Home اسلامیات حج عمرہ پر جانے سے پہلے معافی ! -مسعودجاوید 

حج عمرہ پر جانے سے پہلے معافی ! -مسعودجاوید 

by قندیل

حج کا موسم سر پر ہے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں لیکن ایک اہم تیاری کی طرف عموماً عازمین حج توجہ نہیں دیتے ہیں اور وہ ہے حقوق العباد!

دراصل درستگی کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد حاجی ایک نوزائیدہ بچہ کی طرح ہو جاتا ہے یعنی جس کے نامۂ اعمال سے گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔‌ جس طرح بینک میں اکاؤنٹ کھلتا ہے اور آپ اس اکاؤنٹ میں کیا جمع کرتے ہیں اور کیا نکالتے ہیں اس کا اندراج ہوتا رہتا ہے ۔ اسی طرح نامۂ اعمال میں نیکی اور بدی کا اندراج ہوتا ہے۔ حج کرنے کے بعد اس دن تک نامہ اعمال میں بدی کا کالم صفر کر دیا جاتا ہے ۔

لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ حج کے بعد وہ ایسا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے اسی دن جنا ہو یعنی اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ان گناہوں سے مراد صرف حقوق اللہ ہیں یعنی وہ گناہ، کمیاں اور کوتاہیاں ہیں جو اللہ کے حقوق میں ہوئے ہوں ، بندے کے حقوق حج ادا کرنے سے بھی معاف نہیں ہوں گے۔

اسی لیے اس کی تاکید کی جاتی ہے کہ حج کے لیے نکلنے سے پہلے لوگوں کے ساتھ جو معاملات ہوں وہ صاف کر لے ۔ کسی سے قرض لیا ہو اسے ادا کر دے ، کسی کی زمین دبایا ہو اسے واپس کر دے کسی کو بلا وجہ ستایا ہو اس سے معافی مانگ لے ، کسی کی بہن بیٹی کا رشتہ منقطع کرایا ہو اس کے لیے معافی مانگ لے، کسی نے زمین ، دکان ، گاڑی، پراپرٹی وغیرہ کا سودا کیا اس سودا پر سودا کیا ہو یعنی ڈیل کینسل ہونے سے پہلے ہی قیمت بڑھا کر لیا ہو اس کے لیے معافی مانگے، پھوپھیوں ، بہنوں بیٹے بیٹیوں کے حقوق ادا کرنے میں کمی زیادتی کی ہو اس کی اصلاح یعنی حقوق ادا کر کے اور کمی بیشی کو دور کر کے معافی تلافی کر کے حج کے لیے جائے.

ان حقوق کی ادائیگی صرف زبانی جمع خرچ کے طرز پر معافی مانگنے سے نہیں عملی طور پر حقوق ادا کرنے سے ہوگی ۔ ایسا کرنے کے بعد ہی حاجی کی حیثیت ایک نوزائیدہ بچہ کی ہوگی اس لیے کہ حج کی ادائیگی کے لیے جانے سے پہلے اس نے لوگوں کے حقوق ادا کر کے معاملات صاف کر لیا اور دوسری طرف حج کے ارکان ادا کر نے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حقوق اللہ میں کمی کوتاہی معاف کر دیا ۔

ہمارے یہاں یہ رسم رائج ہے کہ عموماً حج کے لیے جانے سے پہلے عازمین حج اپنے متعلقین سے ملتے ہیں رابطہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ حج کے لیے جا رہے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ وہ معاف کر دیں ! اس سے معافی نہیں ہوتی ہے۔‌ جس کا قرض ، بقایا اور ادھار رکھا ہے وہ ادا کرے اس کے بعد معافی طلب کرے۔ اس لیے کہ مادی اشیاء ادا کرنے کے بعد بھی اس پوری مدت میں ادا کرنے میں بلا عذر تاخیر کی اور بد نیتی کی ہے اس کے لیے بھی معافی شرط ہے۔

دوسری بات یہ کہ ایسے شخص پر حج فرض نہیں ہے جو مقروض ہو۔ جو مقروض ہے وہ صاحب استطاعت نہیں ہے الا یہ کہ اپنے گھر والوں کے سامنے قرض کی ادائیگی کا بندوبست کر کے قرض دینے والے کے سامنے واضح کر دے کہ اب یہ قرض کس طرح کون ادا کرے گا ۔ اگر وہ اس پر اتفاق کر لے تو ٹھیک نہیں تو حج کے لیے جانے سے پہلے اسے اپنے ہاتھ سے ادا کرنا ہوگا ۔ادا کرنے کے بعد ہی اس پر حج فرض ہوگا ۔

اس لیے عازمین حج اپنے آپ کو ٹٹول لیں کہ واقعی وہ حج کے لیے جا رہے ہیں ، صاحب استطاعت ہیں اور حقوق العباد ادا کر کے جا رہے ہیں یا ان کے لیے یہ ایک پرسٹیج ایشو ہے کہ ان کے پڑوس کے مالی اعتبار سے ان سے کمتر لوگ حج اور عمرہ کر رہے ہیں اگر وہ نہیں گئے تو لوگ کیا کہیں گے یا روپے پیسے کی کمی نہیں ہے سیر و سیاحت کے لیے کسی اور ملک اور مقام پر نہ جا کر مکہ مدینہ ہو آتے ہیں!

حج کے لیے جانے سے پہلے معافی کی طرح ایک اور رسم ہے موت کے قریب ہونے کا اندازہ ہونے پر متعلقین سے معافی طلب کرنا ۔۔۔۔ زندگی بھر اپنے والدین ، بہن بھائیوں یا اپنی اولاد، رشتے داروں اور پڑوسیوں کو ستاتے رہے لیکن اب آخر وقت میں اپنی موت کے حوالے سے معافی مانگتے ہیں ۔ ان کو حقیقی معافی اسی وقت ملے گی جب وہ ان کمیوں کوتاہیوں ظلم و زیادتی اور بدسلوکی کے لیے زبانی جمع خرچ نہیں مادی شکل میں کچھ لے دے کر تلافی کی جائے اور معاملات صاف کر لیے جائیں۔‌ یہ جب ہی ممکن ہے جب انسان کو واقعی مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان ہوگا ۔

You may also like