Home اسلامیات دائرہ در دائرہ تنگ ہوتا ہوا اسلام – مسعودجاوید

دائرہ در دائرہ تنگ ہوتا ہوا اسلام – مسعودجاوید

by قندیل

دین اسلام ایک سیدھا سادہ آسان مذہب ہے لیکن لوگوں نے اس کو دائرہ در دائرہ میں قید کر کے مشکل بنا دیاہے اور ان کے دائرے سے باہر کے لوگوں پر وہ بلا دریغ کفر و شرک کا فتویٰ ٹھوک دیتے ہیں. جب تک یہ ذہنیت غالب رہے گی مسلمانوں میں اتحاد کی بجائے انتشار کا دار دورہ رہے گا۔‌
(١) ایک دائرہ اسلام کا۔
(٢) پھر اس کے اندر ایک اور دائرہ مقلد یعنی حنفی ، شافعی ، حنبلی ، مالکی کا یا غیر مقلد کا ۔
(٣) پھر حنفی میں بھی ایک دائرہ دیوبندی کا اور دوسرا دائرہ بریلوی کا ۔
اس کے علاوہ سلسلۂ تصوف ؛ چشتیہ، قادریہ ، نقشبندیہ اور سہروردیہ !
بعض اوقات تعارف کرانے کے لیے مسلمان کہنا کافی نہیں ہوتا اس کے بعد صاف صاف یا اشارے میں ایسا کچھ پوچھا جائے گا جس سے پتہ چل جائے کہ آپ دیوبندی ہیں یا بریلوی یا اہل حدیث!
اسلام کا دائرہ صرف ایک ہے کفر اور شرک کے مخالف دائرہ ۔‌ ہم نے خالص اسلامی مزاج کے خلاف اپنے مزاج، رجحان اور افکار کے مطابق اسے الگ الگ دائروں میں بانٹ دیا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اسلام کے دائرہ کو ہم تنگ کرتے چلے گئے۔روحانی اسلام ، اخلاقی اسلام، رسمی عبادتی اسلام، معاشی اسلام، تربیتی اسلام ، سماجی اسلام اور سیاسی اسلام وغیرہ وغیرہ!

اسلام ایک جامع اور مانع inclusive, comprehensive نظام ہے اسے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا ہے۔ اس پر عمل کی تکمیل جب ہی ہوگی جب اس کے تمام پہلوؤں پر عمل پیرا ہوں گے ۔ مسلمان وہ ہے جو سماج کا ایک ذمہ دار فرد ہو اس کے اخلاق اسلام کا پرتو ہوں ، سماج میں، تجارت میں، ملازمت میں، اچھائی پھیلانے اور برائی کو مٹانے میں اسلام کا متعارف کرانے والے ہوں۔

اگر آپ پیر صاحب کی قدم بوسی، سجدہ تعظیمی نہیں کریں گے اور نذرانہ نہیں دیں گے تو کیا آپ کا ایمان مکمل نہیں ہوگا !
کیا ایمان مجمل اور مفصل میں یہ بھی شامل کرا دیے جائیں!

شرعی مسائل بالخصوص عقیدہ سے متعلق بعض باتیں ایسی ہیں جن میں گرچہ گنجائش ہوتی ہے لیکن ہمارے سلف صالحین نے چور دروازے بند کرنے کی خاطر گنجائش کو درکنار کر دیا تاکہ عام مسلمان جو عموماََ دین کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے ہیں وہ گمراہ نہ ہوں ۔
مزارات ، آستانے ، پختہ قبور ، عرس, قوالی، پیروں اور سجادہ نشینوں کی قدم بوسی ، مشکل کشا، فریاد رس اور حاجت روا وغیرہ سمجھنا گرچہ دیوبندی مکتبہ فکر میں نہیں ہے پھر بھی بعض دیوبندی علماء نے اپنے بزرگوں اور پیروں کے نام پر سالانہ ختم قرآن ختم قل وغیرہ کا جلسہ منعقد کراتے ہیں اور پیری مریدی کا سلسلہ نسل در نسل منتقل کر رہے ہیں ۔
ہمارے آبائی وطن میں دیوبندی مسلک کے ایک بزرگ مولانا عبدالرشید رانی ساگری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ مسجد کے ایک گوشے میں ان کا حجرہ تھا جہاں ان کے معتقدین ان کی روحانی باتوں سے مستفید ہوتے تھے۔ ان کی دینی خدمات پھیلانے کی بجائے ان کے کشف وکرامات کے واقعات سے لوگ رطب اللسان رہتے تھے!
ان کا انتقال ہوا تو ایک بڑی تعداد اسی حجرہ میں ان کی قبر بنانے پر مصر تھی۔ علماء کی اکثریت اس سے اتفاق نہیں رکھتی تھی ۔ دونوں گروہوں میں رسہ کشی ہوگئی قریب تھا کہ تلواریں میان سے باہر آجاتیں۔ بالآخر امارت سے بڑے بزرگ اور ذمے دار آئے اور سمجھا بجھا کر عام قبرستان میں دفن کرنے پر لوگوں کو راضی کیا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس حجرہ میں پختہ قبر ،چادر پوشی اور نمازیوں سے زیادہ زائرین کا جمگھٹا ہوتا۔
دیوبندی مسلک کے بعض لوگوں کی ایسی ہی حرکتوں کو بریلوی حضرات نے بطور دلیل لیا اور دوسری طرف اہل حدیث بھی ان ہی حرکتوں کی وجہ سے دیوبندیوں کو بریلویوں کے خانہ میں ڈال کر انہیں شرک اور شبہ شرک کے قریب گردانتے ہیں۔
ان دنوں بعض سلفی بھی رقیہ شرعیہ کے نام پر تعویذ اور جھاڑ پھونک وغیرہ سے لوگوں بالخصوص خواتین کو اپنے ” پہنچے ہوئے” ہونے کا باور کرانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ یعنی اس بابت بریلوی ،دیوبندی اور اہل حدیث تینوں مسلکوں کے لوگ روزی روٹی کے لیے سرگرم ہیں !
اشاعت دین اور اصلاح معاشرہ میں آج کل کے پیروں کا کیا رول ہے ؟ تزکیہ نفس اگر مقصود ہے تو آپ کسی متقی پرہیزگار عالم باعمل کی خدمت میں سیکھنے کے غرض سے چند ماہ گزاریں ۔
دین حنیف کی تبلیغ کے لیے چلہ کشی ، حال طاری ہونے، مافوق الفطرت کارنامے اور کشف و کرامات ، تعویذ گنڈے اور سفلی عمل کی ضرورت نہیں ہے۔

You may also like