یہ ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک اس خطۂ ارضی پر ہمارے قدم نہیں پڑے تھے،تم تہذیب و تمدن نا آشنا تھے،اسطوری حکایتوں اور غیر حقیقی افسانہ طرازیوں کو ایک طرف رکھو اور اس زمینی سچائی کا اعتراف کرو کہ ہم نے تمھیں انسانی و اجتماعی ثقافت سکھائی،بول چال سے لے کر کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے طور طریقے تک میں تم ہمارے ’’ششیہ‘‘ رہے اور ہم تمھارے ’’گرو‘‘ ہیں ۔ تمھارے پاس اپنا بہت کچھ رہا ہوگا،روایتی وید،حکمت و دانش وغیرہ وغیرہ ،مگر اسلام اور مسلمانوں کے قدومِ میمنت لزوم اور ان کے زندگی گزارنے کے شایستہ انسانی و اسلامی اسلوب نے تمھیں صدیوں کی بے ہنگمی اور بدویت سے نکالا اور عالمی سطح پر انسانی وقار و اعتبار بخشا،تم سیکڑوں ذاتوں اور برادریوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے،جس کے کچھ نہ کچھ اثرات تاہنوز تمھاری سماجی حرکیات میں موجود ہیں، مگر اسلام اور مسلمانوں کی عدل و مساوات پر مبنی معاشرت نے بڑی حد تک تمھیں اس غیر انسانی فکر سے نجات دلائی۔ ہم تو نسل ہا نسل سے اسی ملک کی پیداوار ہیں،مگر ہمارے وہ مذہبی و روحانی اسلاف جو دینِ اسلام کی تبلیغ کے لیے یہاں وارد ہوئے اور پھر وہ مسلم اشخاص اور جماعتیں،جنھوں نے مختلف زمانی وقفوں میں یہاں حکومتیں کیں،انھوں نے اسں ملک کو بنایا،سنوارا اور سجایا،اسے سینے سے لگایا ،اس کی آب و ہوا میں اخوت و محبت کی خوشبوئیں بسائیں اور اس کے رگ و ریشے میں انسانیت کا خون دوڑایا۔ ذرا سوچو تو سہی کہ تم ستر پچھتر سالہ حکومت میں ہی باؤلے ہوئے جاتے ہو اور اس زعم میں مبتلا ہو کہ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادو گے،جبکہ ہمارے پرکھوں نے ہزار سال سے زائد اس ملک کے بیشتر خطوں کو اپنے زیر نگیں رکھا، مگر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کش مکش کے علاوہ کبھی ان کے دل میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ عوام میں جو غیر مسلم ہیں،انھیں جبراً مسلمان بنا لیا جائے اور جو تیار نہ ہوں انھیں نیست و نابود کردیا جائے،خدا نخواستہ اگر کسی بادشاہ کو یہ خبط سوار ہوجاتا،تو ذرا سوچو کیا ہوتا؟ کیا دنیا کے نقشے پر اس وقت ’’ہندومت‘‘ نامی کوئی مذہب اور ’’ہندو‘‘ نامی کوئی قوم پائی جاتی؟ انھوں نے تو بلا تفریق تمام رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ، ہر مذہب کے پیرو کاروں کو پوری آزادی دی اور ان کی عنایت و داد و دہش کے سایے میں مسلمانوں کے ساتھ سبھی پلتے،پھلتے اور پھولتے رہے۔ انھوں نے اس ملک کو مادرِ وطن باور کیا ،یہیں کے ہو رہے ، اسی کی خاک کی پیوند بنے اور اپنے پیچھے ایسی تعمیری،ثقافتی،تہذیبی و تمدنی یادگاریں چھوڑ گئے،جن کی وجہ سے آج بھی ہندوستان عالمی سطح پر انفرادی شناخت رکھتا ہے اور اس ملک کی روینیو کا قابلِ لحاظ حصہ ان یادگاروں سے آتا ہے۔
ہم تو اس ملک کی روح میں بستے ہیں،اس کی خاک و باد ہم سے آباد ہے، اس کی آب و ہوا میں ہماری سانسیں رچی ہوئی ہیں ،ہم سے اس کی زیبائی و رعنائی ہے اور ہم ہیں،تو اس ملک کا وہ ثقافتی تنوع ہے،جس پر تمھیں اور اس ملک کے انصاف پسندوں کو بجاطور پر ناز ہے اور جس کا ذکر خواہی نخواہی اس ملک کے شیطان صفت نیتاؤں کو بھی ہندوستانی و عالمی اسٹیجوں پر کرنا پڑتا ہے ،ذرا سوچو کہ جس دن اس ملک میں ہم نہ رہے،تو تمھارا کیا ہوگا؟ کیا تم میں کا زبردست زیردستوں کو ایک لمحے کے لیے بھی گوارہ کرے گا؟ کیا سماجی نابرابری کا عفریت تمھیں چین سے رہنے دے گا؟ کیا تمھاری تلواریں اور ترشول خود تمھارے سینوں کو چھلنی نہیں کریں گے؟ہمارے بعد تمھارے دلتوں،پچھڑوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ جو کچھ ہوگا،اس کا تمھیں کچھ اندازہ ہے؟ شکر مناؤ کہ اس ملک میں ہم ہیں،جس کی وجہ سے تم ہو،جس دن ہم نہیں رہیں گے،تم بھی نہیں رہوگے!
1 comment
بہت عمدہ