Home تجزیہ پارلیمانی انتخاب اور باغیوں کی صف بندی!-پروفیسر مشتاق احمد

پارلیمانی انتخاب اور باغیوں کی صف بندی!-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

پارلیامانی انتخاب کی تشہیری مہم اپنے شباب پر ہے ۔ ظاہر ہے کہ اب پہلے مرحلہ کی پولنگ ہو چکی ہے ۔تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور جاری کردیے  ہیں اگرچہ اس انتخابی منشور کی حیثیت محض خانہ پری تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور کی بنیاد پر رائے دہندگان سے ووٹ ڈالنے کی بات نہیں کہہ رہی ہے ۔ اگر حکمراں جماعت کی بات کریں تو وہ بھی اپنی کارکردگی پر گفتگو کم کر رہی ہے اور جذباتی واشتعال انگیز نعروں کی بدولت اپنے ووٹروں میں جوش بھرنے کی کوشش کر رہی ہے تو اپوزیشن اتحاد بھی انتخابی منشور پر کوئی سنجیدہ گفتگو کو اہمیت نہ دے کر حکمراں جماعت کے لیڈران پر شخصی تبصرے کو ہی کافی سمجھ رہے ہیں جب کہ سچائی یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے انتخابی بانڈ کی حقیقت کو اجاگر کرکے اپوزیشن اتحاد کو ایک بڑا ہتھیار مہیا کرایا تھا جس کے سہارے حکمراں جماعت کی راہیں دشوار ہو سکتی ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ محض دو چار لیڈر ہی ایسے ہیں جو الکٹرول بانڈ کے خلاصہ کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اگرچہ قومی میڈیا کا رویہ بھی یک طرفہ ہے جس کی وجہ سے بھی حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنا اپوزیشن اتحاد کے لیے صحرا میں کشتی چلانے کے مترادف ہے ۔مگر اب جب کہ سوشل میڈیا فروغ پا رہا ہے ایسے میں اپوزیشن اتحاد کو الکٹرول بانڈ کو اہم موضوع بنانی چاہیے تھا لیکن وہ اس میں ناکام ہیں۔

بہر کیف! اس پارلیامانی انتخاب میں بھی ہندوستانی مسلمان تختۂ مشق بن رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں سے جذباتی اور اشتعال انگیزی ہی ہندوستانی سیاست کا محور ومرکز ہے اور پارلیامانی انتخابات ہوں کہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات مسلمان اور اس کے رسم ورواج ، کھان پان ، لباس ،تہواراور قبرستان تک کو لے کر سیاست ہوتی رہی ہے ۔ مختصر یہ کہ مسلمان ہندوستانی سیاست کے لیے خام مواد کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس پارلیامانی انتخاب کا آغاز بھی کچھ اسی طرح سے ہوا ہے کہ مسلم لیگ سے بات شروع ہوئی اور جیسے جیسے تشہیری مہم زور پکڑ رہی ہے ویسے ویسے اشتعال انگیزی پروان چڑھ رہی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے جو بنیادی مسائل ہیں وہ گذشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں یا پھر اپوزیشن اتحاد کی طرف سے جو عوامی مسائل کو اجاگر کیا جا رہاہے اس کے اثرات پارلیامانی انتخاب کے نتائج پر نمایاں بھی ہوں گے یا نہیں۔البتہ تمام سیاسی جماعتوں کے باغیوں کی صف بندی الگ الگ حلقوں میں امیدواروں کے سامنے مشکلیں ضرور کھڑی کر دے گی ۔جہاں تک بہار کا سوال ہے تو یہاں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان آمنے سامنے کی سیاسی جنگ دکھائی دے رہی ہے مگر باغیوں کے تیو ر سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں اتحاد کو باغیوں کا سامنا ہے اور اس کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔لیکن سب سے زیادہ خطرہ انڈیا اتحاد کو ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے کئی بڑے لیڈروں نے باغیانہ تیور اختیار کرتے ہوئے پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر دوسری سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں اور کچھ لیڈر آزادانہ طورپر انتخابی میدان میں بھی اتر چکے ہیں۔راشٹریہ جنتا دل کے سابق راجیہ سبھا رکن اشفاق کریم نے راشٹریہ جنتا دل سے استعفیٰ دے کر جنتا دل متحدہ کا دامن تھام لیا ہے اور سابق وزیر برشن پٹیل نے بھی راجد کا دامن چھوڑ دیا ہے۔راشٹریہ جنتا دل کے ایک قد آور لیڈر دیوندر پرساد یادو نے بھی باغیانہ رخ اختیار کرلیا ہے اور وہ لالو پرساد یادو خاندان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔انہوں نے بھی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔واضح ہو کہ دیوندر پرساد یادو پانچ بار ممبر پارلیامنٹ اور وی پی سنگھ کی کابینہ میں مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔سیاسی حلقے میں یہ ہوا گرم ہے کہ وہ اس بار بھی پارلیامانی انتخاب میں ٹکٹ چاہتے تھے لیکن ان کے پارلیامانی حلقہ جھنجھار پور سے وکاس شیل انسان پارٹی کے امیدوار کو ٹکٹ دے کر شری یادو کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح پورنیہ پارلیامانی حلقہ سے راجیش رنجن عرف پپو یادو نے بطور آزاد امیدوار کھڑا ہو کر راشٹریہ جنتا دل کی امیدوار بیما بھارتی کے لیے راہیں مشکل کردی ہیں ۔اب جب کہ اشفاق کریم راشٹریہ جنتا دل کا دامن چھوڑ کر جنتا دل متحدہ میں شامل ہو گئے ہیں تو وہ بھی کٹیہار میں کانگریس امیدوار طارق انور کے لیے مشکل پیدا کر سکتے ہیں۔دریں اثناء لوک جن شکتی پارٹی کے سابق ممبر پارلیامنٹ چودھری محبوب عالم قیصر بھی اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے کر راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوگئے ہیں۔کیوں کہ لوک جن شکتی پارٹی نے اس بار اپنے واحد مسلم چہرے کو بھی ٹکٹ سے محروم کردیا ہے لہذا وہ اب لوک جن شکتی پارٹی پر مسلمانوں کی حق تلفی کا الزام لگا رہے ہیں اور بالخصوص چراغ پاسوان پر مبینہ طورپر ٹکٹ فروخت کرنے کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں ۔ظاہر ہے کہ باغی امیدواروں کی صف بندی سے ایک طرف جہاں دونوں اتحاد کے امیدواروں کو مشکل پیش آرہی ہے تو دوسری طرف عوام الناس میں بھی تذبذب کا ماحول ہے۔ قومی جمہوری اتحاد میں اگرچہ باغیوں کے تیور اتنے تلخ نہیں دکھائی دے رہے ہیں البتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک بڑے لیڈر اشونی چوبے کا تیور چڑھا نظر آرہا ہے کہ انہیں اس بار پارٹی نے ٹکٹ سے محروم کردیاہے۔

مختصر یہ کہ بہار میں پہلے مرحلے میں چار پارلیامانی حلقوں میں پولنگ ہوچکی ہے۔ ان میں اورنگ آباد، نوادہ، گیا اور جموئی کی سیٹیں شامل ہیں۔ یہاں 19؍ اپریل کو پولنگ ہوئی اور ان چاروں حلقوں میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان آمنے سامنے کی سیاسی جنگ دکھائی دے رہی ہے ۔ گیا کی سیٹ بہ ایں معنی بہت اہم ہے کہ یہاں سے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی قومی جمہوری اتحاد کے امیدوار ہیں جب کہ ان کے مقابل راشٹریہ جنتا دل کے سروجیت بھی مقامی امیدوار ہیں ۔اسی طرح جموئی کی سیٹ بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے کہ یہاں چراغ پاسوان نے اپنے بہنوئی کو لوک جن شکتی پارٹی کا امیدوار بنایا ہے ۔ واضح ہو کہ گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں خود چراغ پاسوان یہاں سے منتخب ہوئے تھے لیکن اس بار وہ حاجی پور پارلیامانی حلقہ سے انتخاب لڑیں گے ۔لوک جن شکتی پارٹی کو بھی اپنے باغیوں سے جوجھنا پڑ رہاہے ۔

غرض کہ بہار میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے اندر بغاوت کی آواز نہیں اٹھ رہی ہو ۔بس اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باغیوں کی صف بندی سے سیاسی تصویر بھی بدلتی ہے یا پھر جیسا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سپریمو کی طرف سے یہ کہا جا رہاہے کہ ہر انتخاب میں جو ٹکٹ سے محروم ہوتے ہیں وہ اسی طرح اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس سے پارٹی کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتاکہ ماضی میں بھی انتخابی موسم میں ادھرسے اُدھر جانے کا روایتی سلسلہ جاری رہتا ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ بعض ایسے باغی امیدوار نظر آرہے ہیں جو خود تو انتخاب جیتنے میں شاید کامیاب نہ ہوں لیکن وہ اپنی جماعت کے امیدواروں کی شکست کی وجہ ضرور بن سکتے ہیں۔شاید اس لیے ان باغیوں کو منانے کی کوششیں بھی چل رہی ہیں لیکن جن باغیوں نے دوسری سیاسی جماعتوں کا دامن تھام لیا ہے وہ اب اپنا اثر کیا دکھائیں گے یہ تو پارلیامانی انتخاب کے نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like