Home خواتین واطفال مشترکہ خاندانی نظام :مشکلات اور حل-مفتی امداد الحق بختیار

مشترکہ خاندانی نظام :مشکلات اور حل-مفتی امداد الحق بختیار

by قندیل
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد، انڈیا
 9032528208, [email protected]
ہندوستان ایک قدیم ترین ملک ہے، یہاں کی کچھ اپنی تہذیب، اپنی روایات ہیں، اسلام نے جب سے یہاں اپنے برگ وبار پھیلائے، اسلام کی رعنائیوں اور اس کی ظاہری وباطنی خوبیوں سے متأثر ہو کر لوگ جوق در جوق حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے اور ہندوستان کے ایک بڑے حصے پر مذہب اسلام کا پرچم لہرانے لگا، مسجدوں، خانقاہوں اور مدرسوں میں اسلام کا پاکیزہ اور شیریں زمزمہ بلند ہونے لگا۔
لیکن ہندوستانی تہذیب وروایات اور طریقۂ رہن سہن جو ہندوستانیوں کی طبیعت اور فطرت میں قدیم زمانے سے سرایت کیے ہوئے تھااور ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکا تھا، اسلام کا طویل سفر بھی ہندوستانی مسلم معاشرہ کو اس سے نجات نہ دلا سکا، ایسی بہت ساری رسم ورواج اور تہذیب وروایات ہیں جو اسلامیان ہند کو بری طرح جکڑے ہوئے ہیں، انہی میں سے ایک ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ (Joint Family System) کی قدیم روایت ہے۔
یہ روایت پورے بر صغیر میں عام ہے، شادی کے بعد ایک باپ کی تمام اولاد کا زندگی کے کئی اہم شعبوں جیسے رہن سہن، کھانا پینا اور کاروبار وغیرہ میں ایک ساتھ رہناعزت واحترام کی علامت سمجھا جاتا ہے ، اس شرکت میں نہ ذمہ داریاں تقسیم ہوتی ہیں، نہ حیثیت کا تعین اور نہ کوئی دیگر تفصیل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بعد میں سخت اختلافات کھڑے ہوجاتے ہیں اور جس گھرانے اور جس خاندان میں یہ رسم چلتی ہے، اسے معاشرے میں معزز گھرانہ اور خاندان سمجھا جاتا ہے، شادی کے فوراً بعد اگر کسی کے گھر میں بیٹے کا چولہا الگ ہوجائے، تو والدین اس میں اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں اور معاشرے میں بھی اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ، لیکن یہ مشرقی روایت ہے، اسے اسلامی تہذیب نہیں کہا جاسکتا ۔
مثبت پہلو
اجتماعیت میں بظاہر بہت سے فوائد نظر آتے ہیں:  جیسے ایک ساتھ رہنے کو معاشرہ محبت کی علامت سمجھتا ہے، جس کے کچھ معاشرتی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، نیز الگ الگ رہنے کی بہ نسبت بہت کم خرچ میں اتنا بڑا گھر چلتا ہے اور اگر وقتی طور پر گھر کا کوئی ایک فرد کاروبار سے مربوط نہ بھی ہو، تب بھی اس کا اور اس کی بیوی اور بچوں کا گذارا آسانی سے ہوتا رہتا ہے، مزید یہ کہ مال وجان کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عزت وآبروی بھی محفوظ رہتی ہے، وہ کہیں بھی دو چار روز بلکہ مہینوں کا سفر بغیر کسی تشویش کے کرسکتا ہے، جب کہ الگ ا لگ رہنے کی صورت میں موجودہ دور میں پڑوسیوںسے ہر وقت خطرہ بنا رہتا ہے، اسی طرح مشترکہ خاندانی نظام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر والدین معاش سے جڑے ہوئے نہ ہوں اور چھوٹے بھائی،بہن ہوں، تو اس نظام کے تحت ان کی کفالت بآسانی ہوجاتی ہے۔
منفی پہلو
یہ تو مشترکہ خاندانی نظام کا مثبت پہلو ہے اور اس کے بعض فوائد کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اجتماعیت میں ان فوائد کے ساتھ ساتھ ایسے بھیانک دینی اور دنیوی نقصانات ہیں، جن کے سامنے ان فوائد کی کوئی حیثیت اور ان کا کوئی وزن باقی نہیں رہ جاتا۔
والدین کے حقوق کا ضیاع
ہندوستانی معاشرہ میں اکثر والدین مشترکہ خاندانی نظام کے نہ صرف قائل؛ بلکہ سختی کے ساتھ اس قدیم روایت پر کار بند رہتے ہیں،تاہم بعض ایسے بھی والدین ہیں ، جو بعض مجبوریوں اور نا گزیر وجوہات کی وجہ سے کسی خاص اولاد یا سب کے تعلق سے اس نظام کو پسند نہیں کرتے؛ لیکن معاشرہ کے ڈر اور دباؤ کی وجہ سے کوئی ٹھوس اور مؤثر عملی اقدام کرنے سے عاجز رہتے ہیں، اُدھر بعض اولاد بھی اپنی نااہلی، احساس ذمہ داری نہ ہونے اور اپنے بیوی بچوں کا بوجھ نہ اٹھانے کی وجہ سے زبردستی مشترکہ نظام میں رہنا چاہتے ہیں،جس کی وجہ سے والدین سخت ذہنی دباؤ اور قلبی تکلیف میں ہر وقت مبتلا رہتے ہیں، نیز ایک ساتھ رہنے کی صورت میں خود اولاد سے اور بہت سے موقعوں پر ان کی بیویوں سے والدین کے حق میں بڑی بڑی کوتاہیاں سر زد ہوجاتی ہیں، ایسی اولاد کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ والدین کو تکلیف پہنچا کر، نہ صرف اپنا دین برباد کررہے ہیں، بلکہ دنیا بھی ویران کررہے ہیں، انہیں بر وقت اپنی اس غلطی پر متنبہ ہونا چاہیے اور والدین سے معافی مانگنی چاہیے۔
بیوی کے حقوق کی پامالی
مخلوط خاندانی نظام میں عورت کی شخصی آزادی، نجی زندگی سے متعلق امور، آرزوئیں اور تمنائیں سب دفن ہو کر رہ جاتی ہیں، شریعت میں ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے جو حقوق اسے دیے گئے ہیں، اس کا دس فیصد بھی اسے نہیں ملتا، بلکہ بہت سے علاقے اور گھرانے ایسے ہیں جہاں اسے ایک خادمہ سے زیادہ حیثیت نہیں دی جاتی، گھر کے بڑے سے لے کر چھوٹے افراد تک اس پر اپنا حکم صادر کرنے سے نہیں چوکتے اور اس سے خدمت لینے کو اپنا واجبی حق سمجھتے ہیں، ہمارے معاشرے میں بہو گھر کی ایک بے حیثیت فرد ہوتی ہے، جس کی اپنی کوئی مرضی، کوئی پسند اور کوئی رائے نہیں ہوتی، دوسروں کی پسند، دوسروں کی خوشی اور ان کی رائے اس پر زبردستی تھوپی جاتی ہے ۔
اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے ظالم اور جاہل شوہربیوی کے حقوق سے نا بلد ہوتے، وہ بیوی کا اپنے اوپر سوائے دو وقت کے کھانے کے کوئی حق نہیں سمجھتے، ہر وقت اپنے غیض وغضب اور زہر میں ڈوبے ہوئے الفاظ سے اس کی دل شکنی کرتے ہیں اور اگر وہ ’’اف ‘‘ بھی کرے، تو اس مظلومہ کو تختۂ مشق بنادیا جاتا ہے،یہ انتہائی جاہل اور بد ترین قسم کے لوگ ہوتے ہیں، وہ بیوی کو اپنے ماں باپ، بھائی،بھابھی اور بہنوں کے حوالے چھوڑ دیتے ہیں، وہ جیسا چاہیں اس کے ساتھ سلوک کرتے رہیں، نہ اس کی خواہشات اور تمناؤوں کا لحاظ کیا جاتا ہے، نہ مناسب نان ونفقہ اور ماہانہ خرچ کی طرف توجہ کی جاتی ہے، ایسے لوگ اسلام کو زندہ کرنے والے نہیں، بلکہ بدنام کرنے والے ہیں، اس کے پاسباں نہیں بلکہ راہزن ہیں، ان کے حق میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے سخت وعیدیں بیان کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس نظام میں والدین کے حقوق کے ساتھ بیوی کے حقوق کی بھی پامالی لازم آتی ہے۔
بھائیوں کے حقوق کا ضیاع
اجتماعیت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی آڑ میں بعض افراد خانہ، کاہل، سست اور کام چور ہوجاتے ہیں، ایک دو فرد کماتے ہیں اور وہ اپنی پوری پونجی گھر کے خرچ میں دیتے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے بعض اوقات خود ان کو اور ان کے بیوی بچوں کو پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے؛ اگر چہ وہ اپنی ذاتی شرافت کی وجہ سے کچھ کہتے نہیں؛ لیکن دل میں نا گواری ضرور محسوس کرتے ہیں، اور حدیث شریف میں ہے:  لا یحل مال امرئٍ مسلم إلا بطیب نفسہ۔
اکثر ایسے گھروں میں بڑی اولاد کے بچوں کی مکمل پرورش، پوتے،پوتیوں کی محبت کے جذبے سے دادا، دادی ہی کرتے ہیں، جس سے ان کی کاہلی اور سستی میں مزید اضافہ ہوتا ہے، نیز چھوٹا بھائی سخت محنت ومشقت سے کمانے کے باوجود بڑوں کے احسان تلے دبا رہتا ہے اور اس کا دل اسے محسوس بھی کرتا ہے، مگر معاشرہ کی وجہ سے وہ زبان نہیں کھول پاتا، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ والد کے ساتھ جو بھائی کاروبار میں شریک ہوتا ہے، والد کی وفات کے بعد وہی کاروبار کا مالک سمجھا جاتا ہے، دوسرے بھائیوں کو کچھ دیا بھی جاتا ہے تو بہت کم، نیز بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے، جو بھائی کاروبار میں اہم حیثیت رکھتا ہے، وہ اختلافات کے وقت دیگر بھائیوں کو خالی ہاتھ روڈ پر کھڑا کردیتا ہے۔
چیزیں مشترک رہنا
اسی طرح بعض اوقات چیزیں مشترک رہنے اور معاملات واضح نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے، جیسے ہندوستانی معاشرہ میں اس کو بھی اتحاد واتفاق اور محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ والد کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم نہ کی جائے، سالہا سال تک زمین وجائداد مشترک رہتی ہے، بسا اوقات نہ ان سے حاصل ہونے والی پیداوار اور آمدنی کا حساب وکتاب نہیں ہوتا، بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا، بھائیوں میں بھی حق تلفی ہوتی رہتی ہے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اخیر میں ایک بڑے اختلاف اور باہمی نزاع کے بعد اتحاد واتفاق کا یہ بھرم چکنا چور ہوجاتا ہے۔
باہمی نزاع
اہل بصیرت حضرات نے پُر امن اور پُر سکون زندگی کے لیے یہ ضابطہ بتایا ہے:  ’’تعاشروا کالإخوان و تعاملوا کالأجانب‘‘(یعنی آپس میں بھائیوں کی طرح رہو اور معاملات اجنبیوں کی طرح کرو)  لیکن آج کل ان دونوں جملوں کے اول جزومیں قلب واقع ہوگیا ہے اور ’’تعاملوا  کالإخوان وتعاشروا  کالأجانب‘‘ (معاملات بھائیوں کی طرح کرو اور آپس میں اجنبیوں کی طرح رہو)کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، چناں چہ اجتماعیت میں ایک دوسرے کی حق تلفی اور معاملات کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے دلوں میں جو کدورت اور بد گمانی پکتی رہتی ہے، بعض اوقات وہ زبان سے بھی ظاہر ہوجاتی ہے اور باہمی اختلافات اور آپسی جھگڑے کا باعث بنتی ہے، جس سے دین بالکل ضائع ہو کر رہ جاتا ہے، حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے:  وفساد ذات البین ہي الحالقۃ یعنی آپس کے جھگڑے، آپس کی نفرتیں اور نا چاقیاں یہ مونڈنے والی چیزیں ہیں، ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے: آپ ﷺ نے فرمایا:  میں یہ نہیں کہتا کہ آپس کے یہ جھگڑے تمہارے بالوں کو مونڈنے والے ہیں؛ بلکہ یہ جھگڑے تمہارے دین کو مونڈنے والے ہیں۔ لہذا اس ناگوار صورت حال سے بچنے کی ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ظلمِ بے جا
مشترکہ خاندانی نظام کی بہت سی خرابیوں میں سے بعض گھروں میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ گھر کی بڑی یا لاڈلی بہو گھریلو کام کاج میں انتہائی سست ہوتی ہے، جب کہ دوسری بہو پورے گھر کا کام اکیلی کرتی ہے،سب کا کھانا پکاتی ہے ، سب کے کپڑے دھوتی ہے، تمام برتن مانجتی ہے اور پورے گھر کی صفائی کرتی ہے ،مجال نہیں کہ وہ اپنے کسی ذاتی کام میں لگ جائے،غرض دن بھر اسی میں لگی رہتی ہے، اس کے باوجود اسے طعنے سننے پڑتے ہیں، اور لاڈلی بہو کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ بسا اوقات ساس، سسر کی تائید اسے حاصل رہتی ہے، اس کی وجہ سے اس مظلومہ بہو کے دل میں شدید نفرت اور بغض وعداوت کی بھٹی سلگتی رہتی ہے، جس سے اس کی زندگی اجیرن بن کے رہ جاتی ہے۔ اس ظلم کے ذمہ دار وہ والدین بھی ہیں جو اس طرح کے نظام کو لازمی طور پر نافذ رکھنے پر مصر رہتے ہیں، لہٰذا انہیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہیے اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
بے پردگی
اس نظام کا ایک انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں کئی خاندان اور ان کے بچے ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں، جس سے لازمی طور پر بے پردگی ہوتی ہے، محرم وغیرمحرم کا اختلاط ہوتا ہے اور اس سے بے شمار برائیاں وجود پذیر ہوتی ہیں اور تعجب یہ ہے کہ عوام کا تو ذکر نہیں کہ وہ بے چارے نہ شرعی احکام جانتے ہیں اورنہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن بہت سے خواص بھی ایسے ہیں جو اسے محسوس نہیں کرتے، یا جانتے ہوئے اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ایسے نظام میں بھابھیوں اور دیوروں کے درمیان بے پردگی عام رہتی ہے، جس کے بہت سے غلط نتائج بھی سامنے آتے ہیں، ورنہ کم از کم وہ ہر وقت بے پردگی کے گناہ میں تو مبتلا رہتے ہی ہیں، جس کی نحوست اور وبال سے انسان دنیا اور آخرت دونوں میں دوچار ہوگا۔
گھر کے ذمہ داروں میں سے اگر کسی ایک نے بھی اپنے اہل وعیال کی طرف سے بے توجہی برتی، جس کی وجہ سے ان کے بچوں کچھ بے راہ روی آئی، تو اس کے برے اثرات سے گھر کے تمام ہی افراد اور سارے بچے متأثر ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اس نظام میں بچوں کی صحیح پرورش ایک چیلنج بن جاتی ہے۔
نیز جب یہ بچے اور بچیاں بڑے ہو کر بلوغ کی عمر کو پہنچتے ہیں، تو بعض اوقات عفت وعصمت کے تحفظ کا بھی سوال کھڑا ہوجاتا ہے؛ بالخصوص موجودہ ہوس ناکی، بے حیائی اور فحاشی وعیاشی کے دور میں یہ خطرہ مزید سنگینی اختیار کر لیتا ہے، ایک گھر میں رہنے والے بچے اور بچیوں میں چوں کہ ہر وقت ساتھ اٹھنا،بیٹھنا رہتا ہے ، کوئی ان کے اخلاق اور آپسی میل ملاپ پر شک بھی نہیں کرتا ، شیطان ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کو غلط کاری کے زیادہ مواقع فراہم کراتا ہے۔اور اس کے بے شمار واقعات روز مرہ سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں۔
ردِ عمل
مشترکہ خاندانی نظام کے ان منفی پہلوؤں سے تنگ آکر بہت سے نوجوان انتہائی سخت فیصلہ لے لیتے ہیں، باغیانہ طرز اختیار کر بیٹھتے ہیں، خاندان اور والدین سے ایسے دور ہوجاتے ہیں کہ پھر بہت کم پلٹ کر انہیں دیکھتے ہیں، آپس میں ایک گہری خلیج پیدا ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے پورا خاندانی نظام توڑ پھوڑ اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف سخت نفرت بیٹھ جاتی ہے اور وہ بالکل مغربی خاندانی نظام کے طرز پر چلنے لگتے ہیں، جس میں نہ والدین کا کوئی حق ہے، نہ اولاد کا، نہ رشتوں کا کوئی تقدس ہے اور نہ خاندان کا کوئی احترام۔یعنی ایک غلطی سے دوسری بھیانک غلطی وجود میں آتی ہے، لہذا ہمیں موجودہ خاندانی نظام پر غور کرنا چاہیے، ہمارے اور معاشرے کے خود ساختہ معیار پر زبردستی قائم رہ کر، اپنے گھر کو برباد اور اپنے دین کو خراب نہیں کرنا چاہیے ، اسلام نے گھر کے ہر فرد کے جو حقوق طے کیے ہیں، ہمیں ان کا لحاظ کرنا چاہیے، جس سے ہمارا گھرانہ راحت وسکون اور خوشی ومسرت کا گہوارہ بن جائے گا؛ جہاں ہر ایک کا احترام ہوگا، ہر ایک کو آزادی ہوگی، ہر ایک کھُلا پن محسوس کر ے گا،ان شاء اللہ آئندہ سطور میں اسلامی نقطہ نظر سے گھر کے ہر فرد کے حقوق تحریر کیے جائیں گے۔

You may also like