Home تجزیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی سیاست- ڈاکٹر کنور محمد اشرف

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ہندوستانی سیاست- ڈاکٹر کنور محمد اشرف

by قندیل

(دوسری قسط)
جامع و مرتب:سجاد حسن خان
پی ایچ ڈی کینڈیڈیٹ، شعبۂ تاریخ، علی گڈھ مسلم یونیورسٹی
(۳)
میں کہیں پڑھ رہاتھا کہ جب ۹ء میں بانی کالج کی برسی کے موقع پرمولانامحمدعلی علی گڑھ بلائے گئے توموصوف نے سرسیدکومخاطب کرتے ہوئے کالج کی مسجد میں اپنی تقریر اس شعر سے شروع کی کہ:
سکھایاہے تمہی نے ہم کویہ سب شوروشرسارا
جواس کی ابتداتم تھے تو اس کی انتہاہم ہیں
آج غالباََ بعض حلقوں کویہ معلوم کرکے حیرانی ہوکہ علی گڑھ کے ترقی پسندنوجوان اپنے’’شوروشر ‘‘ کے لئے سرسید کوذمہ دار بلکہ معلم اول قرار دیتے تھے اورواقعہ بھی یہی ہے کہ۹ ء تک جوسیاسی ماحول علی گڑھ میں قائم ہوچکاتھا اس میں سرسید کے کردار کاتنقیدی پہلوپوری آب وتاب سے ابھرآیاتھااورعلی گڑھ کے سرپھرے نوجوان اپنی انگریز دشمنی کوبانی کالج سے منسوب کرنے لگے تھے ۔ اس کی ابتداخود سرسید کے ان شبہات سے ہوئی جوہندی تحریک کے بارے میں مرتے وقت مرحوم کے دل میں تھے اوروہ اپنے رفقا سے کہاکرتے تھے کہ اردودشمنی کی ابتداخود حکومت نے بہار میں کرائی ہے ۔چنانچہ حکومت کی مرضی کے خلاف اردوکی حمایت کے لئے محسن الملک نے علی گڑھ میں انجمن بنائی اورجب حکومت نے عریاں طور پر مداخلت کرکے یہ تحریک دبادی بلکہ کالج کی امداد بند کرنے کی دھمکیاں دیں توسرسید کے جانشینوں کوبرطانیہ کی حکمت عملی کااندازہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد محسن الملک نے ایک جانب سودیشی تحریک کے تعمیری پہلوکی علانیہ حمایت کی اوردوسری طرف خفیہ طورپر دیوبند کی جانب اتحاد اوردوستی کاہاتھ بڑھایا۔
۵ء؁ کی جاپانی فتح اورروس کے ناکام انقلاب کے بعد ایک نئی سیاسی فضاہندوستان اوربالخصوص ترکی ، ایران اورمصر میں پیداہوئی ۔ علی گڑھ میں شبلی اس جمہوری انقلاب کے پیامبرتھے اورمشرق وسطیٰ کے سفرکے بعد ان کے تعلقات ترکی میں انجمن اتحاد و ترکی اورمصر میں دستورپرست اورجمال الدین افغانی کے پیروؤں سے اوربھی مستحکم ہوگئے تھے چنانچہ ان روابط کومضبوط کرنے کے لئے بعد میں علامہ رشید رضاہندوستان آئے ۔ مسلم لیگ کے اجلاس ڈھاکہ کے سلسلے میں علی گڑھ کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کوذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے ایک طرف اس اجلاس میں محسن الملک کالج کے سکریٹری کی حیثیت سے لاچار اوربرطانوی عمال کے آلہ کار تھے ، دوسری طرف علی گڑھ کے شوروشرپسند نوجوانوں کوحکومت کے اس فتنہ پروراورسازشی اقدام کابخوبی اندازہ تھا چنانچہ جہاں محسن الملک، آغاخاں اورحکومت کے دوسرے معتمدڈھاکہ پہنچے وہاں نوجوانوں کے ترجمان میں محمد علی ، اجمل خاں ، آفتاب احمد خاں، مظہرالحق ، علی امام،ظفرعلی خاں ، فضل حق وغیرہ بھی ا س اجلاس میں شریک ہوئے اورڈھاکہ اجلاس کے فوراََ بعد ان نوجوانوں نے احرارلیگ ؔ کی بنیاد ڈال کر مسلمانان ہند کووطن کی جنگ آزادی میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔ کامریڈ دراصل اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے نکلالاگیاتھا، اورشبلی کی بدولت اس تحریک کادامن اتحاد اسلام اورایران ، ترکی اورمصرکی قومی تحریکوں سے مل گیا۔یوں سمجھئے کہ ہندوستان کی اسلامی تحریک کا یہ بین الاقوامی محاذ قرارپایا۔
یہ وہی زمانہ ہے جب خود علی گڑھ میں حسرت ؔ نے اردوئے معلی جاری کیااورسدیشی کی حمایت کے سلسلے میںرسل گنج میں دکا ن کھولی ۔ حسرتؔ اس دور میں تلک کی تشددپسندی کے پورے طورپرحامی تھے بلکہ ۹ء میں مولانابرکت اللہ پھوپالی کامضمون شائع کرکے انھوں نے یہ بھی واضح کردیاکہ جمہوری آزادی کے حصول کے لئے وہ جنرل اسٹرائک اورفوجی بغاوت کوبھی حق بجانب سمجھتے ہیں ۔ علی گڑھ کے ممتاز اخبارنگاروں میں مولاناظفرعلی خاںبھی ہیں جنھوں نے اس زمانہ میں لاہور سے زمیندار نکال کر احرارلیگ کے پیام کی پنجاپ سرحد اورسندھ میں تبلیغ شروع کی ۔ الہلال اس زمانے میں علمائے ہند کی سیاسی تربیت میں مصروف تھابلکہ مولاناعبیداللہ سندھی نے حکیم اجمل خاں، مولاناابوالکلام اوروقارالملک کے مشورہ سے پہلے دیوبند اورپھردہلی میں نظارۃ المعارف القرآنیہ کی بناڈالی جس کابنیادی منشا مسلمانوں کے انگریزی داں اورمذہبی حلقوں میں انگریزدشمنی کی بنیاد پراتحاد قائم کرناتھا۔ مولانامحمد علی اس سلسلے میں دیوبند خود گئے اور موصوف نے فرنگی محل میں بعد کوبیعت بھی کرلی ۔ غرضیکہ ۶ء سے ۱۴ء تک ایک طرف مسلمانوں میں جمہوری جدوجہد کی بنیاد پر اتحاد قائم ہو گیا۔ دوسری طرف احرار لیگ کی بدولت کانگریس اورمسلم لیگ اس درجہ ایک دوسرے سے قریب آگئیں کہ ۱۶ء میں دونوں نے لکھنؤ میں معاہدہ کرلیاجس کے بعد ترک موالات اوردوسری انقلابی تحریکوں کے لئے زمین ہموار ہوگئی ۔
علی گڑھ پر البتہ فیصلہ کن اثرصرف محمد علی اورادارۂ کامریڈ کاپڑا چنانچہ ایک زمانے تک کامریڈ اورہمدرد کے پرچے کمرے کمرے فروخت ہوتے اوربڑے انہماک کے ساتھ پڑھے جاتے تھے ۔ مجھے یاد ہے جب کامریڈ بند ہواتواس کامشہوراداریہ ترک کا انتخاب (Choice of the Turk) طلبا نے سوغات کے طور پرمحفوظ کرلیااورمیں نے یہ نمبر جانے کتنے دوستوں کے پاس ۲۰ میں علی گڑھ میں دیکھا۔ کامریڈ کی تحریروں میں آپ کو بسااوقات ارزاں قسم کی جذباتیت اورغیر ضروری طوالت نظرآئے گی ۔ یوں بھی احرار لیگ کے بنیادی نظریے کچھ بہت زیادہ واضح نہیں ہیں مگر یہ سب اس دور کی نفسیات کی جھلک ہے کہ لوگ اتحاد اسلام ، سوراج ، جمہوری انقلاب، مذہبی امامت جیسے متضاد نظریوں میں تفریق نہیں کرتے اور یوروپ کی سیاسی تحریکوں کوجانچنے کے لئے ان کے پاس سرے سے کوئی معیار ہی نہیں ہے ۔ مگرکامریڈ یااحرار لیگ کی یہ اصولی خامیاں ا س دور میں اہم نہیں ہیں ۔ مسلمانوں کی یہ تحریک اپنے اندرسامراج دشمنی بلکہ جمہوری انقلاب کامبہم سا جذبہ رکھتی تھی اوروقت کی تاریخی ضرورتوں کے لئے اس تحریک کایہ بنیادی رجحان کافی تھا۔آپ اسے شبلی ؔ کی نظموں، الہلال،زمیندار کے مضمونوں ، دیوبند اورفرنگی محل کی تقریروں حتیٰ کہ اس زمانے کی غالب کی شرحوں تک میں پائیں گے ۔ محمد علی یقینی(طور پر) اس رجحان کے سب سے مؤثر ترجمان اور اِس تحریک کے سب سے بڑے رہنما ہیں ۔ انھوں نے اپنی صحافت کی ابتدا ایڈمنڈ برک کے تتبع میں’’ موجودہ بے چینی‘‘(Thoughts on the present discontent) پراپنے تاثرات شائع کرکے کی تھی جس میں سیاسی مطالبات نام کے لئے نہیں ہیں مگر اس کے فوراََ بعد جب کامریڈ نکلاتواس کے سرنامہ کے انگریزی اشعار سے ہی پتہ چلتاتھاکہ یہ جمہوری انقلاب کی آگ لگاکرہی دم لے گا۔
اب اس دور میں علی گڑھ کی سیاسی زندگی پر نظرڈالئے توبظاہر اب بھی علی گڑھ میں آپ کو کھلنڈرے ہی دکھائی دیں گے بلکہ شوکت علی ا ن میں سب سے پیش پیش نظرآئیں گے مگرعلی گڑھ کاذہن اب کافی بدل چکاہے ۔ نوجوان اب بھی نوکری اورپنشن ہی کی سوچتے ہیں مگربعض کے دلوں میں آزادوکالت اور ’’ خدمت قوم ‘‘ کی امنگ بھی ہے بلکہ اپنی سامراج دشمنی میں کالج کے انگریز استادوں کوکچھ شبہ اوربداعتماد ی کی نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں ۔ چنانچہ علی گڑھ کی سیاسی زندگی کی
ابتدا ۹ء؁ میں ایک انگریز اُستاد کے خلاف اسٹرائک سے ہوئی۔ اِس کے بعد اسلامی دنیا کی تحریکوں کا اثر پڑنا شروع ہوا۔۱۳ میں جب طرابلس کے مجروح اورشہیدوں کی حمایت کیلئے آواز بلندہوئی توعلی گڑھ کے طلباء نے گوشت کھاناترک کردیا اوریہ رقم زخمیوں کی امدادواعانت کے لئے بھیجی گئی ۔ اس کے بعد یوں سمجھئے کہ کامریڈ یا ہمدرد کے صفحات میں جس تحریک کے لئے بھی ملک سے مطالبہ ہوتااس کی آواز باز گشت علی گڑھ کی چاردیواری میں فوراََ گونجتی۔ جب مسجد کانپور کاسانحہ ہواتوشبلی ؔکے علاوہ ہاشمی فریدآبادی نے وہ دردانگیزنظمیں کہیں جوآج بھی پڑھنے کے قابل ہیں ۔ جب انصاری وفد ترکی گیاتواس میں عبدالرحمٰن صدیقی ، شعیب قریشی،خلیق الزماں ، عبدالرحمن پشاوری وغیرہ تقریباََ سب کے سب علی گڑھ ہی کے لوگ تھے ۔ انصاری وفد کی واپسی پر جب خدام کعبہ کی تحریک شروع ہوئی تومولاناشوکت علی نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دیکر اس کی تنظیم شروع کی اوراب علی گڑھ میں جگہ جگہ ہجرت وجہاد کاچرچاشروع ہوا اورجب مولاناابوالکلام کے ایماسے ہجرت کی تحریک شروع کی گئی توعلی گڑھ کے بعض زندہ دل نوجوان اس میں بھی شریک ہوئے اورجان محمد جونیجو کی طرح ا پنی جائداد یں بیچ کرافغانستان چلے گئے ۔ جنگ عظیم کے زمانہ میں مولاناابولکلام اورمولانا محمودالحسن (اسیرمالٹا) کے ساتھ محمدعلی اورشوکت علی بھی گرفتار کرلئے گئے اوربعد کواس حقیقت کاانکشاف ہواکہ ’’ ریشمی خطوط ‘‘ کی سازش کی بعض کڑیاں علی گڑھ میں بھی تھیں اوربہرنوع کابل کی آزادہندوستانی حکومت کابانی مہندرپرتاپ خود علی گڑھ کاطالب علم تھا۔
علی گڑھ کی اس سیاسی بیداری کااثر ہمارے ادیبوں پر بھی پڑااوراس دور کے لوگوں میں حسرت ؔ ،سجاد حیدرؔ، قاضی عبدالغفاؔر ، بمبوقؔ اور عبدالرحمن بجنوری خصوصیت سے قابل ذکرہیں ۔ علی گڑھ کامطمح نظراب اس درجہ بدل چکاتھاکہ بجنوری مرحوم کودیوان غالب ؔ اوروید دونوں ہی مقدس نظرآتے تھے ۔ اورڈاکٹرسید محمودنے اپنی قوم پروری کی تسکین کے لئے غالب کی شرح لکھی ۔حسرت کے متعلق معلوم ہے کہ وہ کبھی برنداون (متھرا) میں کرشن کے درشن کے لئے جاتے اورکبھی حجاز میں رسول عربی کے مزارکی زیارت کیاکرتے تھے ۔ ہندوستان کی عام فضابھی اِس درجہ سازگار تھی کہ لکھنؤ کے اجلاس ۱۶ء میں تلک اوربپن چندرؔ پال نے اسلام کی جمہوری روایات کو سراہا اورمسٹر جناح کومغربی جمہوری آزادی کے سب سرچشمے قدیمی ہندوستان میں نظرآئے ۔

(۴)
۱۶ء کے آخر میں جب جنگ عظیم کاغبار کچھ چھنٹاتوبرطانوی مدبروں نے ہندوستان کے سیاسی ماحول کاجائزہ لیااورلکھنؤپیکٹ کے رہنماؤں کولبھانے کیلئے مانٹیگوہندوستان تشریف لائے ۔ بالآخر جب ۱۹ء میں جلیاں والاباغ کے حادثے نے مانٹیگو اصلاحات کی حقیقت بے نقاب کردی اور انقلابی تحریک کے آثار ہرطرف دکھائی دینے لگے توہندوستانی قوم پرستی نے اس نادرموقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایک ہمہ گیر تحریک شروع کی اوراس سلسلہ میں ہندومسلم اتحاد کومضبوط بنانے کے لئے مسلمانوں کامطالبہ خلافت مان لیا۔ اس کے بعد ترکِ موالات کی طوفان خیز تحریک نے وطن کے مختلف تعلیمی اداروں کارخ کیااورگاندھی جی ، مولانامحمدعلی ، مولاناابولکلام ، ڈاکٹر انصاری ،حکیم اجمل خاں وغیرہ کوساتھ لے کر علی گڑھ تشریف لائے ۔ مجھے علی گڑھ کایہ زمانہ ہمیشہ یاد رہے گا اس لئے کہ ہماری باہمی گفتگو کبھی علماء کے متفقہ فتوے سے شروع ہوتی تھی ، کبھی ہم ترکی زبان کے گیت بغیر ایک لفظ سمجھے گاتے تھے اورکبھی ہجرت اورجہاد کے منصوبے بناتے تھے ۔ علی گڑھ یونین کاوہ منظربھی میں نہ بھول سکوں گاجب گاندھی جی نے تقریر کی اور ہم اس درجہ جوش اورغصہ میں بھرے ہوئے تھے کہ غریب غضنفر( عرف مینڈک) نے جب سوال کرنے کی کوشش کی توسب اس پر برس پڑے غرضیکہ ترک موالات کی تجویز ہم نے بلااختلاف رائے پاس کی اورچنددن بعد کالج کی مسجد میں جامعہ کی بنیاد پڑگئی توہم نے کالج کی عمارتوں پر قبضہ کر نے کافیصلہ کرلیا۔ طلباء تحریک ترک موالات سے اس درجہ متاثر تھے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین ، پرنسپل ٹول(J.H.Towle, 1909-19) ، اوردوسرے لوگوں کوان سے بات کر نے کی ہمت نہ پڑتی تھی ۔بالآخر نگراں کالج نے’’والدین‘‘ کو علی گڑھ بلایااورجب یہ حربہ بھی کارگر نہ ہواتوپولس بلاکرہم سب طلباء کو نکلوایاگیاباقی طالب علم اپنے گھربھیج دیے گئے ۔ تارکین موالات کایہ گروہ کالج کی عمارتوں سے نکل کر سڑک پارڈگی کوٹھی کے اردگرد خیموں میں بس گیا۔یہ کہیے کہ جامعہ نے ایک علمی درسگاہ کی حیثیت سے جنم لے لیا۔ مگرسوال تھاکہ پڑھیں کیااورپڑھائے کون؟ پہلے خیال تھاکہ ہمیں دینیات کی تعلیم دینے کے لئے مولاناابولکلام ، طب سکھانے کے لئے حکیم اجمل خان اورڈاکٹر انصاری ، فلسفہ کے درس کے لئے ڈاکٹر اقبال ، اورانگریزی ادب اورتاریخ کے لئے مولانامحمد علی مقررہوں گے ۔اورآپ خود سمجھ سکتے ہیںکہ ان توقعات کے سہارے ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے تھے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانامحمد علی نے ہمیں انگریزی زبان اورتاریخ پردرس دیناشروع بھی کردیامگرچندہفتوں کے بعد معلوم ہواکہ جامعہ کابڑامقصد ستیہ گرہ تحریک کے لئے والنٹیر فراہم کرناہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں شفیق الرحمن مرحوم ، امیرعالم، سید محمد ٹونکی اوردوسرے دوستوں کاپہلاجتھامختلف صوبوں کوروانہ ہوگیا ۔ باقی لوگ تعلیم میں لگے رہے بلکہ کچھ مدت بعد مولانامحمدعلی نے جامعہ کانصاب تیارکیاجس میں اردوزبان اورمذہبی تعلیم پر خصوصیت سے زوردیاگیاتھا۔ اس نصاب کے مطابق ہم میں سے بعض نے امتحان بھی دئیے اورکنووکیشن میں ڈاکٹر بی۔ سی ۔ اے کے ہاتھ سے سندبھی لی ۔ مگر ۲۴ء تک ہندوستانی سیاست میں اجتماعی جدوجہد کادورختم ہوچکاتھا اورفرقہ پروری نے ہلکے ہلکے اس کی جگہ لے لی تھی بلکہ فضامیں شدھیؔ اورتبلیغ کے نعرے بلندہورہے تھے ۔ اس یاس انگیز ماحول میں جب یہ خبرآئی کہ مصطفیٰ کمال نے خلافت عثمانی کاقصہ ہی پاک کردیاتوآپ خود سوچیے کہ جامعہ میں ہم پرکیاگزری ہوگی۔ ۲۴ء کے بعد قوم پرستی نے سوراجی سیاست کاجامہ پہنااوراب ہم سب کی توجہ دہلی کے ایوانوں پرگئی جہاں سوراج پارٹی کے رہنمااورمسٹر جناح ہنگامہ ٔ آزادی کوزندہ رکھنے کے لئے آئے دن دھواں دھار تقریریں کیاکرتے تھے ۔ ایوانوں سے باہر کبھی یونٹی کانفرنس میں ہندومسلم اختلافات کامظاہرہ رہتاتھاکبھی فرقہ پرست عناصر فسادات سے اپناکاروبارچلاتے تھے اوران موقعوں پرگاندھی جی فاقہ کرکے حالات پرقابوپانے کی کوشش کیاکرتے تھے ۔ غر ضیکہ سیاست پرجمود اورمردنی طاری تھی ۔
سیاست کایہ ماحول علی گڑھ کے حکومت پرست حلقوں کے لئے غیر معمولی طور پر سازگارتھا۔ جامعہ اب علی گڑھ سے دہلی منتقل ہوچکی تھی اورکالج مسلم یونیورسٹی بن گیاتھاجس کی نگراں جماعتوں میں تحریک ترک موالات کے باوضع رہنمابرائے نام دلچسپی لیتے تھے۔ یوں سمجھئے کہ علی گڑھ اس دورمیں مسلم فرقہ پروری کی جولانگاہ اورمسلم رجعت پسندوں کی ریشہ دوانیوں کے لئے وقف تھا۔ اس صورت میں یونیورسٹی کے قوم پروراورسامراج دشمن عناصر صرف یہ کرسکتے تھے کہ سوراجی رہنماؤں کوبلاکرکبھی کبھار یونیورسٹی یونین میں تقریر کروالیں ۔ مسٹر جناح کاہمیں بے صبری سے انتظار رہتا تھا اورلوگ تقریر سے زیادہ مرحوم کی خوش لباسی کی داد دیاکرتے تھے، مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم نے مسٹر شنمکہم چیٹیؔ اوردیوان چمن لال کویونین کی جانب سے ایک مباحثہ میں شرکت کی دعوت دی بلکہ دہلی جاکر پہلے سے فیصلہ کرلیاکہ دیوان صاحب اپنی پرجوش انگریزی تقریر میں ڈاکٹرضیاء الدین کاخصوصیت سے مضحکہ اڑائیں گے ۔ انتقام لینے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی تھی کہ مسلم فرقہ پرست رہنماؤں کوزچ کیاجائے چنانچہ ڈاکٹر شفاعت احمدخاں مرحوم اوردوسرے بزرگوں کواس قسم کے معرکوں کاکافی تجربہ ہوا مگر اس کے یہ معنی نہ تھے کہ ہم جائز مسلم مطالبات کے بھی خلاف تھے یا ہندو مہاسبھاسے اپنی قوم پروری کووابستہ کرناچاہتے تھے ۔ علی گڑھ میں اس زمانے میں ایک بار فخری پاشاتشریف لائے اورہم سب بہت خوش تھے کہ انورپاشاکے اس رفیق سے اتحاد اسلام پر گفتگو کا موقع ملے گا مگر ہماری حیرت کی انتہانہ رہی جب ہرسوال کے جواب میں موصوف نے ہمیں ترکی کا نیا لادینی نظریہ سمجھایااورہمیں اطمینان ہوگیاکہ خلافت کی ساری تحریک سرتاپابے جوڑاورہماری اسلامی سیاست کی بنیادیں یکسر فاسد ہیں ۔
علی گڑھ کے اس دور کاغالباََ سب سے دلچسپ واقعہ مرحوم سکل توالا ( برطانوی پارلیمنٹ کے کمیونسٹ ممبر)کی یونیورسٹی یونین کی تقریر ہے جسکامزے لے لے کرخود مرحوم نے مجھ سے لندن میں ذکر کیا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ جب سکل توالا کی علی گڑھ اسٹیشن پرآنے کی اطلاع ملی توطلبا کاایک وفد نواب مزمل اﷲ خاں مرحوم کی خدمت میں پہنچااورنواب صاحب سے گزارش کی کہ اگربرطانوی پارلمنٹ کے کسی ممبرکویونین میںتقریر کرنے کاموقع نہ دیاگیاتواس سے پوری برطانوی پارلمنٹ کی توہیں متصورہوگی ۔ نواب صاحب راضی ہوگئے بلکہ ڈاکٹرضیاء الدین نے سکل توالاکولنچ دیامگر یونین آنے سے پہلے ان سے وعدہ لے لیاکہ دوران تقریر میں کمیونزم کا نام نہ آئے گا۔ جلسہ کے صدر خود ڈاکٹرضیاء الدین تھے اورجب وہ تقریر ختم کرتے ہوئے سکل توالانے کہاکہ میںنے اپنے وعدہ کے مطابق کمیونزم کی اس موقع پرکوئی تبلیغ نہیںکی ہے توڈاکٹرضیاء الدین نے بڑے خلوص سے حامی بھری۔ سکل توالا نے اپنی تقریر یہ کہہ کر ختم کی کہ: ’’حضرات، کمیونزم اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے جس کی تشریح میں نے اپنی تقریر میں کی ہے ‘‘ اور بیٹھ گئے ، اب مجمع پرایک حیرانی تھی اور ڈاکٹر صاحب خصوصیت سے کھوئے ہوئے کہ مقامی حکام اورحکومت کوکیونکر اطمینان دلایاجائے گا ، بہرنوع سکل توالا کی آمد سے علیگڑھ میں کمیونزم کاچرچہ شروع ہوااوراسی زمانہ میں مبشر حسین قدوائی نے اپنی کتاب ’’ سوشلزم اوراسلام ‘‘ لند ن سے شائع کی ۔ کمیونزم کی تعلیمات سے ہم نے پہلی بار قومی اورفرقہ پرورتحریکوں کی تاریخی حیثیت سمجھی اورسیاست کے بہت سے پیچیدہ مسئلے صاف ہوگئے ۔
۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں سیاست کی ایک نئی بساط بچھی یعنی آل پارٹیز مسلم کانفرنس کااجلاس سرآغاخاں کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہوا ۔ یہ دراصل آل پارٹیز کنونشن کلکتہ کاتتمہ اورنہرو کمیٹی کامرثیہ تھااوراس حقیقت کا کھلاہواعتراف تھاکہ احرارلیگ ( یعنی خلافت) اورکانگریس کے فرقہ پرست لیڈروں کے ہاتھ میں آگئی اورپہلے مولانامحمد علی اورپھرمسٹر جناح ان کی صفوں میں شامل ہونے پرمجبورہوئے۔ دراصل آل پارٹیز مسلم کانفرنس بنی ہی اِس لیے تھی کہ جن نزاعی مطالبوں پر آئے دن یونٹی کانفرنسوں میں بحثیںہو اکرتی تھیں وہ لندن میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی وساطت سے دنیاکے سامنے آجائیں ۔مجھے سیاست کے اِن داؤ پیچ کا اس لیے اور بھی اندازہ تھا کہ اِس اجلاس سے کچھ پہلے مولانا محمد علی لندن ؔ تشریف لائے اور مجھے ان کی خدمت میں رہنے کاموقع ملا۔ تھوڑے دن بعد میں ان کے ہمراہ مہاراجہ الور کی حویلی میں شریک ہونے کے لئے ہندوستان واپس ہواورجب لندن لوٹاتومولانامحمد علی کوراؤنڈ ٹیبل کے آخری اجلاس میں شریک پایا۔ اس اثناء میں مولانامحمد علی کو ورغلانے کی کوشش برابرجاری تھی اورسامراج کے ایجنٹ بالآ خر کامیاب ہو ئے۔
علی گڑھ کی سیاسی زندگی کے لئے لندن کے ان اجتماعوں کاایک دلچسپ پہلویہ ہے کہ ہمارے بعض وہ پرجوش بلکہ سرفروش نوجوان جوانصاری وفد کے ساتھ ترکی گئے تھے اوراس کے بعد انھوں نے خلافت کی تحریک میں بڑی قربانیوں کاثبوت دیاتھا۔راؤنڈٹیبل کانفرنس کے موقع پر برطانوی سرمایہ داروں سے مل کرمسلم چیمبرآف کامرس اورفیڈرل انشورینسؔ کمپنی کے منصوبے بنانے میں مصروف ہوگئے اورلندن سے واپسی پرانھوں نے اصفہانی کی سرپرستی میں کلکتہ سے ایک انگریز ی روزنامہ نکالا۔ اسی طرح علی گڑھ کے پرانے طلبا کی لندن میں ایک اورٹولی بھی تھی جوبرطانوی وزرات خارجہ سے وظیفہ پاتی اورپاکستان کی حمایت میں مضامین شائع کرتی تھی ۔پاکستان کامطالبہ ضابطہ کے اعتبار سے مسلم لیگ نے ۳۹ء؁ کے اجلاس میں منظورکیا مگر علی گڑھ کی یہ ٹولی راؤنڈٹیبل کانفرنس کے زمانے میں اس کی تیاری میں مصروف تھی اورپاکستان اپنے نام کے لئے اسی ٹولی کاممنون ہے ۔
مجھے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے سلسلے میںایک لطیفہ یاد آیاجس کاتعلق علی گڑھ کے بعض ان ناموروں سے ہے جواب پاکستان کے حکمراں طبقے میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں ۔ علی گڑھ کے یہ ممتاز اولڈبوائے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پرایک بار پیرس گئے اوراپنے مستقبل کے بارے میں انھوں نے ایک مشہور ماہرروحانیات کی وساطت سے عالم ارواح سے استصواب کیا۔ اس مجمع میں دوہندوستانی اوردوترک تھے اورسب کے سب اپنی زندگی میں اتحاد اسلام کے زبردست حامی اورنشاۃٔ ثانیہ کے متمنی رہے تھے ۔ چنانچہ جناب رسالت مآب اورخلفائے راشدین کی جانب سے ’’ میڈیم ‘‘ نے انھیں بشارت دی کہ اسلام کے احیا اورتعمیر نوکے فرائض تمہیں سونپے گئے ہیں ۔ بدنصیبی سے دونوںترک نوجوانوں کاچند ماہ بعد انتقال ہوگیا مگرعلی گڑھ کے نوجوان بحمداللہ زندہ رہے اورترکی -پاکستانی معاہدہ اورامریکہ کی فوجی امدادکے سلسلے میں اس وقت پیش پیش ہیں ۔

( ۵)
۲۷ء اور ۳۲ء کے درمیان علی گڑھ کی سیاسی زندگی میں کیانمایاں تبدیلیاں ہوئیں مجھے ذاتی مشاہدہ کے طور پراس کاکوئی اندازہ نہیں ہے۔ البتہ رحمت اللہ کمیٹی نے ڈاکٹر ضیاء الدین کواس زمانہ میں پرووائس چانسلر کے عہدے سے علیحدہ کردیاتھااوریونیورسٹی میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اورڈاکٹرضیاء الدین کی کشمکش جاری تھی ۔ اس فریق بندی کی کوئی خاص سیاسی اہمیت نہ تھی البتہ اس زمانہ میں قوم پرورمسلمانوں نے یونیورسٹی کے معاملات میں دلچسپی لیناشروع کردی تھی اوراس کی وجہ سے علی گڑھ اورجامعہ کی وہ خلیج جوتحریک ترک موالات کے زمانے میں پیداہوئی تھی اب کم ہوتی جارہی تھی ۔ یونیورسٹی کی زندگی میں ایک نئی تبدیلی اس زمانے میں یہ بھی ہوئی کہ بعض ذہین مگرنسبتاََنادارطلبا کے لئے یونیورسٹی نے ایک نیابورڈنگ ہاؤس آفتاب ہوسٹل کے نام سے کھولا اورکچھ عجب اتفاق ہواکہ اس بورڈنگ کے تقریباََ تمام طالب علموں نے مارکسزم سے دلچسپی لیناشروع کی چنانچہ آج نوجوان مسلم کمیونسٹوں میں زیادہ تراسی دورکے طلبا نظرآئیں گے ۔ ان میںسے بعض مثلاََ علی سردار جعفری ، اختررائے پوری ، سبط حسن ، شاہ لطیف ، عصمت چغتائی اورممتاز حسین وغیرہ نے ترقی پسند اردوادب میں ایک نمایاں حیثیت حاصل کرلی ہے اورایک دونے آزادی وطن کی تحریکوں میں عملی حصہ بھی لیاہے ان میں سے سبط حسن ایک زمانے تک پاکستان میںقید تھے اورحال میں رہاہوئے ہیں ۔ علی سردارکئی بار ہندوستان میں جیل جاچکے ہیں ۔
علی گڑھ میں اس زمانے میں عبدالستارخیری مرحوم بھی موجود تھے اوران کے ذہن پرہٹلر کی تعلیمات کابڑاگہرااثرپڑاتھاچنانچہ موصوف کی بدولت علی گڑھ میںایک جرمن سوسائٹی بنی اوراس کی وجہ سے جنگ عظیم کے زمانے میں فاشزم کی ترویج کاایک مرکز علی گڑھ بھی قرارپایا۔
۳۶ء سے ہندوستانی سیاست کاایک نیاباب شروع ہوا یعنی کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نے بھی اپنی ممبری عام کردی اورجب کانگریس نے ایکٹ ۳۵ء کے ماتحت وزراتیں بنائیں تومسلم لیگ نے مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کانظریہ پیش کرکے وسیع پیمانے پرکانگریسی وزارتوں کی مخالفت شروع کی اورجب ۳۹ء میں کانگریسی وزارتیں ختم ہوئیں توتمام ہندوستان میں ’’ یوم نجات ‘‘ منایا۔ ان ہنگامہ آرائیوں کے بعد پاکستان اورتقسیم ہندوستان کامنصوبہ باضابطہ طور پر مسلم عوام کے سامنے پیش ہوا ۔ فرقہ پروری کے اس سیاسی ماحول میں پہلی بار یونیورسٹی میںمسلم لیگ بنی اورخاکسار کمیٹیاں قائم ہوئیں اوریہ روایت قائم ہوگئی کہ مسٹرجناح ( جواب قائد اعظم کے لقب سے پکارے جانے لگے تھے) ہرسال اپنے علی گڑھ کے خطبے میں مسلم سیاست اور پاکستانی تحریک کاجائزہ لیاکرتے تھے جب پاکستانی مطالبہ کے عمل کاوقت آیاتوڈاکٹرظفرالحسن نے علی گڑھ سے اس مجوزہ مملکت کی حد بندی کاخاکہ شائع کیاجس میں حیدرآباد، جوناگڈھ کشمیر وغیرہ کے علاوہ خودعلی گڑھ کے گردونواح کے علاقے بھی پاکستان میں شامل تھے ، عمومی طورپرکہاجاسکتاہے کہ ۳۶ء؁ سے لے کر ۴۷ء یعنی ہندوستان اورپاکستان کی جداگانہ حکومتوں کے بننے تک علی گڑھ کاحاوی رجحان پاکستانی تھااوریونیورسٹی میں قوم پرست ،شوسلسٹ یاکمیونسٹ عقائد کوئی فیصلہ کن حیثیت نہ رکھتے تھے۔ بہرنوع علی گڑھ کی زندگی کایہ وہ پہلو ہے جس پرپروفیسر حبیب اوردوسرے ساتھی بہترروشنی ڈال سکتے ہیں ۔ میری نظر اس لئے اوربھی محدود ہے کہ میں اس زمانے میں کانگریس سے عملی طورپروابستہ اورتحریک رابطۂ عوام کاحامی رہاہوں۔
(جاری)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment