Home خواتین واطفال بچوں کی فطری تربیت۔ محمد اللہ قیصر

بچوں کی فطری تربیت۔ محمد اللہ قیصر

by قندیل

گلی محلہ میں بچوں کی آپسی لڑائی ہوتی ہے پھر تھوڑی دیر بعد ان کے والدین ایک دوسرے پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں، جبکہ یہ سراسر حماقت اور جہالت ہے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ والدین کے علاوہ خدا کی عطاء کردہ فطرت بھی ان کی تربیت کرتی ہے اور بچوں کی آپسی رنجش، لڑائی جھگڑا، اٹھا پٹک بھی اس تربیت کا حصہ ہے۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بچوں کی اصل تربیت ماں باپ کرتے ہیں، حدیث پاک سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، فابواه يهودانه ويمجسانه، "بچے کے والدین انہیں یہودی اور مجوسی بنادیتے ہیں” لیکن یہ بھی طے شدہ ہے کہ فطرت بھی اس کی تربیت کرتی ہے، خالق نے ہر جاندار کی فطرت کچھ ایسی بنائی ہے جو اس کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ فکری ساخت میں بھی معاون ہوتی ہے، انسان کا ماحول سے متاثر ہونا بہت واضح ہے :
یہ سچ ہے کہ صحبت کا اثر پڑتا ہے ضرور
آدمی کیا چیز ہے درو دیوار بدل جاتے ہیں
بالخصوص انسانی طبیعت صحبت کا تقاضا کرتی ہے، پیدائش کے بعد بہت کچھ اسے سیکھنا پڑتا ہے، "وعلم الانسان ما لم يعلم” "انسان جو باتیں نہیں جانتا تھا وہ اللہ نے اسے سکھایا” ، نیز انسان زندگی کے بہت سارے طور طریقے دوسروں سے سیکھتا ہے، اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اس سے سبق حاصل کرتا ہے، حتی کہ چرند و پرند کی حرکات سے بھی زندگی کے سبق سیکھتا ہے،چناں چہ ہابیل اور قابیل کے واقعہ میں دیکھیے قابیل نے ہابیل کو قتل کرنے کے بعد کوے سے تدفین کا طریقہ سیکھا۔
فَبَـعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبۡحَثُ فِىۡ الۡاَرۡضِ لِيُرِيَهٗ كَيۡفَ يُوَارِىۡ سَوۡءَةَ اَخِيۡهِ‌ؕ
تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ (اللہ) اسے دکھادے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیدائش کے بعد انسان زندگی کے طور طریقے دوسروں سے ہی سیکھتا ہے۔
بچوں کی تربیت کا بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو وہ دوسرے بچوں سے سیکھتے ہیں، تنہائی پسند بچوں کی بہ نسبت دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے والے زندگی کے ہنر سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا جانور بھی اپنے بچوں کو لڑنے بھڑنے اور بچنے کیے ہنر سکھاتے ہیں، کبھی گردن دبوچ کر کبھی پنجہ مار کر، اور کبھی پیترے بدلنے کی تدبیریں سکھاکر، اسی طرح بچے جب آپس میں لڑتے ہیں تو وہ دشمنی کی وجہ سے نہیں، بلکہ فطرت اس کی تربیت کر رہی ہوتی ہے، کھبی کھلونے پر قبضہ کیلئے، کسی کی "ظاہری زیادتی” کے خلاف اور کبھی کسی اور بات پر، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان بن ہوتی ہے، حتی کہ بھائی بہن میں کھلونوں کی تقسیم میں نا انصافی نظر آتی ہے تو بھی بحث کرتے ہیں، روتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، یہ ان کی شرارت یا خباثت نہیں بلکہ نا انصافی سے لڑنے کا مزاج تشکیل پارہا ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کےلیے وہ ایک دوسرے سے بھڑ جاتے ہیں، اس لڑائی جھگڑے میں وہ دوسروں کے ساتھ تعامل کے طریقے سیکھتے ہیں، نیز اس اچھل کود اور دھکا مکی میں اس کی ورزش بھی ہوتی رہتی ہے، اعصاب کی مضبوطی کا مدار کلی طور جسمانی حرکت پر ہے، بچوں کی بھاگ دوڑ سے اس کا جسمانی و اعصابی نظام مضبوط ہوتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا عموما بچے دوڑ بھاگ کر ہی اپنا کام کرتے ہیں،کچھ بچے چلنا جانتے ہی نہیں دوڑنا ان کی فطرت ہوتی ہے، دراصل انہیں چاق و چوبند رکھنے کا یہ خدائی نظام ہے، جو بچے ہنستے بولتے کم ہیں، اچھل کود نہیں کرتے، ہر وقت گود میں پڑا رہنا چاہتے ہیں ایسے بچوں کو طبی مراجعت کی صلاح دی جاتی ہے، نیز انہیں بچوں کو کھیل کود میں دلچسپی پیدا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بچہ شریر ہے، بے ادب ہے، لیکن یہ شرارت دراصل ان کی فطرت ہوتی ہے، جو مستقبل کےلیے انہیں تیار کرتی ہے۔
لہذا اگر بچہ چین سے نہیں بیٹھتا نہ سکون سے کام کرنے دیتا ہے تو سمجھ لیجئے بچہ تیز ہے، اس کی تربیت پر توجہ دیجئے، لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو آپ والدین آپس میں نہ الجھیں، بلکہ ماہرین کی رائے کہ کہ جب تک بچے تشد پر نہ اتریں انہیں لڑنے دیں، کیوں کہ وہ دفاع کے طریقے سیکھ رہے ہوتے ہیں، کچھ بچے الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں، بسا اوقات آپ بوجھل محسوس کرتے ہیں، اور انہیں نئر انداز کردیتے ہیں، تو ایسا نہ کریں، آپ ان سوالات پر نہ تو مذاق اڑائیں اور نہ انہیں خاموش کرنے کی کوشش کریں، بلکہ ان کے قوت فہم کا خیال رکھتے ہوئے مناسب جواب دینے کی کوشش کریں، بچہ سوال کرتا ہے تو یہ ان کے ذہین ہونے کی علامت ہے۔
مشہور مصری ادیب طہ حسین کہتے ہیں، کہ دس سال کی عمر میں کوئی سوال کیا، جواب میں ڈانٹ پڑی تب سے جب بھی کوئی سوال ذہن پر ابھرتا تھا تو پوچھنے سے پہلے ڈانٹ کا خوف ذہن پر سوار ہوجاتا تھا، اور سوال نہ پوچھنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی تھی۔
بچے جب بات کریں، الٹی سیدھی بے جوڑ کہانیاں سنائیں، تو توجہ سے سنیں، تاکہ ان کے اندر یہ احساس یہ پیدا ہو کہ ان کی باتیں قابل توجہ ہیں۔

You may also like