( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے اور لڑکی کے پیار کی ایک اور کہانی المناک انجام کو پہنچی ۔ لڑکے نے ، جس کا نام فیاض کونڈیکپا ہے ، ایک ہندو لڑکی نیہا ہیرے مٹھ کو چاقو مار کر قتل کردیا ، اب وہ تو پولیس حراست میں ہے ، لیکن قتل کی اس واردات نے سارے کرناٹک میں فرقہ پرستی کی ایک لہر دوڑا دی ہے ، اور لو جہاد کی اصطلاح ، جس کی بنیاد پر سنگھی تنظیمیں نفرت کا پرچار کرتی رہی ہیں اور جس کی بنیاد پر بی جے پی سیاست کرتی چلی آ رہی ہے ، پھر سے لوگوں کی زبان پر آ گئی ہے ۔ نیہا ہبلی کے ایک کانگریسی کاؤنسلر نرنجن ہیرے مٹھ کی بیٹی تھی اور فیاض اس کا کلاس میٹ تھا ۔ قتل کی واردات ١٨، اپریل کی ہے ۔ فیاض کی گرفتاری کے بعد اس کی ماں ممتاز اور باپ بابا صاحب سبحانی کا بیان آیا ہے کہ فیاض اور نیہا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لہٰذا لوگ لو جہاد کی باتیں نہ کریں ۔ کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارمیا اور نائب وزیراعلیٰ شیو کمار و وزیر داخلہ جی پرمیشور نے بھی قتل کی اس واردات کو لو جہاد ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ بلکہ وزیر داخلہ جی پرمیشور کی رہائش گاہ پر اس وقت بڑا ڈرامہ ہوا جب اے بی وی پی ارکان نے گھر کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی ۔ مظاہرین نے ملزم فیاض کی تصویریں نذرآتش کیں اور اسے پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ بغیر اجازت احتجاج کرنے پر پولیس نے ارکان کو حراست میں لے لیا اور موقع سے لے گیے ۔ سدارمیا نے قتل کی ایک واردات کو سیاسی رنگ دینے پر افسوس کیا ہے ۔ لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب ایسی کسی واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لڑکے کا بیان ہے کہ وہ اور نیہا ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ، لیکن اچانک نیہا اس سے سرد مہری برتنے لگی اس لیے اس نے اس کو قتل کر دیا ۔ لیکن وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور بی جے پی اس معاملے کو لو جہاد کہہ رہی ہے ۔ لو جہاد ایک سازشی تھیوری ہے جس میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو عورتوں کو بہلاتے ہیں ، پھنساتے ہیں اور مذہب تبدیل کراتے ہیں ۔ یہاں بھی کہا جا رہا ہے کہ فیاض نے ہندو لڑکی کو اپنے پیار کے جال میں پھنسایا اور جب اسے مسلمان بنانا چاہا اور اس نے انکار کر دیا تو اسے قتل کر دیا ۔ لڑکی کا باپ کانگریسی لیڈر بھی لو جہاد کی بات کر رہا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تفتیش جاری ہے اور ہر پہلو سے چھان بین ہو رہی ہے ، ملزم پکڑا گیا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ مگر کٹر وادی بغیر کسی قانونی کارروائی کے یہ زور ڈال رہے ہیں کہ قتل کی اس واردات کو لو جہاد مان کر لڑکے کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے ۔ مظاہرے اور احتجاج شروع ہیں ۔ پیر یعنی آج کرناٹک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے ۔ نشانے پر کرناٹک کی کانگریسی حکومت ہے ، دعویٰ کیا جارہا ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ۔ چونکہ لوک سبھا کے انتخابات ہو رہے ہیں اور کرناٹک میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے اس لیے وہ قتل کی اس واردات کو ہر حالت میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ الیکشن کے تیسرے مرحلہ میں ٧ ، مئی کو دھارواڑ میں ووٹنگ ہوگی ، اس سیٹ سے فی الوقت بی جے پی کے پرہلاد جوشی ایم پی ہیں لیکن کانگریس پورا زور لگا رہی ہے ۔ بی جے پی کرناٹک کی لوک سبھا کی تمام ٢٨ سیٹوں پر نظریں گاڑے ہوئے ہے ، اور اسے لگ رہا ہے کہ نیہا قتل معاملہ اس کی نیا پار لگا دے گا ۔ اسی لیے بی جے پی صدر نڈا نیہا کے گھر گیے بلکہ بی جے پی کے لیڈر روز ہی وہاں پہنچ رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں مسلمان کیا کریں؟ وہی کریں جو فیاض کے والدین اور کرناٹک کی مسلم جماعت انجمن اسلام نے کیا ہے ؛ قتل کی مذمت اور فیاض کے خلاف سخت کارروائی اور احتجاج میں شرکت ، یہ انسانیت کے لحاظ سے بھی ضروری ہے ۔ یہی ایک شکل ہے جو لو جہاد کے پروپیگنڈے کی ہوا نکال سکتی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)