Home تجزیہ شرجیل امام کامسئلہ اورمسلم سائیکی

شرجیل امام کامسئلہ اورمسلم سائیکی

by قندیل

 

ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانشؔ

گاندھی جی اور بھگت سنگھ کے طریقۂ کار الگ تھے اور دونوں اپنے اپنے طریقے سے آزادی کی منزل حاصل کرنا چاہتے تھے۔ دونوں کا خلوص انہیں شہادت کی منزل تک بھی لے گیا۔ ایک کو انگریز بہادر نے تختۂِ دار پہ لٹکایا دوسرے کو اپنوں نے ہی گولی مار دی۔
کسی تحریک میں کچھ لوگ بچ بچ کر چلنا چاہتے ہیں اور کچھ جذبات سے مغلوب ہو کر عمل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ غصہ اور جذبات ہی تحریک کو زندہ رکھتے ہیں، نئی سمت دیتے ہیں۔ کبھی ان کی جذباتیت تحریک کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ ہوش اور جوش دونوں کی اہمیت ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ اچھی ایماندار قیادت کا فقدان ہے۔ ایسا نہیں ہے کے تحریکوں کے بطن سے ایسے نوجوان نہیں ابھر رہے ہیں جو قیادت کر سکیں لیکن ایک مسئلہ بھروسے اور ان کے پیچھے کھڑے ہونے کا ہے۔
اخلاقی زوال کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی مخلص شخص سے ذرا بھی غلطی ہو جائے یا میڈیا کسی کے پیچھے پڑ جائے، تو ہم فوراً اس سے پلٌہ جھاڑنے میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔کوئی اسے بی جے پی کا ایجنٹ بتا ئے گا تو کوئی اسے صرف اس لئے فناٹک بتا دے گا کیونکہ اس کے داڑھی ہے اور وہ سیکولرزم کے جھوٹے دعوے داروں سے چبھتے ہوئے سوال پوچھنے کا عادی رہا ہے۔
کچھ یہ موقع اپنے لبرل ہندو دوستوں میں اپنے نمبر بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بے چارہ نوجوان اگر جیل چلا جائے، اس کا کیرئیر برباد ہو جایے ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لبرل لوگ چارلی ہبدو اور سلمان رشدی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرینگے؛ لیکن کوئی مسلمان ہندوستان کے جھوٹے سیکولرزم کو بے نقاب کرے تو وہ اسے قوم کا دشمن بنا دینگے۔ اس کے اظہار کی آزادی کا دفاع کوئی نہیں کرے گا۔
اگر مقصد ایک ہے تو طریقۂ کار الگ ہونے پر ہمارے درمیان گاندھی جی اور بھگت سنگھ والی سمجھ ہونی چاہیے۔ اور آج ہم جہاں ہیں ان میں دونوں میں سے کسی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نرم دَل بھی چاہئیے اور گرم دَل بھی۔کیا انگریزوں کے کہنے سے کسی نے بھگت سنگھ کو دہشت گرد مان لیا تھا؟ پھر آپ کس کو خوش کرنے میں لگے ہیں؟ اپنوں کی قدر کیجئے۔ جو بہادر نوجوان ہمت اور پامردی کے ساتھ فسطائیوں سے بھڑ رہے ہیں ان کا ساتھ دیجئے۔ آج اگر انہوں نے جامعہ اور علی گڈھ میں اور پھر شاہین باغ میں ہمت نہ دکھائی ہوتی تو آپ سی اے اے پر بھی کشمیر، بابری مسجد اور لنچنگ والی بے کسی پر گھروں میں بیٹھے ماتم کر رہے ہوتے۔ اور اتنا بڑا احتجاج بڑپا نہ ہو سکتا تھا۔ آج بہت لوگ ساتھ آئے ہیں مگر پہلے دوسرے تیسرے دن ساری صعوبتیں جن بہادروں نے جھیلی ہیں وہ قوم کا سرمایہِ افتخار ہیں۔ انہیں بس کے اندر دھکیلنے کے بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہوں:
وفا کا نام کوئی بھول کر نہیں لے گا
ہم اہلِ دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

You may also like

Leave a Comment