خواتین کے خلاف زیادتی ایک ایسا موضوع ہے جس کے تئیں ہر کوئی خود کو حساس اور پریشان ثابت کرنے کی کوشش تو ضرور کرتا ہے لیکن ان کے تحفظ کے لئے عملی سطح پہ کوشش کرنے کے لئے اس طرح مستعد نہیں ہوتا جیسے کہ ہونا چاہئے یہی وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح گذرتے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے آج سے دس سال پہلے 16 نومبر 2012 کو نربھیا جو کہ پیرا میڈیکل کی طالبہ تھی جب وہ درندوں کے ہتھے چڑھی تو پورے ملک میں جس طرح کا ردعمل سامنے آیا تھا یوں لگتا تھا کہ اب اس طرح کے واقعات کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی عوام اور انتظامیہ دم لیں گے لیکن ہر کوئی شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا اس کے بعد کھٹوعہ اور ہاتھرس جیسے بےشمار دل دہلا دینے والے حادثات رونما ہوئے جس کی چیخیں ہر باضمیر انسان نے سنی لیکن افسوس کہ پھر بھی یہ واقعہء آخر نہیں ثابت ہوا بلکہ اس کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔
خواتین کے خلاف کئے جانے والے مظالم و جرائم کا جائزہ لینے کا بعد نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2021 کے درمیان خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں 15 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر 428278 معاملے درج کیے گئے، جو 2020 میں 371503 تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ہم گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے این سی آر بی اعداد و شمار کو دیکھیں تو 2020 کے لاک ڈاؤن سال کو چھوڑ کر ہر سال خواتین کے خلاف مظالم کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح یا فی 1 لاکھ آبادی پر واقعات کی تعداد بھی اسی طرح کے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح 2020 میں 56.5 فیصد سے بڑھ کر 2021 میں 64.5 فیصد ہو گئی۔
جہاں تک مختلف ریاستوں میں خواتین کے خلاف جرائم کی بات ہے، تو این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش نے 2021 میں سب سے زیادہ 56083 معاملے درج کیے، وہیں آسام میں سب سے زیادہ جرائم کی شرح 168.3 دیکھی گئی۔
ان سارے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے عوام سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے سنگین جرائم انسانی معاشرے میں اس قدر تیزی کے ساتھ پنپ رہے ہیں اس کے جواب میں 65 فیصد رائے دہندگان نے حکومت ہند کو مورد الزام ٹھہرایا بےشک یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی ملک کا لا اینڈ آرڈر اس ملک کے نظم و نسق کو چلانے اور امن و امان کو قائم رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن ہم میں سے کوئی اس پہلو سے قطعی انکار نہیں کر سکتا کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ہر فرد کا ایک کردار ہوتا ہے، افراد کی تربیت سازی اور ان کے اندر تعمیری و تخلیقی عناصر کی نشوونما کی ذمے داری اہل خانہ پہ عائد ہوتی ہے اور اس کے بعد تعلیمی ادارے اس میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بشمول خواتین اپنے گھر کے سبھی افراد کی خواتین کے تئیں برتے جانے والے رویے کی نوے سے سو فیصد ذمےداری لے سکتے ہیں کہ وہ خواتین کے ساتھ قطعی کوئی زیادتی نہیں کر سکتے میں یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس بات کی یقینی ضمانت نہیں دے سکتے ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک محدود دائرے میں لوگوں کو اپنی مثبت فکر سے متاثر نہیں کر سکتے ان کے اندر غلط اور صحیح کی تمیز نہیں پیدا کر سکتے تو ہم کیسے 130 کروڑ آبادی کی ذمےداری کے تئیں غفلت کا ٹھیکرا حکومت کے سر پھوڑ سکتے ہیں مختلف عناصر کے ساتھ تشکیل پانے والے معاشرے کے تعمیری ارتقاء کے ضروری ہے کہ ہر عنصر اپنی ذمے داری بحسن خوبی نبھائے، بےشک حکومت کے اوپر یہ ذمےداری فرض عین کی طرح واجب ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے جان و مال اور عزت آبرو کے تحفظ کو یقینی بنائے اور مجرمین کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے پس و پیش نہ کرے جس کا کہ ہم سب مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس مطالبے کے ساتھ ہمی اپنی ذمےداریوں سے غافل نہیں ہو سکتے کیوں کہ ایک سچ ہے کہ ایک صحتمند اور مستحکم معاشرہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ لا اینڈ آرڈر کے ساتھ ملک میں اعلی تعلیمی نظام کو فروغ دے، ملک کی سالمیت اور عوام کو تحفظ کو ہر حال میں اپنے سیاسی مفاد پہ فوقیت دے اس کی یہ غفلت انسانی معاشرے کو جنگل راج میں تبدیل کر سکتا ہے جو کہ عوام کسی بھی طرح قبول نہیں کر سکتے ہمیں چاہئے کہ ہم بغاوت کر کے ماحول کو بدتر بنانے کے بجائے حکمت کی راہ اپنا کر حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
اس وقت میں ان چند عناصر کو زیر قلم لانے کی کوشش کررہی ہوں جو خواتین کے خلاف جرائم کو بڑھاوا دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جس کا تعلق عام عوامی زندگیوں سے ہے جو لوگ زیادتی کرتے ہیں وہ ہمارے ہی انسانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ان کی شخصیت کا تربیتی خلا کی ذمےداری بھی اسی معاشرے پہ عائد ہوتی ہے، ہمارے یہاں بچوں کی مثبت تعمیری تربیت کے حوالے سے کوئی خاص بیداری نہیں پائی جاتی بچے کے افکار و خیال کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی مائیں اپنے معمولات کو سرانجام دینے کے لئے چاہتی ہیں کہ بچے بس کسی بھی طرح چپ رہیں انھیں تنگ نہ کریں اس کے لئے وہ انھیں موبائل فون، ٹیلی ویژن کے سامنے گھنٹوں بٹھانے پہ کوئی تامل محسوس نہیں کرتیں اسکرین کی دنیا جس کی وسعت زمین و آسمان کی وسعت کے جیسی ہے جو ساحری دنیا کی طرح پرکشش ہوتی ہے بچے کے ذہن کو اس طرح ایٹریکٹ کر لیتی ہے کہ وہ اس کی اولین ضرورت بن جاتی ہے۔ (یہاں ماؤں کو میں اس لئے مخاطب کررہی ہوں کیوں کہ انھیں عورتوں کے دکھ کو بآسانی سمجھ سکتی ہیں اور ایک بچے کی شخصیت سازی میں ان کا سب سے مؤثر کردار ہوتا ہے باپ ایک درجہ کم سہی لیکن وہ بھی اس میں اہم کردار کرتاہے) پھر جب بچے تھوڑا بڑے ہو جاتے ہیں تو مائیں چاہتی ہیں کہ اب بچے فون وغیرہ چھوڑ کر ان کے کہنے پہ کتابوں کی دنیا میں کھو جائیں وہ وہی کچھ کریں جو ہم ان سے کہیں کیا ایسی سوچ رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف نہیں۔ بچے بھی بچے ہوتے ہیں انھیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے والدین کو کیسے زیر کرنا ہے اور والدین ایموشنل ہتھکنڈوں سے شکست کھا کے انھیں ان کے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں ایسے میں بچے سوشل میڈیا اور غلط دوستوں کی صحبت میں رہ کر اپنے منتشر جذبات کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک جانے میں عار نہیں محسوس کرتے۔ ماں باپ اگر چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معاشرے کے مفسد اور منفی عناصر سے محفوظ رہیں تو پہلے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دوسروں کے بچے آپ کے بچوں کے شر سے محفوظ رہیں اور یہ کام تربیت سازی کے بغیر ممکن نہیں ہمیں دنیا کے ساتھ آخرت کی زندگی کی حقیقت سے بچوں کو متعارف کروانا ہوگا کیوں کہ آپ ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں ہو سکتے لیکن اللہ کا تصور ہمیشہ اس کے ساتھ ہو سکتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا یہاں خدا کا تصور بہت غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے یوں لگتا ہے کہ نعوذباللہ خدا محض قہار و جبار ہی ہے جو ہر وقت اپنے بندوں پہ نظریں جمائے ان کو سزا دینے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ نوخیز اذہان اس سے متنفر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا کا تصور اور اس کا خیال آپ کے بچوں کے اندر ہو تو آپ کو چاہئے کہ آپ ان کو خدا کی محبت اس کی رحمت و شفقت اور عفو درگذر کی صفات سے بھی متعارف کروائیں یہ جرائم کو روکنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خواتین کے ساتھ جرائم کی روک تھام کے ضمن میں میں تربیت سازی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں کیوں کہ یہ عادتیں جو ہم بچوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی عادتیں بعد میں انھیں سنبھالتی ہیں اور ان کے اعمال و اقدام کا محرک بنتی ہیں اس پہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہی معاشرہ یہاں تک کہ خاندانی نظام بھی متاثر ہو رہے ہیں ہم منافق لوگ ہیں ہمارے گھر کے افراد اگر دوسروں کے ساتھ زیادتی کریں تو ہم اسے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن اگر ہمارے ساتھ زیادتی ہو تو مجرم کو تختہء دار تک پہنچانے کے لئے بضد ہوتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جس نے ہمارے اپنوں کے ساتھ زیادتی کی ہے ان کا بھی ہماری طرح ایک خاندان ہے۔ اس رویے کو فروغ دینے کی وجہ بھی یہ معاشرہ ہے اگر کوئی خاندان ہمت کر کے اپنے اپنوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو زمانہ اسے لعن طعن کر کے زندہ درگور کرنے کی کوشش کرتا ہے اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے اس سے نئے تعلق بنانے سے گریز کرتا ہے اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے جرائم کے ذمے دار کیا ہم نہیں کیا ہم منافق نہیں بےشک اس معاشرے میں انسانیت اب بھی زندہ ہے کچھ خاندان ایسے ہوں گے جو اس طرح کی منافقت سے پاک ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔
خواتین کے ساتھ جرائم کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس میں ہمارے ہی انسانی معاشرے کے لوگ فحش مواد ڈال کر ان بیمار ذہنیت لوگوں کو غذا اور شہہ فراہم کرتے ہیں جب ان کی سوچیں مسلسل ایسی ہی سوچوں کے گرد گھومیں گی تو بےشک اس بھوک کی تسکین کے لئے چند سال یا چند مہینے کے بچوں کو نشانہ بنانے سے کیوں چوکیں گے جیسے شرابی کو شراب چاہئے اس کے لئے پیسہ نہ دینے والی ماں بھی کسی ڈائن سے کم نہیں ہوتی کیوں کہ اس کے لئے اس وقت سب سے اہم اس کا نشہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اور کم عمر بچیوں کے ساتھ زیادتی نہ ہو تو ہمیں اس پلیٹ فارم کو مثبت آگاہی کے لئے استعمال کرنا ہوگا بےشک مفسد عناصر اپنے کام سے بآسانی پیچھے نہیں ہٹنے والے لیکن ان کی تعداد امن پسند عوام سے کم ہی ہوگی تو ہم اکثریتی امن پسند لوگ کیوں کر ان کے آگے ہتھیار ڈالیں انسان اور انسانیت کو تحفظ فراہم کرنا ہم سب کی یکساں ذمےداری ہے جسے ہمیں قبول کرنا ہوگا۔ یہ موضوع ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس کو ایک مختصر کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔
انسانی معاشرے میں خواتین کا تحفظ: ایک سنگین مسئلہ – علیزے نجف
previous post