جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے زیر اہتمام ہوٹل ریور ویو،ابوالفضل میں آج ڈاکٹر عبدالقادر شمس مرحوم کی تحقیقی کتاب ’’ہندوستان اور کویت -تاریخی،علمی و ثقافتی رشتے‘‘ کے اجرا کا بڑا خوب صورت پروگرام منعقد ہوا،جس میں اہل علم و قلم کا ایک چنیدہ و ستودہ طبقہ شریک تھا۔یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جس پر انھیں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ۲۰۱۷ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تھی۔صبح ساڑھے دس سے ایک ڈیڑھ بجے تک لوگ جم کر بیٹھے رہے ۔منتظمینِ پروگرام نے تو خصوصی مہمانوں اور مقرروں کی بڑی طویل فہرست تیار کر رکھی تھی، مگر اچھا ہوا کہ سارے لوگ نہ آسکے،ورنہ پروگرام مینیج کرنا مشکل ہوجاتا۔جن لوگوں نے اظہار خیال کیا،ان میں سے زیادہ تر ذی علم،اہل دانش اور جہاں دیدہ قسم کے لوگ تھے،سامعین میں ادب و صحافت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے سبھی چھوٹے بڑے اصحاب وہ تھے،جن کا شمس صاحب سے مخلصانہ تعلق تھا،وہ سب ان سے محبت کرنے والے اور بعد از مرگ بھی ان کی قدر کرنے والے لوگ تھےاور شاید اسی وجہ سے پروگرام پر شروع سے آخر تک دلجمعی، وقار، سنجیدگی اور انہماک کا ماحول چھایا رہا اور بہ تمام حسن و خوبی پایۂ اختتام کو پہنچا،جس کے لیے جامعۃ القاسم، اس کے مہتمم قاری ظفر اقبال مدنی، صدرالمدرسین مفتی انصار قاسمی، برادرم عمار ندوی قاسمی اور ناظمِ تقریب جناب ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اجرا کے بعد کتاب کے تعلق سے مقررین کی گفتگوئیں ٹھیک ٹھاک تھیں ،ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب کو تو میں نہیں سن سکا، بعض دگر حضرات مثلاً سہیل انجم صاحب باقاعدہ کتاب کا مطالعہ کرکے آئے تھے اور انھوں نے اس کے مشمولات پر ایک اچھا تجزیاتی مضمون پڑھا ،خالد مبشر صاحب نے اس کتاب کو معلومات کے اعتبار سے ایک نئی دنیا کا انکشاف قرار دیا،جبکہ زیادہ تر مقررین نے مجموعی تاثراتی اظہارِ خیال سے کام لیا اور اجرا کے پروگراموں میں عموماً یہی ہوتا ہے۔کچھ لوگوں نے کتاب کے مواد میں مزید وسعت کی ضرورت پر زور دیا ،تو کچھ لوگوں نے مزید بہتری کے امکان کی طرف اشارہ کیا ،یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی موضوع پر کوئی بھی تحقیقی کام آخری نہیں ہوتا،اس میں متواتر حذف و اضافہ اور ترمیم و تعدیل کی گنجایش ہوتی ہے اور پھر یہ تو غالباً اردو میں اس موضوع پر کی جانے والی اولین تحقیق ہے، پدم شری پروفیسر اخترالواسع ،جو اس تحقیقی مقالے کے نگراں بھی رہے اور تقریب اجرا کے صدر بھی تھے ، انھوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ’’عبدالقادر شمس نے موضوع کے تمام پہلووں کااحاطہ کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا تھا‘‘،جسے ہمارے ایک محترم دوست نے ’’پھوہڑ تعبیر‘‘ قراردیا، البتہ اخترالواسع صاحب کی یہ بات درست تھی کہ یہ اولین کام ہے ؛ اس لیے اپنے آپ میں مکمل اور قابلِ پذیرائی ہے اور یہاں سے مزید ہمہ گیر تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ بعض مقررین کو شاید کتاب کے نام سے غلط فہمی ہوئی؛ کیوں کہ نام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ہندوستان اور کویت کے درمیان علمی،تاریخی اور ثقافتی رشتوں کے تمام پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہوگا، جبکہ مقالے کا اصل عنوان ہے’’علومِ اسلامی کی اشاعت میں وزارتِ اوقاف کویت کا کردار‘‘ ،اس کا ذکر مرتب کتاب نے اپنے پیش لفظ’’وہ جو سبب ہوا‘‘ میں کیا بھی ہے،اس کو پیش نظر رکھ کر اگر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے،تو یہ اپنے موضوع پر بھرپور بھی ہے اور جامع بھی ،جب شمس صاحب اس پر کام کر رہے تھے،تبھی مجھے اسے پڑھنے کا موقع ملا تھا؛بلکہ بہت سے عربی مصادر سے مراجعت،ان کے تعارف و ترجمے وغیرہ کے تعلق سے ان کے مشوروں میں ،میں شامل رہا ہوں،ازراہِ کرم انھوں نے مقالے کے مقدمے میں میرا ذکر بھی کیا ہے۔دراصل خالد اعظمی صاحب نے اشاعت سے قبل اس میں جو کویت اور ہندوستان کے باہمی رشتے کے تعلق سے بہت سے علمی و معلوماتی اضافے کیے ہیں،ان کی روشنی میں غالباً انھوں نے اس کا نام بدل کر شائع کرنا مناسب سمجھا ہوگا ۔بلاشبہ ان کا کام بھی غیر معمولی ہے اور بعض مقررین نے انھیں جو اس کتاب کا ’’مصنفِ ثانی‘‘ کہا،وہ کتاب دیکھنے کے بعد بالکل سچ معلوم ہوتی ہے۔ کتاب پر میں کچھ دن پہلے ہی تبصرہ کرچکا ہوں،یہ موضوع ،معلومات اور مواد ہر اعتبار سے منفرد اور لائقِ مطالعہ ہے ۔شعبۂ اسلامیات ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر پروفیسراقتدار محمد خاں نے اپنی تقریر میں کتاب کی بہترین اور دیدہ زیب طباعت و اشاعت کا بھی خصوصی ذکر کیا،جو یقیناً مرتبِ کتاب کے جمالیاتی ذوق کا مظہر تو ہے ہی،مگر ساتھ ہی کتاب کے طابع و ناشر فیروز اختر قاسمی صاحب(مرکزی پبلی کیشنز) کے پرفیکشنسٹ ذہن کی بھی کارفرمائی کا نمونہ ہے۔ طباعت کے شعبے میں اعلیٰ معیار،جمال پسندی ، حسن کاری و حسنِ معاملگی کی وجہ سے بہت کم مدت میں انھیں غیر معمولی شہرت و اعتبار حاصل ہوا ہے۔
بہرکیف اجرا کا یہ پروگرام ہر اعتبار سے نہایت خوب صورت اور کتاب و صاحبِ کتاب کے شایانِ شان تھا، جس کے لیے تمام منتظمین کو بارِدگر مبارکباد! ۔اللہ پاک عبدالقادر شمس صاحب کی تمام ترعلمی،قلمی،سماجی و ملی خدمات کو قبول فرمائے اور مغفرتِ کاملہ فرمائے۔آمین