Home نقدوتبصرہ حسن نعیم (مونوگراف)

حسن نعیم (مونوگراف)

by قندیل

حسن نعیم (مونوگراف)
مصنف: شمیم طارق
صفحات:143،قیمت:85، سنہ اشاعت: 2016
ناشر:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: غلام نبی کمار، P-98، چوتھی منزل،گلی نمبر2، بٹلہ ہاؤس، نئی دہلی
پیش نظرمونوگراف’حسن نعیم‘ قومی کونسل کی مطبوعات میں ایک قابل قدر اضافہ کہا جا سکتا ہے۔حسن نعیم بیسویں صدی کے ایک معتبر غزل گو شاعر کہلاتے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی،محمد حسن،وہاب اشرفی، مظفر حنفی، خلیق انجم، ابوالکلام قاسمی جیسے ناقدین نے سب سے پہلے حسن نعیم کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا اور معاصر شعرا میں مستند مقام پر فائز کرکے اردو شاعری میں حسن نعیم کی شناخت کے خاص سبب بنے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی کا مضمون نما تبصرہ اوّلیت کا درجہ رکھتا ہے جو ان کی کتاب’مضامینِ نو ‘میں شامل ہے۔وہاب اشرفی نے اپنی ’تاریخِ ادب اردو‘کی جلد سوم میں حسن نعیم کی زندگی اور شاعری کو اہم موضوع بنا کر پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر احمد کفیل نے حسن نعیم پر وقیع کام کیا ہے۔ ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے اپنی تحقیقی کتاب’نئی اردو غزل‘ میں حسن نعیم کو نئی اردو غزل کے معماروں میں شمار کرکے ان پر ایک باب رقم کیا ہے۔تاہم شمیم طارق کے اس مذکورہ مونوگراف کو حسن نعیم کی زندگی اور شاعری کے اعتراف میں ایک مکمل کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔
زیر نظرکتاب’حسن نعیم‘ (مونوگراف)کو شمیم طارق نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ابتدا میں ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹرپروفیسر ارتضیٰ کریم کا ’پیش لفظ‘ شامل ہے جس میں انھوں نے مونوگراف کی ضرورت اور اہمیت کے تعلق سے اپنی بات رکھی ہے۔اس کے بعد ’حرفِ مدعا‘ کے عنوان سے مصنف نے حسن نعیم کی نجی زندگی کے بعض اہم پہلوؤں سے روشناس کرایاہے۔اس کتاب کا پہلا باب بعنوان ’حسن نعیم:شخص اور شاعر‘ پر مشتمل ہے۔اس باب کے آغاز میں حسن نعیم کی پیدائش اور وفات، بیرونی ممالک کے اسفار، ہندوستان میں شیخ پورہ(مونگیر)، پٹنہ، علی گڑھ، کلکتہ، دہلی اور ممبئی جیسی جگہوں میں قیام کا مختصرطور پر ذکرآیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں حسن نعیم کے تخلیقی وجدان، شعری افکار اورداخلی و باطنی کیفیات کا مفصل ذکر بھی کیا گیا ہے۔ شمیم طارق حسن نعیم کی متنوع شعری جہات کو مدِ نظر رکھ کر انھیں اس عہد کا نمائندہ شاعر قرار دیتے ہیں وہ حسن نعیم کونمائندہ شاعروں میںTrend Setterکے مقام سے سرفراز کرتے ہیں۔چونکہ مصنف کے حسن نعیم کے ساتھ ممبئی میں گہرے تعلقات رہے ہیں جس کا اندازہ کتاب کے مطالعے سے بخوبی ہوجاتا ہے اس لیے مصنف ان کی شخصیت، نفاست، توازن، خوش مزاجی اور سادہ طبیعت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اسی بنیاد پر انھوں نے لکھا ہے کہ وہ مزاجاً طنز نگار نہیں تھے مگر غزلوں میں طنزیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ مصنف نے حسن نعیم کی غزل گوئی میں فکر، تخئیل اور موضوع کی سطح پر خیال کا جائزہ لیا ہے اور اس تعلق سے کئی اشعار بھی پیش کیے ہیں۔ پہلے باب ہی میں ’خاندان،پیدائش،تعلیم اور ملازمت‘ اور’ممبئی میں قیام اور آخری سفر‘ ذیلی عنوانات کے تحت حسن نعیم کی زندگی کے کئی اور پہلو روشن کیے گئے ہیں جس میں حسن نعیم اور شہر بانو کے تعلقات سے بھی آگہی ہوتی ہے۔
اس کتاب کے دوسرے باب’تخلیقی سفر‘ میں حسن نعیم کی ادبی جہتوں کو منظرعام پر لانے کی سعی کی گئی ہے۔اس باب سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ حسن نعیم کے اردو میں ’اشعار‘ اور ’دبستان‘ کے نام سے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔اوّل الذکر ان کی زندگی میں شائع ہوا تھا اور آخر الذکر شعری مجموعے کو شہربانو نے ان کی وفات کے بعد شائع کرایا۔ اردو کے علاوہ ان کے دو شعری مجموعے ہندی اور گجراتی رسم الخط میں بالترتیب ’غزل نامہ‘ اور ’اردو سخنور شیرینی‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ بعد میں ’اردو سخنور شیرینی‘کوہندی میں بھی شائع کیا گیا۔ شمیم طارق نے اس باب میں حسن نعیم کے تخلیقی سفر کی روداد، ان کی زندگی کے نشیب و فراز، ادبی اداروں سے ان کی وا بستگی اور ان کے معاصرین کے خیالات پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔نیز جن ذیلی عنوانات پر مصنف نے خامہ فرسائی کی ہے۔ان میں ’ترقی پسند میلان:انحراف اور تسلسل‘، ’غزل کی تازہ روایت(نئی غزل)کی آبیاری‘ اور’نئے تلازمے اور تراکیب‘ قابل ذکر ہیں۔ اس باب میں مصنف نے اقتباسات پر کچھ زیادہ ہی انحصار کیا ہے۔
تیسر اباب’حسن نعیم کی غزل مدح و قدح کی روشنی میں‘ پر مشتمل ہے جس میں شمیم طارق نے کلاسیکی اردوغزل اور جدیداردو غزل کے مزاج، موضوع، معیار اور اس میں سماجی و معاشرتی شعور کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہی ہے۔ان کے مطابق کلاسیکی غزل کے مطالعے، اردو تہذیب سے مکمل آشنائی اور غزل کے مزاج کو اپنا بنا لینے کے سبب حسن نعیم کی غزلوں نے ایک رنگ و آہنگ اختیار کیا۔ اس باب میں حسن نعیم ’معاصرین کی نظر میں‘ کالی داس گپتا رضا، پروفیسر محمد حسن، مخمور جالندھری، وحید اختر، قمررئیس، سید محمد عقیل، زبیر رضوی وغیرہ کے مضامین میں سے اقتباسات شامل کیے گئے ہیں۔ شمیم طارق نے محمدہاشمی کے اُس تبصرے کو بھی اس حصے میں شامل کیا ہے جس میں حسن نعیم کی شاعری کی تضحیک و تنقیص کی گئی ہے اور پھر اس کے ردعمل میں وہاب اشرفی کے لکھے گئے جوابی تبصرہ کوبھی جگہ دی ہے۔علاوہ ازیں مصنف نے پروفیسر ابولکلام قاسمی کے حسن نعیم کی شعری اختصاص کے حمایت میں لکھے گئے تقریباً پورے تنقیدی مضمون کوہی اقتباس بنا کر پیش کیا ہے۔جبکہ اتنے طویل اقتباس کو استعمال کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔بہرکیف شمیم طارق نے حسن نعیم کی شعری خوبیوں کے ساتھ ساتھ زبان و بیان اور فن کی خامیوں کی بھی حوالوں کے ساتھ نشاندہی کی ہے۔
کتاب کے آخری باب میں ’انتخاب غزلیات،آخری مجموعۂ کلام ’دبستان ‘سے‘ میں حسن نعیم کی منتخب غزلیں ہیں۔ حسن نعیم کا کل سرمایہ سخن ڈیڑھ سو اردو غزلوں پر محیط ہے جس میں بیشتر پانچ سات شعروں پر مشتمل ہیں۔جن کی طرف ’چھوٹی چھوٹی غزلوں‘کہہ کر خلیل الرحمٰن اعظمی نے بھی اشارہ کیاہے۔اس مونوگراف کے آخر میں کتابیات کی فہرست دی گئی ہے۔

You may also like

Leave a Comment