Home قندیل ہبہ کمال ابوندیٰ:جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے-نایاب حسن

ہبہ کمال ابوندیٰ:جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے-نایاب حسن

by قندیل

غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباریوں  میں اب تک ہزاروں لوگ شہید ہوچکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بزرگوں، خواتین اور بچوں کی ہے۔حالات روزبروز سخت سے سخت ہوتے جاتے ہیں،عالمی سطح پر ایشیا سے افریقہ و امریکہ اور یورپ تک عوام سراپا احتجاج ہیں، مگر حکومتی سطح پر بیشتر بڑے ممالک اور عالمی ادارو  ں کی طرف سے منافقت ، ظالم کی حمایت اور مظلوموں کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے کے گھناؤنے رویے کا مظاہرہ ہورہا ہے۔اسرائیل کی پیہم بمباریوں میں غزہ اور فلسطین سے تعلق رکھنے والے متعدد اہل علم، ادبا، شعرا اور دانش وران بھی اب تک شہید ہوچکے ہیں جن میں فارس ابوشاویش، حسین مہنا اور عدنان ابوغوش خصوصاً قابل ذکر ہیں۔جمعہ کو ایک نوجوان ادیبہ و شاعرہ ہبہ کمال ابوندیٰ بھی ان بمباریوں میں شہید ہوگئیں۔موت سے پہلے تک وہ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھیں، دنیا کو غزہ کے حالات سے لمحہ بہ لمحہ مطلع کرتی رہیں،اپنے دوستوں، رشتے داروں اور اہلِ فلسطین کی شہادت و بسالت کی خبر دیتی رہیں ۔ جمعہ ہی کو غزہ کے اندوہ ناک حالات کے بارے میں سوشل میڈیا پر یوں بتایا کہ’’غزہ میں ہم لوگ اپنے وطن کی آزادی کی مہم میں یا تو شہیدہوں گے یا آزادی حاصل کریں گے،ہم سب اپنے آخری انجام  کے منتظر ہیں۔خدایا ہم سب تیرے سچے وعدے کے انتظار میں ہیں‘‘۔بدھ کو انھوں نے لکھا تھا’’اگر ہم مرجائیں تو آپ سب جان لیں کہ ہم راضی بہ رضا تھے،راہِ  عزیمت پر ثابت قدم تھے اور ہمیں اصحابِ حق تھے‘‘۔اس سے دو تین پہلے معروف شاعر تمیم البرغوثی کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اس کے کیپشن میں لکھاتھا ’’ہم غزہ میں مسلسل بمباریوں کی زد پر ہیں اور موت کے سایےمیں ہم ان شعرا کو سن رہے ہیں،تمیم نے ہماری نیابت میں وہ سب کچھ کہہ دیا ہے،جو کہنا ضروری تھا،یہ زبردست اور ہمارے خون سے رنگین بیان ہے۔اگر ہم زندہ رہے،تو ہم تمیم کو یاد رکھیں گے،اگر  مارے گئے  تو ہماری طرف سے آپ انھیں یاد رکھنا اور عرب و عجم کے تمام مسلم سیاست دانوں کے منھ پر تھوکنا،کہ ہم ایسا کرنے کے لیے زندہ نہ رہیں گے۔غزہ سلامت رہے!‘‘۔

یوں تو غزہ اور فلسطین پچھلے پندرہ سترہ دنوں سے بے گناہوں کے خون سے لالہ زار بناہوا ہے ،پورا خطہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے، عالمی میڈیا، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر ایسی ایسی تصویریں اور ویڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ جنھیں دیکھنے کے لیے بھی جگر چاہیے،بڑی  ہمت، برداشت اور تحمل کی طاقت چاہیے، مگر اس نوجوان خاتون کی شہادت کی خبر پر خصوصاً  عالمی سطح پر غیر معمولی ردعمل کا مظاہرہ ہورہا ہے،فلسطین کی وزارت ثقافت نے خصوصی بیان جاری کرکے ان کی شہادت کی خبر دی، سوشل میڈیا پر ہزارہا صارفین ان کی پوسٹیں شیئر کر رہے ہیں،ان کے لیے دعاے مغفرت کر رہے ہیں اور ان کے حوصلہ مندانہ و بے باکانہ افکار کی ستایش کرتے ہوئے تمام فلسطینیوں کی جرأت و ہمت اور اسرائیلی،صہیونی و شیطانی قوت اور اس کے حامیوں  سے لڑنے کے ان کے جذبہ و حوصلہ میں اضافے کی دعائیں کر رہے ہیں۔

 

ہبہ کی پیدایش ۱۹۹۱ میں سعودی عرب میں ہوئی تھی، جہاں ان کے اہل خانہ پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھے،اصلاً ان کا تعلق فلسطین کے ایک گاؤں’ بیت جرجا‘ سے تھا،جسے ۱۹۴۸ میں اسرائیل نے کلیتاً تباہ کردیا تھا۔ہبہ نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے بایوکیمسٹری میں بیچلر ڈگری حاصل کی ،جامعہ ازہر سے Therapeutic nutritionمیں ایم اے کیا اور جامعہ اسلامیہ غزہ سے تدریسی  اہلیت میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کی تھی،غزہ کے ’مرکزِ رسل‘ کے سائنس کلب کی سربراہ کے طورپر برسرِعمل تھیں۔

بچپن سے ہی شعر و ادب سے خصوصی دلچسپی  تھی؛ چنانچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ شاعری و نثر نگاری میں بھی ہاتھ آزمانے لگیں،ان کے تین  شعری مجموعے شائع بھی ہوئے ،دوسرے فلسطینی شعرا کے مانند انھوں نے بھی اپنی شاعری کامرکزی  موضوع اپنے وطن،اپنے مغصوبہ و مقبوضہ وطن یعنی فلسطین کو بنایا ، مگر تعبیر ،الفاظ اور پیرایۂ اظہار میں ان کے یہاں ایک انوکھا پن تھا، جدت و ندرت تھی،حلاوت آمیز سادگی تھی اور وہ والہانہ پن جو فلسطینی ادب اور ادبا کا خاصہ ہے۔ادب و تخلیق کو انھوں نے اپنی قوم اور اپنے خوابوں کے وطن کی امانت سمجھا اور اپنی مختصر سی عملی و تخلیق زندگی میں ایک ایک سطر کے ذریعے اس کا حق ادا کیا۔وہ اپنی تخلیقات میں سادہ و سہل،مگر جاذب اندازِ بیان اختیار کرتی تھیں،جس سے ان کی نظموں میں غیر معمولی حسن اور ان کی نثر میں دلکشی پیدا ہوجاتی تھی،وہ مطالعے کی خوگر تھیں،نئی نئی کتابیں حاصل کرنا اور انھیں ڈوب کر پڑھنا ان کا مشغلہ تھا،وہ  کھانا پکانا بھی پسند کرتی تھیں،دست کاری کے کاموں میں بھی طاق تھیں،زندگی کی دوسری سرگرمیوں سے بھی دلچسپی رکھنے والی ایک زندہ دل خاتون تھیں۔اپنے دوستوں کے کام آتی تھیں،لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والوں کے حوصلے بڑھاتی اور انھیں اچھے مشورے بھی دیتیں،میڈیا سے ایک گفتگو کے دوران انھوں نے کہا تھا’’جو لوگ میدان تخلیق میں آنا چاہتے ہیں انھیں خوب پڑھنا چاہیے،اپنی دلچسپی کے موضوعات پر لکھنا چاہیے،اسلوب سادہ و شیریں رکھنا چاہیے،اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور تنقیدوں سے گھبرانے کی بجاے ان کا کھلے دل سے استقبال کرنا چاہیے‘‘۔جب سے غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہوئے تھے،تب سے وہ زمینی سطح پر بھی سرگرم تھیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اپنے متعلقین،احباب اور اہل فلسطین کی حتی الامکان مدد کرنے کے ساتھ ان کے حوصلہ و ہمت کو مہمیز کر رہی تھیں۔ہزاروں میل دور بیٹھ کر اس الم ناک سانحے پر بولنا،لکھنا اور اس کے مختلف فریقوں کو مشورے دینا اور بات ہے،مگر خود میدان جنگ میں چو طرفہ حملوں کی زد پر ہوتے ہوئے اپنے لوگوں کے حوصلے بڑھانا ،خود غیر معمولی قوت و استقلال کا مظاہرہ کرنا اور بالآخر اپنے وطن،اپنے لوگوں اور اپنی سرزمین کے لیے اپنی جان قربان کردینا بالکل مختلف قسم کی حقیقت ہے،ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ہبہ نے بہت سے قومی ترانے ،نغمے  اور نظمیں تحریر کی جن میں   ’كُحل القدس، علاماته حكاية، باسم نيلك، كلمة أب، سفراء الطفولة اورروضة وحضانة الطفولة الحديثة وغیرہ مشہور ہیں۔ شعری تخلیقات پر فلسطین اور فلسطین کے باہر متعدد اعزازات بھی حاصل کیے۔ انھوں  نے فلسطینی تجربے کو افسانوں اور کہانیوں کے سانچے میں بھی ڈھالا، جنھیں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور فلسطین کی سطح پر ہونے والے افسانوی مسابقہ ’ناہض الریس‘ میں انھوں نے پہلا مقام حاصل کیا، جبکہ ۲۰۱۷ میں ان کے اولین ناول ’الأكسجين ليس للموتى‘ نے شارقہ کے مسابقہ برائے تخلیقی ادب میں دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔ اس ناول میں انھوں نے گزشتہ سالوں کے دوران عرب ملکوں میں رونما ہونے والےعوامی انقلاب کی تصویر کشی بڑے منفرد انداز میں کی  ہے،مختلف ملکوں میں برپا ہونے والے انقلابات کو ایک انقلاب اور ان میں گونجنے والی عوامی آوازوں کو ایک آواز قرار دیتے ہوئےعرب نوجوان نسل کے افکار کی خوب صورت ترجمانی کی ہے۔

 

جنگوں کا ایک بڑا جگر خراش پہلو یہ ہے کہ ان میں کتنے ہی براق ذہن بجھ جاتے،کتنے  ہی سوچنے والے دماغ اور بولنے والی زبانیں خاموش کردی جاتی ہیں،کتنے ہی لکھنے والے ہاتھ قلم کردیے جاتے اور ان میں قوموں کو مادی و مالی نقصانات ہی نہیں اٹھانے پڑتے؛بلکہ جانوں کے ضیاع کے ضمن میں کیسے کیسے ہیرے موتی گم ہوجاتے ہیں،افسوس کہ فلسطین پچھلی پون صدی سے  ایسی ہزارہا قربانیاں دے چکا،مگرہر آنے والا دن اس کے لیے مزید آزمایشوں اور مصائب کے پہاڑ لے کر آتا ہے،عالمی طاقتیں  اسرائیل نامی شیطانِ مارد کی ہلاکت خیزیوں کو پوری بے غیرتی سے دیکھ رہی ہیں،عالمِ اسلام شرمناک  سردمہری کا شکار ہے،دنیا بھر کے عام مسلمان اور انصاف پسند لوگ سرگرمِ احتجاج ہیں،کہ وہ یہی کرسکتے ہیں۔اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں ایک ناجائز ملک آٹھ ارب انسانوں کی آنکھوں کے سامنے پورے ایک ملک،پوری ایک قوم کو تہہِ تیغ کر رہا ہے،اسے صفحۂ ارضی  سے مٹانے کے درپے ہے اور انصاف پسندی و جمہوریت نوازی و انسانی حقوق کی پاسداری کے ہز ار دعووں ،اداروں اور تحریکوں کے ہوتے ہوئے کوئی اس شیطان کو قابو نہیں کر پارہا یا قابو کرنا ہی نہیں چاہتا اور الٹے ان لوگوں پر  دہشت گردی کا طعن توڑا جاتا ہے جو اپنی جان بچانے کے لیے دفاع و مزاحمت کی ہمت کرتے ہیں ،اس انسانیت سوز رویے  کی نظیر ہمیں ماضی کی ہزاروں سالہ تاریخ کی روایاتِ ظلم و جور میں بھی شاید ہی ملے۔

You may also like