Home تجزیہ مظفر نگر سے لدھیانہ تک – شکیل رشید

مظفر نگر سے لدھیانہ تک – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز) 

اگر اترپردیش ( یوپی) کے ضلع مظفرنگر کے کمسن مسلم طالب علم کو بروقت انصاف مل جاتا ، اور قصور وار خاتون ٹیچر کے خلاف فوری طور پر قانونی کاروائی ہوجاتی ، تو لدھیانہ کا شرم ناک واقعہ پیش نہ آیا ہوتا ۔ سچ کہیں تو مظفرنگر کے واقعے نے ان تمام بے ضمیر ٹیچروں کو ، جن کے خمیر میں مذہبی عصبیت بھری ہوئی ہے ، اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کرنا جن کا شیوہ ہے ، ایک چھوٹ دے دی تھی کہ وہ جی بھر کر اپنے طالب علموں کو نفرت کا درس دیں ، اور جن کے خلاف نفرت کا درس دے رہے ہیں ، اُن سےنفرت سے پیش آئیں ۔ مظفرنگر کے بعد اُسی طرح کے کئی واقعات ہوئے اور ہنوز ہو رہے ہیں ، لدھیانہ کا واقعہ ان ہی واقعات میں تازہ اضافہ ہے ۔ مظفرنگر میں یہ ہوا تھا کہ ایک سات سال کے مسلمان طالب علم کو اس کی ٹیچر ترپتا تیاگی نے کلاس کے دوسرے بچوں سے ، جو دوسرے مذہب کے تھے ، تھپڑ اور گھونسلے لگوائے تھے ، بچے کے مذہب پر تنقید کی تھی ۔ لدھیانہ میں کمسن طالب علم کو دو دوسرے طلبہ سے دونوں ہاتھوں پر ٹنگوا کر پٹائی کی گئی تھی ، اور پھر کمرے میں لے جاکر خوب پیٹا گیا تھا ۔ یہ ظالمانہ حرکت دو دنوں پر محیط تھی ۔ سوشل میڈیا پر اس ظالمانہ واقعہ کی جو خبریں آئی ہیں ان میں لکھا ہے کہ ’ ٹیچر کے ہاتھوں کمسن طالب علم پر تھرڈ ڈگری ٹارچر ‘۔ ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے کی ٹانگوں پر ڈاکٹروں نے پٹیوں سے عارضی پلاستر کر دیا ہے ۔ بچے کی ماں کا کہنا ہے کہ جب وہ شکایت لے کر اسکول گئی تو اسے دھمکی دی گئی کہ اگر پولیس میں شکایت درج کروائی گئی تو بچے کو اسکول سے نکال دیا جائے گا ۔ بچے کا قصور کیا تھا ؟ بس یہ کہ اس نے کسی دوسرے بچے سے پنسل لے لی تھی ! یہ واقعہ مذہبی عصبیت کے زمرے میں اس لیے آتا ہے کہ بچہ مسلمان ہے ، اور اس کے مذہب نے ٹیچر کو ، جس کا نام شری بھگوان ہے ، غصہ دلانے کا کام کیا ہے ۔ ہندوستان میں ایسے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں ۔ یہ تو ہندوستان کے دور دراز کے دیہاتوں کے واقعات ہیں ، یہاں تو شہروں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی ایسے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں ۔ ایک سال قبل باوقار مانی جانے والی منی پال یونیورسٹی میں حمزہ صدیقی نام کے ایک انجنیئرنگ کے طالب علم کو اُس وقت اپنے ٹیچر سے الجھنا پڑا تھا ، جب اُس نے صدیقی کو اجمل قصاب کہہ دیا تھا ۔ اس سے قبل صدیقی ہی کے ساتھ مزید ایک واقعہ پیش آیا تھا ، کلاس میں ٹیچر نے اس سے سوال کر لیا تھا کہ تمہیں تو سنگ باری آتی ہو گی ، اس پر کلاس کے دوسرے بچے یوں ہنس پڑے تھے جیسے یہ معمول کا سوال ہو ! حسینہ بانو نام کی ایک طالبہ کا واقعہ بہت دنوں تک موضوع بحث رہا ، یہ بھی منی پال یونیورسٹی کا ہی واقعہ ہے ، ٹیچر نے دہلی میں ایک مسلم نوجوان کے ہاتھوں ایک لڑکی کے قتلِ کی واردات پر تنقید کرتے ہوئے کلاس میں اس طالبہ سے کہا تھا کہ مسلمانوں میں رحم نہیں ہوتا ۔ اگر مختلف رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۱۴ کے بعد تعلیمی اداروں میں ، کالجوں اور یونیوسٹیوں میں مذہبی عصبیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایس سی اور ایس ٹی کے ساتھ تو یہ ہوتا ہی ہے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہ معمول کا رویہ بن گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ملک کا آج کا نفرت بھرا ماحول ہے ۔ مظفرنگر میں یہ بڑھتی ہوئی نفرت ہی ہے جس نے ایک ٹیچر کو فرقہ پرست بنا دیا ، اور لدھیانہ میں شری بھگوان کو اذیت رساں بنا دیا ۔ ایسے واقعات کا افسوس ناک پہلو قصورواروں کو بچانے کی کوشش ہے ۔ پولیس اور حکمراں ٹولہ ، اگر قصوروار اُن کے نظریے کے ماننے والے اور مذہب و ذات پات کے ہوں ، تو ہر طرح سے ، غیر قانونی طور پر بھی ، انہیں حفاظت فراہم کرتا ہے ۔ منی پال کے متعصب ٹیچر آج بھی محفوظ ہیں ، دلت طالب علم روہت ویمولا کو خودکشی پر اکسانے والے ہنوز آزاد ہیں ، ترپتی تیاگی بھی اب تک محفوظ ہے ۔ یہ تو شکر کریں کہ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ، اور سپریم کورٹ نے شنوائی کر لی ، اور کچھ انصاف کی امید جاگ اٹھی ، ورنہ نفرت بانٹنے والی ٹیچر نہ جانے کتنا زہر اگلتی پِھرتی ! حیرت ہے کہ پولیس کیسے اوپر سے آنے والے حکم پر آنکھیں موند کر عمل کرتی ہے ! ترپتی تیاگی کے خلاف ایف آئی آر میں خامیاں ہیں ، متعلقہ دفعات لگائی ہی نہیں گئی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ایک ہفتے میں آئی پی ایس افسر تفتیش کرے ، رپورٹ دے ، متعلقہ دفعات لگائی جائیں ، بچے کی تعلیم کا انتظام کیا جائے ، اور متاثرہ بچوں کی کاؤنسلنگ کرائی جائے ۔ سپریم کورٹ کا بہت بہت شکریہ ۔ لیکن ایسے تمام معاملات سپریم کورٹ میں نہیں جاتے ، اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں سے فرقہ پرستی اور عصبیت کے خاتمے کے لیے ہر فرد اپنے اپنے حصے کا کام کرے ، احتجاج کرے ، پولیس پر دباؤ بنائے اور قانون کا سہارا لینے کے لیے متاثرین کو تیار کرے ، ان کے ساتھ کھڑا رہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like