یا نثر نگاری ،تحریر و تقریر ہو یا دعوت و تبلیغ ،غرض یہ کہ آپ کی زندگی کے یہ تمام گوشے اس لائق ہیں کہ ان پر تفصیلی مضامین لکھے جا سکتے ہیں ،اسی طرح آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو نظم و انتظام اور سلوک وتصوف بھی ہے جس کی نظیر جامعہ قاسمیہ رنگون(برما) جامعہ قاسمیہ گیا ،جمعیت علماء بہار ،علاقہ سے بے شمار رسوم و بدعات کا خاتمہ اور آپ کے بے شمار فیض یافتہ گان ہیں ۔
حضرت ؒ کی زندگی سے متعلق میری نظر سے اب تک جو مضامین گزرے ہیں ان سب میں حضرت کی علمی،ادبی،تبلیغی،تنظیمی اور اصلاحی پہلو کو موضوعِ قلم بنایا گیا ہے ؛لیکن ان میں سے کسی میں بھی دارالعلوم دیوبند میں آپ کی دورِ طالب علمی اور دارالعلوم کی تاریخی انجمن بزم سجاد سے آپ کے خصوصی لگاؤ اور تعلق کا ذکر نہیں ہے جبکہ یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم اور تابناک پہلو ہے جس کی روشنی میں آپ کی مستقبل کی زندگی کے خطوط دیکھے جا سکتے ہیں،یہی وہ اسٹیج ہے جس سے ربط و ضبط نے آپ کے فکر میں بلندی ،ذہن میں انقلاب ،دل میں سوزو تڑپ اور علم میں کمال و رسوخ پیدا کیا ، یہیں سے آپ کی تنظیمی صلاحیت کو جلا ملی ؛اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت کی زندگی کے اس پہلو کو خصوصی طور پر موضو عِ قلم بنایا جائے،تاہم اس سے پہلے آپ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنامناسب اور سود مند ہوگا۔
نام اور پیدائش: 
نام: محمد فخرالدین،کنیت:ابو الحیا ،تخلص:فخرؔ ،تاریخی نام:ظفیر عالم ہے ،۱۳۳۱ ؁ ھ مطابق ۱۹۱۲ ؁ء میں پیدا ہوئے ۔
تعلیم:
ناظرہ، حفظ،فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد محترم کی سپرستی میں حاصل کی،اس کے بعد مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ اور مدرسہ فرقانیہ ٹونک راجستھان میں رئیس القراء حضرت قاری عبدالمالک صاحب سے تجوید و قراء ۃ کی تعلیم حاصل کی اور اس دوران والد محترم سے گاہ بہ گاہ عربی کی بھی تعلیم حاصل کرتے رہے ،اس کے بعد مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ اور مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور میں متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی ، پھر شو ال ۱۳۵۲ ؁ ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیااور پانچ سال دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبان ۱۳۵۷ ؁ ھ میں فراغت حاصل کی ،حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ ،اما م المعقولات حضر ت علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور حضرت مولانا میاں اصغر صاحب دیوبندیؒ آپ کے مایہ ناز اساتذہ میں سر فہرست ہیں ۔
اصلاحی تعلق: تعلیم شریعت کے ساتھ تحصیل طریقت کی فکربھی دامن گیررہتی تھی اور چو ں کہ آپ کو زمانۂ طالب علمی میں ہی حضرت مولانا بشارت کریم صاحب گڑھولویؒ سے قلبی لگاؤ اور خصوصی تعلق پیدا ہو گیاتھا ؛لیکن آپ کے طالب علمی کے دور میں ہی حضرت گڑھولویؒ کا انتقال ہو گیاجس بنا پر آپ کو ان سے استفادہ کا موقع نہ مل سکا ؛لہذا آپ شیخ العرب والعجم حضرت مولاناحسین احمدمدنیؒ سے بیعت ہو گئے ،پھر کیا تھا آپ سراپا اپنے شیخ و مربی کے ہو کر رہ گئے ،جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ حضرت شیخ الاسلام کو بھی اپنے اس مرید پر غایت درجہ کا اعتماد ہو گیا ،حتی ٰ کہ کبھی کوئی ان کے متعلق شکایت بھی کرتا تو حضرت یقین نہ کرتے ؛بلکہ خود ہی آپؒ سے دریافت کر لیتے ،حضرت شیخ الاسلام کی ان سے محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی بھی آپ کی سفارش یا آپ سے پوچھے بغیر بہار کا کوئی پروگرام منظور نہیں فرماتے ،ان سب چیزو ں کے ساتھ ساتھ سلوک و تصوف کے مراحل بھی طے ہوتے رہے یہاں تک کہ حضر ت شیخ الاسلام نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
فراغت کے بعد میدان عمل میں قدم:چوں کہ آپ ایک اعلیٰ درجہ کے قاری اور شیخ القراء حضرت قاری عبدالمالک صاحب کے خصوصی شاگر د تھے ،جب آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو سننے والا مسحور ہوجاتا تھا ،آپ کی اس خو ش الحانی سے متاثر ہو کر مولانا محمود صاحب سورتی مہتمم دارالعلوم تاموے ،رنگون (برما)نے بہت اصرار کے ساتھ آپ کو اپنے مدرسہ میں تدریس کے لیے دعوت دی جسے آپ نے قبول کیا اوروہاں تشریف لے گئے ،ایک سال وہاں درس و تدریس کے بعد اپنے اساتذۂ کرام خصوصا حضرت شیخ الاسلام اور حضرت شیخ الادب کے مشورہ اور دعاء سے ۱۳۵۸ ؁ ھ میں’’جامعہ قاسمیہ ‘‘کے نام سے شہر رنگون میں ہی ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور اس کو اس قدر پروان چڑھایا کہ کچھ ہی عرصہ میں شرح جامی تک کی تعلیم ہونے لگی اور طلبہ جو ق درجوق وہاں آنے لگے ،اسے خوش قسمتی کہیے یا بزرگوں کی دور رس نظر کہ برما میں جاپان کی بمباری سے کچھ عرصہ پہلے ہی حضرت شیخ الاسلام اور والد محترم مولانا خیرالدین صاحب کے حکم پر آپ کو وہاں کا قیام ترک کرنای پڑااور اس طرح دو سال بعد آپ وطن مالو ف واپس آ گئے ،گیا آنے کے بعدوالد محترم نے اپنی علالت کے باعث مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ گیا کے تمام انتظامات آپ کے سپرد کردیے اور آپ نیاپنی تعلیمی ،تنظیمی اور روحانی صلاحیتوں کی بدولت مدرسہ کو غیر معمولی ترقیات سے ہم کنار کیا او ر ہزاروں شاگرد وں کو تیار کرکے بہار ہی نہیں ؛بلکہ پورے ملک میں علم وعمل کی روشنی کو پھیلانے میں اہم کردار اداکیا اور اخیر عمر تک اس کے انتظام انصرام کو بحسن و خوبی سنبھالے رکھا ،مدرسہ اور اس کے نظام سے متعلق آپ کا حسن انتخاب بہت ہی نرالا تھا ،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر جمیعۃ علماء ہند اور حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصور پوری جیسے اساتذہ نے جامعہ قاسمیہ گیا میں سالہا سال درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ۔
حضرت قاری فخرالدین فخرؔ گیاوی اور سجاد لائبریری:
سجاد لائبریری دارالعلوم دیوبند کی ایک قدیم اور تاریخی انجمن ہے ،جو بہار ،اڑیسہ،جھارکھنڈ و نیپال کے طلبہ کی نمائندگی کرتی ہے،اس کی بنیاد آپ کے دارالعلوم میں داخلہ سے چند سال قبل ۱۳۴۶ ؁ ھ میں امیر شریعت رابع مولالانا منت اللہ رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں ’’انجمن اصلاح البیان ‘‘کے نام سے ڈالی تھی،آپ کے دارالعلوم میں داخلہ کے وقت اس کی بناء کو ۶؍سال گزر چکے تھے ،اس وقت ان صوبوں کے تمام طلبہ سجاد لائبریری سے منسلک رہتے تھے ،آپ نے بھی دیگر طلبہ کی طرح سجاد لائبریری میں حصہ لیا اور کچھ ہی عرصہ کے اندر اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر قائدانہ کردار ادا رکرنا شروع کردیا ،اس تک بزم سجاد کی جانب سے کوئی تحریری شمارہ شائع نہیں ہوتا تھا ،باذوق طلبہ انفرادی طور پر ہی تحریری مشق کرتے تھے،آپ نے اس بات کومحسوس کیا اور اس کمی کے ازالہ ،طلبہ کے اندر تحریری ذوق پیدا کرنے ،ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور اس میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے اگلے ہی سال ’’البیان‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ کی بنیاد ڈالی اور جمادی الاولی ۱۳۵۳ ؁ھ میں اس کا پہلا شمارہ اپنی ادارت میں اس عز م و مقصد سے شائع کیا کہ اس کہ ذریعہ طلبہ کی اخلاقی حالت میں درستگی کی کو شش کی جائے گی ،ان کے اندر حریت اور قومی خدمات کے جذبات پیدا کیے جائیں گے اور اعلان حق اور ابطال باطل کے واسطے فن صحافت میں رسوخ اور کمال حاصل کیا جائے گا ،پھر فراغت تک مسلسل چار سال خود ہی اس کی ادارت کا فریضہ انجام دیتے رہے ،آپ کواپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی ملی ،طلبۂ دارالعلوم میں تحریر اور زبان کا ایک خاص مزاج و مذاق پیدا ہونے لگا اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہوگئی ،جن لوگوں نے آپ کی اس تحریک سے متاثر ہو کر فن تحریر میں ایک خاص کمال پیدا کیا ان میں سلیمان آسیؔ مظفر پوری ،شمس الحق شمس ؔ مظفر پوری،صغیر احمدقاسمی،قمر ؔ بہاری،ازہر مونگیری ،صداقت حسین چمپارنی ،عبدالحنان گیاوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔
آپ کی ادارت میں نکلے البیان کے شماروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور طالب علمی ہی میں شعر و شاعری ،نثر نگاری اور تحریر و تقریر میں آپ کو کس درجہ مہارت و دسترس حاصل ہو چکی تھی ،اگرچہ آپ کی ادارت میں نکلے البیان کے تمام شمارے گردش ایام کی وجہ سے محفوظ نہ رہ سکے ؛البتہ جو بہی موجود ہیں وہ ہماری اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہیں ،قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا۔
شاعری: 
یوں تو آپ بچپن سے ہی اس خداداد صلاحیت سے متصف تھے اور شاعری بھی شروع کر دی تھی ؛بلکہ دارالعلوم میں داخلہ سے قبل ہی چند بڑے شعراء کو اپنا کلام دکھلا چکے تھے ؛لیکن آپ کی شاعری میں اصل ترقی اور پروان دارالعلوم میں داخلہ کے بعد ہوئی ،یہاں آپ نے عربی ،فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر گوئی کی مشق کی ،حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی سے عربی اور مولانا ابو الوفا عارفؔ شاہجہاں پوری سے اردو فارسی شاعری میں اصلاح لی ،طلبائے دارلعلوم دیوبند کے مابین ہونے والے طرحی مشاعروں میں شرکت کی اور خصوصا البیان کے شماروں میں متعدد صنفوں :حمد ،نعت،نظم،غزل،مرثیہ،ترانہ ،رباعیات اور قطعات وغیرہ پر شعر گوئی کی مشق کی جس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
فارسی نمونۂ کلام:
یہ آپ کی حمدیہ نظم ہے جو محرم الحرام ۱۳۵۴ ؁ھ کے شمارہ میں حدیثِ دل کے عنوان سے شائع ہوئی ۔
سکون وراحت و آرامِ جاں ہستی 
بیا بیا! کہ دلم می تپد کجا ہستی 
بیا مریضِ غم و رنج را دوا ہستی 
کرم !کہ مر ہمِ ز خمِ درونِ ما ہستی
کرا مجال کہ ایں راز رازِ تو پرسد 
چگونہ ہستی و چوں ہستی و کجا ہستی 
حدیث دل بکہ گویم کہ نیست مونس من 
بگو!خموش تو اے دل ربا چرا ہستی 
ہزار شکر کہ جورو جفا نمی دانی 
سراپا لطف ومہربانی و وفا ہستی 
شفیع روز جزا غم گسار تست اے فخرؔ 
مرنج گر تو تہی دست و بے نو اہستی 
اردو نمونۂ کلام:
رباعیات بہ عنوان دنیا :
ہے گرچہ بہت لوگوں کو پیاری دنیا 
مٹ جائے گی ایک روز یہ ساری دنیا 
دنیا کو ہم اے فخرؔ سمجھتے ہیں سراب 
دنیا سے نرالی ے ہماری دنیا حق یہ ہے بہت ہو ش ربا ہے دنیا 
بتلاتاہوں میں اصل میں کیا ہے دنیا 
حق سے یہی لائی ہے ہمیں باطل کی طرف 
حق سے ہے الگ حق سے جدا ہے دنیا 
حمدیہ رباعی :
ہر پھو ل کی نکہت میں بسا ہے اللہ 
ہر طائر رنگیں کی صدا ہے اللہ 
جدھر دیکھو اسے ہر سو وہ نظر آتا ہے 
ہر ذرہ میں ہاں جلوہ نما ہے اللہ 
نمونۂ غزل (طلب یار):
نہ ملا جب وہ دل ربا نہ ملا 
زندگانی کا کچھ مزہ نہ ملا 
جانے والے عدم کے پھر نہ سکے 
واپس آنے کا راستہ نہ ملا 
طلب یار میں مٹے ایسے 
اپنی ہستی کا کچھ پتہ نہ ملا 
یوں تو دلبر بہت ملے لیکن 
بخدا تجھ سا دلربا نہ ملا 
دوست لاکھو ں ملے مگر اے فخرؔ 
آج تک کوئی با وفا نہ ملا
نمونۂ نظم: 
مونس و ہمدم ،رفیق ومہرباں جانے کوہے 
چین اب مجھ کو کہاں آرام جاں جانے کوہے
جاتے ہو تم صدمۂ فرقت نہیں سہنے کا میں 
جسم سے اب دو گھڑی میں میری جاں جانے کوہے 
آپ تنہا جائیں میرے گھر سے یہ ممکن نہیں 
آپ کے پیچھے میری آہ وفغاں جانے کو ہے
آہ بیمار محبت ہو نہ کیوں کر جاں بلب 
چارہ ساز دردہائے بے کساں جانے کوہے 
فخرؔ اب ہوشیار ہو کب تک رہے گا محو خواب
دور منزل ،وقت رحلت کارواں جانے کوہے 
آپ کے مجموعۂ کلام جوزیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں: 
(۱)نوائے درد : یہ حضرت مولانا بشارت کریم گڑھولوی کی رحلت پر کہے گئے مسدس مرثیوں کا مجموعہ ہے ۔
(۲)نذر عقیدت: یہ حضرت شیخ الاسلام کی شان میں کہی گئی نظموں اور مرثیوں کا مجموعہ ہے ۔
(۳)نور ایمان: یہ آپ کی حمدیہ ،نعتیہ،اصلاحی اور اسلامی نظموں کا مجموعہ ہے ۔
نوٹ: جمعیت علماء ہند کا شہرۂ آفاق ،حسین ترانہ بھی آپ ہی کی کاوش ہے۔
نثر نگاری: 
شاعری کی طرح نثر نگاری میں بھی آپ کو مہارت حاصل تھی ،آپ آسان ،مگر عمدہ ادبی نثر لکھا کرتے تھے ،البیان کے چار سالہ مدت ادارت میں آپ نے سیاسی ،مذہبی،ادبی ،علمی ،سوانحی اور اصلاحی گوشوں پر مختلف عناوین سے بے شمار مضامین سپر دقرطاس کیے ،’’شذرات ‘‘کے عنوان سے ہر شمارہ میں آپ کا ادارتی کالم ہوتا تھا اور اس کے علاوہ ہر پرچہ میں ایک سے زائد مضامین شائع ہو تے تھے،آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ماہر خطاط ہونے کی بنا پر ان شماروں کی کتابت بھی آپ خود ہی کیا کرتے تھے ،دارالعلوم سے فراغت کے بعد بھی قلم و قرطاس سے ہمیشہ تعلق قائم رہا اور جب کبھی ضرورت ہوئی آپ نے امت کی اصلاح اور رہبری کے لیے مختلف مضامین لکھے،البیان میں شائع آپ کے مضامین میں ’کھدر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون کا اقتباس پیش خدمت ہے ،واضح رہے کہ یہ مضمون اس زمانہ کی کھدر تحریک کے پس منظر میں ہے ۔
’’کھدر کا استعمال دل میں خشیت و نرمی اور شجاعت و بہادری پیدا کرتا ہے ،کھدر پہننے سے انسان کے اندر جذبۂ حریت پیدا ہو تا ہے اور یہ مسلم ہے کہ حریت مسلمانو ں کی ایک امتیازی شان اور خصوصی صفت ہے ،کھدر فخرو تکبر کے بجائے کرم و تواضع اور اخلاص و حب الوطنی کا سبق سکھلاتا ہے ،کھدر پہننے میں غریب ومفلس ،تنگ دست و نادار اور فاقہ کش مسلمانوں کا فائدہ ہے ؛اس لیے نوجوانو!کھدر پہنو اور اپنے ہزاروں فاقہ کش بھائیوں کو فاقہ کی موت سے بچالو،کھدر میں تمہاری ،تمہارے بھائیوں کی ،قوم کی اور ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے ‘‘
اس کے علاوہ ’’وجود باری‘‘’’شذرات‘‘ اور دیگر عناوین پر ان کی تحریریں مو جود ہیں ،جو دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گئی ہیں ؛لیکن طوالت کے پیش نظر ان کانمو نہ پیش نہیں کر سکتے ۔
آپ کی مطبوعہ تحریر: 
(۱) درس حیات :اس میں آپ نے مولانا عبدا لغفار سرحدیؒ ،مولانا خیر الدین گیاویؒ اور حضرت مولانا بشارت کریم گڑھولوی ؒ کی حیت وخدمات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔
اس کے علاوہ آپ کی کوئی مطبوعہ کتاب دستیاب نہیں ہو سکی ،تاہم بہت سے مضامین اداریے ،مقالے اور کتابچے غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہیں ۔
وفات : آپ کا ۷۷؍سال کی عمر میں ۱۸ ؍فروری ۱۹۸۸ ؁ء انتقال ہوگیا (انا لللہ و انا الیہ راجعون ) 
[email protected]

You may also like

2 comments

محمد اظہرالقاسمی 20 فروری, 2018 - 00:42

جناب کے پاس درس حیات کتاب ہے تو پی ڈی ایف میرے وھاٹس ایپ پر سینڈ کریں برائے مہربانی یہ میرا نمبر ہے 9709785317

محمد اظہرالقاسمی 20 فروری, 2018 - 00:52

میں دربھنگہ بھار سے ہوں حضرت مولانا بشارت کریم رحمتہ اللہ علیہ کے منجھلے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی ادریس ذکا گڑھولوی ؒ سے میرے نانا مولانا مرتضی حسن حر جالویؒ منسلک تھے اور میں بھی اسی خانوادہ جڑا ہوں میرے پیرومرشد حضرت مولانا شمس الہدی راجوی صاحب مدظلہ ہیں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا شکریہ

Leave a Comment