Home تجزیہ سنگھ پریوار پنڈت نہرو سے نفرت کیوں کرتا ہے؟- سہیل انجم

سنگھ پریوار پنڈت نہرو سے نفرت کیوں کرتا ہے؟- سہیل انجم

by قندیل
جب سے نریند رمودی کی قیادت میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اپوزیشن کی کسی جماعت پر اگر سب سے زیادہ بلکہ جارحانہ انداز میں حملہ ہو رہا ہے تو وہ کانگریس پارٹی ہے۔ نریند رمودی نے تو 2014 کے پارلیمانی انتخابات کی مہم میں ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ ہی دے دیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے پہلے اس بات کو پھیلانے کی کوشش کی کہ جب ملک آزاد ہوا تو مہاتما گاندھی چاہتے تھے کہ کانگریس پارٹی کو ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ کانگریس کا قیام ملک کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لیے عمل میں آیا تھا اور اب ملک آزاد ہو گیا ہے لہٰذا اب اس پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ تاریخی اعتبار سے یہ درست نہیں ہے۔ ’انڈین نیشنل کانگریس‘کا قیام 1885 میں دادا بھائی نوروجی، سریندر ناتھ بنرجی، بدر الدین طیب جی، فیروز شاہ مہتہ اور ایک انگریز افسر ایلن اوکٹاوین ہیوم (اے او ہیوم) جیسے سرکردہ مندوبین کے ممبئی میں منعقدہ اجلاس میں ہوا تھا۔ بلکہ اے او ہیوم کو کانگریس کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد 1857 کے غدر کے بعد تعلیم یافتہ مسلمانوں کے درمیان سول اور پولیٹیکل ڈائیلاگ کرنا اور ہندوستانیوں اور برطانوی حکومت کے درمیان رابطہ کاری کو تیز کرنا تھا۔ وہ تو بعد میں کانگریس پارٹی بھی جنگ آزادی میں کود پڑی اور پھر اس نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ اس لیے جب کانگریس کو ختم کرنے کی مہم زور نہیں پکڑی تو ایک پرانے اور ایک نئے قائد پر جارحانہ حملے شروع ہو گئے۔ یہ قائد تھے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور نئی نسل کے کانگریسی قائد راہل گاندھی۔ جہاں ملک کے تمام مسائل اور بالخصوص کشمیر اور چین کے مسائل کے لیے پنڈت نہرو کو ذمہ دار قرار دینے کی مہم شروع ہوئی وہیں راہل گاندھی کو ایک نابالغ اور غیر سنجیدہ سیاست داں ثابت کرنے میں کروڑوں روپے پھونک دیے گئے۔ حالانکہ اب وہی ’نابالغ سیاست داں‘ بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے حکومت کی ناک میں دم کیے ہوئے ہے۔ راہل گاندھی پر حملے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ واحد اپوزیشن رہنما ہیں جو آر ایس ایس اور مرکزی حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن وہ بی جے پی لیڈروں کی مانند تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ بہرحال قارئین کو یاد ہوگا کہ اسی سال فروری میں سنگاپور کے وزیر اعظم لی سین لونگ نے اپنے یہاں کی پارلیمنٹ میں جمہوریت کے موضوع پر بولتے ہوئے کچھ ایسا کہہ دیا تھا جو یہاں کی حکومت کو بہت ناگوار گزرا تھا۔ انھوں نے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے سیاست دانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی جرا ¿ت و ہمت، ان کے اعلیٰ اخلاق و اقدار اور ان کی اصول پسندی کو یاد کیا اور کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے آزادی کے بعد ہندوستان میں ایک اعلیٰ و ارفع جمہوری نظام قائم کیا تھا لیکن وہ نظام اب زوال پذیر ہے۔ انھوں نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے کہا تھا کہ ہندوستان کی موجودہ لوک سبھا کے تقریباً نصف ارکان کے خلاف ریپ اور قتل سمیت متعدد مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ اس پر وزارت حارجہ نے ہندوستان میں سنگاپور کے سفیر کو طلب کرکے اپنی ناراضگی جتائی اور اسے غیر ضروری اور ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ حالانکہ ہندوستان اور سنگاپور میں بہت گہرے رشتے ہیں۔ دونوں اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ مودی اور لی سین لونگ میں دوستانہ قسم کے مراسم بھی ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اب تک پانچ بار سنگاپور کا دورہ کر چکے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کا ردعمل غیر ضروری تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے اس بے ضرر مگر حقیقت پر مبنی بیان پر اتنا شدید ردعمل کیوں دکھایا۔ کیا صرف اس وجہ سے کہ مذکورہ بیان سے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی ستائش کا پہلو نکلتا ہے۔
سنگھ پریوار کی جانب سے الزام عاید کیا جاتا ہے اور اس میں مودی پیش پیش رہتے ہیں کہ نہرو کی پالیسیاں ملک کے مسائل کی جڑ ہیں۔ یہاں تک کہ موجودہ مہنگائی کے لیے یہ حکومت نہرو کو ہی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ لی سین لونگ کے بیان کے بعد وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں صدر کے خطبہ پر ہونے والی بحث کا جواب دیتے وقت مہنگائی کے لیے نہرو کو بالواسطہ طور پر ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ انھوں نے اپنی سو منٹ کی تقریر میں 23مرتبہ نہرو کا نام لیا اور کانگریس کے ارکان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو شکایت ہے کہ میں نہرو کا نام لیتا، آج میں صرف انہی کا نام لوں گا، آپ لوگ مزا لیجیے۔ ان کی تقریر کا انداز اور لب ولہجہ کسی وزیر اعظم کا لب و لہجہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کا خیال ہے کہ اگر نہرو کی جگہ پر سردار پٹیل ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم ہوتے تو پورا کشمیر ہندوستان میں ہوتا اور ہندوستان نہ صرف یہ کہ بہت طاقتور ملک ہوتا بلکہ تمام مسائل سے نجات پا گیا ہوتا۔ حالانکہ ان لوگوں کے دعوو ¿ں کو تاریخ داں مسترد کرتے ہیں۔ لیکن پنڈت نہرو سے سنگھ پریوار کی نفرت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانے کے بجائے ایک سیکولر ملک بنایا۔ ان کے ذریعے قائم کیے جانے والے آئینی ادارے آج ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک پورے کشمیر کے ہندوستان میں ہونے کی بات ہے تو ایک سابق فوجی عہدے دار اور ہندوستان کی خارجہ اور سیکورٹی پالیسیوں کے ماہر سری ناتھ راگھون کی بات سن لیجیے۔ انھوںنے سات فروری 2018 کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ایک موقع پر سردار پٹیل جوناگڑھ کے حصول اور حیدرآباد کے ہندوستان میں الحاق کے عوض پاکستان کو کشمیر دینے کے لیے تیار تھے۔ سرکردہ سیاسی تجزیہ کار اے جی نورانی نے جون 2000 میں موقر جریدے فرنٹ لائن میں لکھا تھا کہ 27 نومبر 1972 کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے مقام لنڈی کوتل کے قبائلی جرگہ میں پٹیل کی اس پیشکش کا ذکر کیا تھا۔ نریندر مودی ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھی نہرو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن راگھون کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے رہنما ونایک دامودر ساورکر نے محمد علی جناح سے سولہ سال قبل ہی دو قوموں کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک تجزیہ کار شیوم وِج نے ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں اس کا جائزہ لیا ہے کہ آخر نریندر مودی پنڈت نہرو کو کیوں ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے مطابق آر ایس ایس کا یہ مضبوط موقف رہا ہے کہ پنڈت نہرو اس قابل نہیں تھے کہ 1947 میں ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں سونپی جاتی۔ وہ ایسا اس لیے کہتے ہیں کہ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو ایک جمہوری اور سوشلسٹ ملک بنا دیا۔ مبصرین کے مطابق پنڈت نہرو نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو منصوبے بنائے اور جو پالیسیاں اختیار کیں آر ایس ایس اسے اقلیتوں کا تشٹی کرن یا منہ بھرائی قرار دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے محروم طبقات کو باعزت زندگی گزارنے کی پالیسی بنائی تھی۔ پنڈت نہرو نے ایسی پالیسیاں وضع کیں جن کی وجہ سے ان کے ارد گرد ایک دانشورانہ ماحول قائم ہو گیا جو سات دہائیوں تک ملکی سیاست پر حاوی رہا۔ یہ بات سنگھ پریوار سے ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ نریندر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں نہرو کی سیکولر اور سوشلسٹ پالیسیاں زندہ ہیں ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ نہیں بنایا جا سکے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنڈت نہرو نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ساتھ مل کر ملک کا جو آئین بنایا وہ بھی ہندوستان کے ہندو اسٹیٹ بنانے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے آر ایس ایس حلقے سے وابستہ افراد کی جانب سے بار بار آئین کو بدلنے کی بات کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرح کوئی بڑا وزیر اعظم ابھی تک نہیں آیا۔ اسی لیے وہ پنڈت نہرو کے ’بت‘ کو توڑنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود کو سب سے بڑے وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کر سکیں۔ اس کوشش میں وہ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ دراصل سنگھ پریوار میں اس قسم کی باتیں معیوب نہیں ہیں۔ نریندر مودی آر ایس ایس کے پروردہ ہیں اسی لیے وہ بلا خوف و خطر حقائق کو توڑ مروڑکر اپنی ’سیاسی دانشمندی‘ کا تصور پیش کرتے رہتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment