حضرت عبداللہ بن جعفر نے نکاح کے وقت اپنی لڑکی کو نصیحت کی- انھوں نے کہا کہ اے میری بیٹی، تم غیرت اور نخوت سے بچو کیونکہ وه طلاق کا دروازه کهولنے والی چیز ہے اور تم غصہ اور ناراضگی سے بچو، کیونکہ اس سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ بہترین نصیحت ہے جو ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی کے وقت کر سکتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی ایک غیر شخص کے گھر جاتی ہے، اس سے پہلے وه خونی رشتہ داروں کے درمیان ره رہی تھی۔ اب وه ایسے لوگوں کے درمیان جاتی ہے جن سے اس کا خون کا رشتہ نہیں، خونی رشتے دار (باپ، ماں، بھائی، بہن ) لڑکی کی ہر بات کو برداشت کرتے ہیں۔ وه اپنے میکے میں نخوت دکھا کر بھی بے قدر نہیں ہوتی، وه غصہ دکھائے تب بھی لوگ اس سے بیزار نہیں ہوتے، مگر سسرال کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔
سسرال میں لوگوں کے دلوں میں اس کےلیے وه پیدائشی نرمی نہیں ہوتی جو میکے کے لوگوں میں ہوتی ہے- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سسرال میں اس کا ہر عمل ایک ردعمل پیدا کرتا ہے، میکے میں لوگ اس کی نخوت کو نظر انداز کر دیتے تھے، مگر سسرال میں اس کی نخوت کو لوگ اپنی یادوں میں رکھ لیتے ہیں،میکے میں لوگ اس کے غصہ کو بھلا دیتے تھے، مگر سسرال میں کوئی شخص اس کے غصے کو بھلانے کے لئے تیار نہیں هوتا۔
ایسی حالت میں سسرال میں نباه کی واحد شرط یہ ہے کہ لڑکی اپنے مزاج کو نئے ماحول کے مطابق بنا کر رہے۔ وه ایسے عمل سے بچے جو ناموافق ردعمل پیدا کرنے والا ہو۔ کوئی بات اپنی پسند کے خلاف ہو تو اس کو گواره کرے، کسی بات سے اس کے دل کو رنج پہنچے تو اس کو دل ہی دل میں ختم کر دے، کسی سے امید کے خلاف سلوک کا تجربہ ہو تو اس کی اچھی توجیہ کر کے اس کو دماغ سے نکال دے، ایک لڑکی کے لئے سسرال میں کامیاب زندگی بنانے کی یہی واحد تدبیر ہے، اس کے سوا سسرال کے مسئلے کا کوئی حل نہیں-
آج کے ماں باپ اپنی بیٹی کو یہ سبق دیتے ہیں کہ سسرال میں اکڑ کر رہنا ورنہ لوگ تم کو دبا لیں گے۔ اس کے برعکس پہلے زمانے کے والدین اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ سسرال میں دب کر رہنا ورنہ لوگ تم سے اکڑیں گے، انھیں دو فقروں میں ماضی اور حال کے فرق کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے-