’’خدا جانے میں نے کونسی ایسی خطا کی تھی کہ اس نے تم جیسی نالائق اولاد دے دی‘‘۔
’’میری ساری اولاد نالائق نکل گئی‘‘۔
’’مجھ سے دوبارہ اس طرح بات مت کرنا، ورنہ تمہاری زبان کھینچ لوں گا‘‘۔
’’جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔ جب تک میں تمہیں معاف نہ کر دوں، تم جہنم میں ہی رہوگے‘‘۔
یہ چند ایسے جملے ہیں جو اکثر ہمارے آس پاس بدسلوکی کے شکار اور نظرانداز کیے جانے والے بچے اپنے والدین یا بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسی زیادتی کو لوگ اسلامی حقوق کی آڑ میں چھپا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ زبانی بدسلوکی یا جسمانی زیادتی نا دانستہ طور پر سرزد ہو جاتی ہے اور ہمیں اس کے خطرناک اثرات کا علم تک نہیں ہوتا۔ یقینا یہ ایک قابل رحم رویہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے نتائج کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بعض لوگ توشخصیت پر اس کے نفسیاتی اور سائنسی اثرات کے بھی منکر ہوتے ہیں ۔
بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو نظرانداز کرنا، خاص طور پراس وقت جب اسے مذہب کے نام پر انجام دیا جارہا ہوبہت خطرناک ہے کیونکہ بسااوقات یہ دور رس اثرات کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس منفی رویے کا اثر بدسلوکی کے شکار شخص کی جوانی یہاں تک کہ پڑھاپے تک باقی رہ سکتا ہے جو زندگی بھر انسان کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔والدین یا بڑوں کی بات تو چھوڑئیے کئی مرتبہ یہ رویہ اسلام اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے نعوذ باللہ بیزاری کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے باوجود یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین یا خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی، بد تمیزی اور تشدد کو جائزبلکہ ان کی تربیت کے لیے مناسب عمل تصور کیا جاتاہے، حالانکہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا روگ ہے جو مستقل ہمارے گھر اور خاندان کو تباہ کر رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔
والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے بھی کئی مرتبہ اس قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے اور خاندان کی عزت کے نام پر ہم خاموش رہتے ہیں یا پھر بچے کو ہی عتاب کا شکار بنا دیتے ہیں۔اپنائیت کے نام پر بچوں کو جو جی آیا کہہ دیا جاتا ہے اور ہم اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ یقین جانیں اس طرح کے ظلم اور اذیت کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں اور اس کے اثرات ان کے ذہنی یا جسمانی صحت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ہماری سو سائٹی میں تو خیر یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن مغرب میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے طویل مدتی نتائج کی تحقیق کے لیے متعدد مطالعات کئے گئے ہیں،جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا سکتا ہے:
دماغی نشوونما میں خرابی، زبان میں بگاڑ اور تعلیمی معذوری کا باعث بننا، خراب جسمانی صحت جیسے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں کا شکار ہونا، نفسیاتی مرض، کمزور اعصاب اور سماجی مشکلات کا پیدا ہونا وغیرہ۔
اسی طرح طرز عمل سے جنسی بے راہ روی (خاص طور پر جنسی زیادتی کے معاملے میں)، منشیات، شراب نوشی اور دوسروں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بدسلوکی کے بعد ان بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے وہ بھی کمزور یا ٹوٹ جاتا ہے، کئی مرتبہ ہمیشہ کے لیے یہ رشتہ خراب ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کا اعتماد واپس حاصل کرنا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔
نئی تحقیقات کے بعد اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں بھی کہہ رہے کہ بچوں کو بات بات پر مارنے سے گریز کریں کیونکہ یہ رویہ ان میں ڈپریشن، بے چینی، رویے میں تبدیلی اور یہاں تک کہ کسی لت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو مارنا ان کے دماغ پر عین اسی طرح اثرڈالتا ہے جس طرح شدید نوعیت کا تشدد یا زیادتی اثرانداز ہوتی ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر’ کیٹی مک لافلن‘ اور ’جان لوئب ‘نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنا اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے، علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے لیکن اس میں 147 ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا جو اسکول یا گھر میں مار کے شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (پی ایف سی) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور جوانی تک اس کے اثرات برقرار رہتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔
اسلام میں والدین کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ والدین کی عزت و تکریم کانہ صرف حکم دیا گیاہے بلکہ انھیں اف تک نہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ تاہم احترام کے نام پر کسی بھی قسم کی زیادتی کی اجازت بھی نہیں دی گئی ہے۔جہاں قرآن میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا، اسی طرح انصاف اور عدل کو بھی قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے کسی کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ بولنا پڑے،(پڑھیے سورۃ النسا ء آیت نمبر 135)۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم (صحیح بخاری) -’’اللہ سے ڈرو،اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
فلا تشہدنی اذا فانی لا اشھد علی جور (صحیح بخاری و صحیح مسلم) – ’’تب مجھے گواہ مت بناؤ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘
یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بدسلوکی بچوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہر معاملے میں بدسلوکی نے ایسے رویے کے شکار فرد کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا اور کبھی کبھی مذہب اور عام طور پر زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو بھی نقصان پہنچاہے۔
یہاں پر ہم کچھ اپنے سماج سے مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں دیکھیں گے کہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا گیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا، احتیاط کی خاطر ہم نے ان کی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
میرے والد نشے کے عادی ہیں۔انھوں نے ماضی میں اپنے والدین کے رویے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکہ دیا،چوری کی اور ہر وہ غلط کام کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ پھر بھی اگر میں نے ان پر کبھی کوئی تبصرہ کیا تو لوگ مجھے صبر سے کام لینے کو کہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کچھ بھی ہے وہ تمہارا باپ ہے۔وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بڑی رقم دیں، خاص طور پر جب ہمیں اپنی یونیورسٹی سے وظیفہ ملتا ہے تو ان کی نگاہیں شعلے برسانے لگتی ہیں کہ وہ رقم انھیں کیوں نہیں دی گئی۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے میں نے اپنی والدہ کو اس رقم کے بارے میں بتایا جو میں نے انھیں دیا تھا تو گھر پر قیامت بر پا ہو گئی، غصے میں انھوں نے اماں کو طلاق دے دیا اور آج بھی میرے والد مجھ پر ان سے طلاق کا الزام لگاتے ہیں۔
جب مجھے ان کی لت کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے گمنام سپورٹ گروپس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اورانھیں لے کر ہر ہفتے ان کے ساتھ جانے لگا۔ یہ دورے مجھے کسی بھی منفی رویہ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے میرے لئے راحت بخش تھے کہ مجھے انھیں تبدیل کرنا تھا۔
وہ کھانا خریدنے یا اپنا اپارٹمنٹ صاف کرنے کی میری پیش کش سے انکاراب بھی کرتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے خوش نہیں ہیں اس لیے میں کبھی جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھوں گا۔
کئی مرتبہ مجھے نروس بریک ڈاؤن ہوا اور مجھے گھبراہٹ کے دورے پڑنے لگے۔ ایک مرتبہ تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرے والد نے جو کہا تھا وہ سچ تھا۔ میں نے اس وقت بہت برا محسوس کیا،یہاں تک کہ خود کشی کے بارے میں سوچا تاکہ میں اپنے آس پاس کے لوگوں پر بوجھ نہ بنوں۔ اب بھی صرف ایک ہی بار ان کی آواز سنتا ہوں جب انھیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا بیٹا ہوا اور ہسپتال میں آ کروہ ہم سے نہیں ملے۔ انہوں نے مہینوں بعد مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ اپنے پہلے پوتے سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں کچھ پیسے ادھار دوں۔ جب میں نے انکارکیا اور اپنی مجبوری بتائی تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں نہیں دینا چاہتے۔
کئی سال کے بعد، میں نے محسوس کیا کہ ایک مسلمان بیٹے کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اپنے والد کی زندگی میں میری مستقل جسمانی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اب جانتا ہوں کہ ان کے لیے میری دعا سب سے اہم ہے ۔یہ عمل جاری ہے اورمجھے امید ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے گا۔
ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ماں باپ سے اولاد کے تعلق کے بارے میں کچھ بولنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا اعلان ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل میں تمام بچپن اپنے باپ کی طرف سے میل رہتا ہے۔ اس کی ایک ہزار ایک وجہیں ہو سکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے کسی کو مسلسل دیکھوں گا، اولادوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے دیکھوں گا تو میرا دل اس شخص کے لیے آئینہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بھلے ہی رشتے میں وہ میرا باپ ہو اور اس کا میرے ساتھ رویہ برا ہو۔ کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر دیگچی اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟۔
ہم سب کے حافظہ میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے اس وقت ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے، اس کے بعد اگر ہم ایک مخصوص دن ابا جان پر جاں نثار ہونے کا مظاہرہ کریں تو اس حرکت کو کیا کہا جائے گا؟ منافقت؟۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے لیکن تعجب ہیکہ یہی واعظین اس پہلو سے گفتگو تقریبا نا کے برابر کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حقوق و فضائل باپ کے ہیں، ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ باپ ہونے کے ناطے اولاد کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنے کو شائد ہم فضول جانتے ہیں۔
اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو ہم آئے دن اپنے آس پاس دیکھتے ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار محض بچے یا اولاد ہیں یامساوی طور پر وہ والدین ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو مستقل اذیت دے کر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور پر اپنی اولاد کی نظروں میں وِلن اور مکروہ صفت انسان تو نہیں بن رہے ہیں۔ اس بابت جمعہ کے خطبے اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم والدین کے حقوق کے بارے میں تو ہر جگہ سنتے ہیں لیکن بچوں کے حقوق اور عزت نفس کے تئیں عموما ہمارے سماج میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے ہمیں اس رویے کو نہ صرف ختم کرنا ہوگا بلکہ جہاں کہیں بھی اس قسم کا رویہ دیکھیں ایسے والدین اور سرپرستوں کی ہمت شکنی کرنی ہوگی۔
اسلام نے بہتر معاشرے کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب سب کے حقوق کا تحفّظ ہو۔یہ بات ہمیں بچپن سے ہی بتائی جاتی ہے کہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے ۔بدقسمتی سے بڑوں کے ادب کا خیال تو رہتا ہے مگر بچے پیار سے محروم رہ جاتے ہیں ۔