Home نقدوتبصرہ ’ مژگاں ‘ : کچھ باتیں اردو رسم الخط کے مسٔلے پر – شکیل رشید

’ مژگاں ‘ : کچھ باتیں اردو رسم الخط کے مسٔلے پر – شکیل رشید

by قندیل

کولکاتا سے نوشاد مومن کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی رسالے ’ مژگاں ‘ کا نیا شمارہ سامنے ہے ۔ خوبصورت سرورق ، بہترین ادبی مضامین ، نظموں اور غزلوں اور افسانوں سے مزین اس شمارے پر تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے ، لیکن اس بار بھی ان اصناف پر مختصر ، اداریے پر کچھ تفصیل سے بات کرنے کا مَن ہے ۔ ’ مژگاں ‘ کے مدیر نوشاد مومن نے اپنے اداریے میں جِسے وہ ’ مضراب ‘ کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں ، ایک اہم مسٔلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی سعی کی ہے ؛ اردو رسم الخط کا مسٔلہ ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو اپنی دل آویزی اور ہر دل عزیزی سے اردو داں طبقے کے مقابلے غیر اردو داں طبقے کو زیادہ متوجہ کرتی رہی ہے جس نے اردو زبان پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہوےکبھی دانستہ تو کبھی غیر دانستہ اس کا جائز اور ناجائز استعمال بھی کیا ‘‘۔ اس ضمن میں وہ ’ جشنِ ریختہ ‘ کا حوالہ دیتے ہیں : ’’ ادب کے سنجیدہ حلقوں میں ان دنوں جشن ریختہ موضوع گفتگو بنا ہوا ہے ۔ اس گفتگو سے گزرنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط کا مسٔلہ ایک مرتبہ پھر سر ابھارے کھڑا ہو گیا ہے ‘‘۔ نوشاد مومن یہ تو مانتے ہیں کہ ’’ یہ مسٔلہ کوئی نیا نہیں ۔ اردو زبان و ادب کی مقتدر ہستیوں نے اس مسٔلے پر اپنا مطمح نظر واضح کرتے ہوے نہ جانے کتنے صفحات سیاہ کر دیے ہیں ‘‘ ، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ شاید ہی کسی نے اردو رسم الخط کے مسٔلے کی نزاکت کو سمجھا ہے یا اسے سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اردو رسم الخط کا مسٔلہ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں نوشاد مومن جشنِ ریختہ کے حوالے سے ریختہ اینڈ کمپنی کی سرگرمیوں کو تجارت یا خدمت کے زمروں میں بانٹنے والوں کا ذکر کرتے ہوے سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’ ریختہ کے صراف صاحب کے صارفین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اردو سے بے پناہ محبت کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن اردو سیکھنے سے کتراتی بھی ہے ۔ ریختہ والے بے تحاشہ روپے خرچ کرکے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں ، جن میں شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کرکے تفریح کا سامان مہیا کیا جاتا ہے ۔ گویا کہ سامعین کی سہولیات اور منتظمین کی ترجیحات کے پیشِ نظر پروگرام کا انعقاد و انصرام کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو کی ہم خدمت کر رہے ہیں یا اردو ہماری خدمت کر رہی ہے ؟ ‘‘ سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں : ’’ اگر یہ لوگ واقعی اردو کے سچے ہمدرد اور بے لوث خدمت گار ہیں تو وہ عشق کے آداب کیوں بجا نہیں پاتے ؟ ویسے بھی ایک عاشق معشوق کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اگر انہیں اردو سے واقعی عشق ہے تو زبان سیکھیں اور پھر اردو ادب سے بہرہ مند ہونے کی فکر کریں ۔‘‘
نوشاد مومن صاف لفظوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ جو اردو زبان سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اردو زبان کی تقریبات کا انعقاد و انصرام کرتے رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اردو کے رسم الخط کی تبدیلی کی بات نہ کریں بلکہ اردو زبان سیکھ لیں ۔ ظاہر ہے کہ کسی زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے سے کہیں زیادہ آسان زبان کو سیکھنا ہے ۔ رسم الخط کیوں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، مدیر محترم اس پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں : ’’ کہتے ہیں کہ اردو کا رسم الخط اس کا اپنا منفرد رسم الخط ہے اور دنیا کے حسین ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے ۔ یہ ایک طویل تاریخی جہد و عمل سے وجود میں آیا ہے ۔ جسے ہم اسی شکل و صورت میں برسہا برس سے برتتے اور قبول کرتے آئے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں ۔ ہمارا رسم الخط ہمارے تلفظ ، ہماری شائستگی اور ہمارے لسانی ، ادبی ، علمی اور ثقافتی سرمائے کے تحفظ کی ضمانت ہے ۔ جس طرح اردو کا ماخذ اس کے اپنے علاقے کے عوام ہیں ، ٹھیک اسی طرح اردو کا رسم الخط بھی اپنے علاقے کی تاریخ کے بطن سے فطری انداز میں صورت پذیر ہوکر ارتقائی عمل سے گزرا ہے ۔ اسے مذہبی تعصب ، سیاسی یا قانونی جبر کسی سیاسی بحران کے دباؤ یا مصنوعی لغت سازی کے سبب پہلے سے موجود اور مستعمل ایک معیاری عوامی زبان کے متوازی زبان بنانے کی تحریک کے پس منظر میں نافذ نہیں کیا گیا تھا ۔ لہذا اس صورت میں جب ہم اپنی مادری زبان اور اس کے رسم الخط سے دست بردار ہوتے ہیں تو اپنی لسانی اصل سے انحراف کرتے ہیں اور اپنے لسانی تشخص کو مسخ کرتے ہیں اور اپنے وسیع الاساس ہندوستانی قومی تشخص اور اس کی نمائندہ زبان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں ۔ آج وہ زبانیں ختم ہو چکی ہیں جن کا رسم الخط تبدیل کر دیا گیا تھا ۔‘‘
مذکورہ اقتباس قدرے طویل ہے لیکن یہ یہاں نقل کرنا ضروری تھا کیونکہ اسے پڑھ کر یہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگر اردو زبان کا رسم الخط تبدیل ہوا تو اردو زبان ختم ہو جاے گی نیز وہ سارا تہذیبی ، علمی اور مذہبی و ادبی سرمایہ جس پر اردو والوں کا حق ہے ضائع ہوجاے گا یا کسی اور کا ہوجاے گا ۔ اندازہ کریں یہ کتنا بڑا المیہ ہوگا ! لہٰذا رسم الخط کی تبدیلی کی مانگ کرنے والے یہ کریں کہ اردو زبان سیکھیں ۔ نوشاد مومن نے اداریے کے آخر میں مرحوم شمس الرحمن فاروقی کی ایک تحریر کا حوالہ دیا ہے جس میں مرحوم نے کہا ہے کہ ’’ رسم الخط بدلنے کی وکالت کرنا خود اپنی زبان کی شناخت ختم کرنے کے مترادف ہے ۔‘‘ یہ اداریہ ایک اہم مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔
اس شمارے میں 18 وقیع مضامین شامل ہیں جو ادب کے مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں ، لکھنے والے سب ہی اہم ادیب ہیں ۔ یہ مضامین اپنی نوعیت میں اکیڈمک ہیں اس لیے طلبہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اس شمارے میں ’ نیا قلم نئی تحریریں ‘ کے عنوان سے نئے لکھنے والوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے ، یہ مضامین محنت سے لکھے گیے ۔ ان کے لکھنے والوں سے امید ہے کہ مستقبل میں اچھے مضامین اور مقالے دیں گے اور ادب کی دنیا میں اپنا نام روشن کریں گے ۔ شاعری کا گوشہ شاندار ہیں ، غزلوں کے گوشے سے دو شعر ملاحظہ ہوں ؎
کہتے ہیں کہ مانگیں گے تجھے اگلے جنم میں
کیا خوب! انہیں اگلے جنم کا بھی یقیں ہے ( رفیعہ شبنمؔ عابدی )
کوئی تدبیر نہ طاقت نہ دوا کرتی ہے
اب تو جو کچھ یہاں کرتی ہے وبا کرتی ہے ( پروفیسر شہپر رسول )
جن حضرات کو یہ شمارہ حاصل کرنا ہو وہ موبائل نمبر 9830126311 پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔

You may also like