Home اسلامیات سماج کو پاکیزہ بنانا ہے تو نکاح کو آسان کرنا ہوگا ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

سماج کو پاکیزہ بنانا ہے تو نکاح کو آسان کرنا ہوگا ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

آج (17 اکتوبر 2021) مرکز جماعت اسلامی کی مسجد اشاعت اسلام میں بعد نماز عشا مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی کے سابق کارکن جناب عبد الرقیب کی لڑکی کا نکاح ان کے خاندان کے ہی ایک لڑکے سے ہواـ انھوں نے خواہش کی کہ میں نکاح پڑھا دوں ـ میں نے ان کی خواہش کی تعمیل ضروری سمجھی ـ خطبۂ نکاح کے بعد میں نے مختصر تذکیر کی ـ اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

نئی نسل کی دین سے دوری اور اخلاقی بے راہ روی سے ہم سب پریشان ہیں ـ ہم سماج کو پاکیزہ رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں ـ ہماری یہ خواہش قابلِ قدر ہے ، لیکن اگر ہم اصلاحِ احوال کی مناسب تدابیر اختیار نہیں کریں گے تو ہماری ہزار کوششوں کے باوجود سماج کی پاکیزگی قائم نہیں رہ سکتی ـ

گزشتہ دنوں ایسے واقعات خاصی تعداد میں پیش آئے ہیں کہ مسلم لڑکیوں نے ماں باپ سے چھپا کر یا ان کی مرضی کے خلاف غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرلی ـ اس کے اسباب میں جہاں دینی و اخلاقی تربیت کی کمی ، تعلیم گاہوں میں آزادانہ مخلوط ماحول اور اسلام دشمنوں کی سازشیں ہیں ، وہیں ایک اہم سبب لڑکیوں کے نکاح میں غیر معمولی تاخیر ہےـ

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح ان کے بالغ ہونے کے بعد جلد از جلد کردیا جائے _ لیکن اب اعلیٰ تعلیم کے حصول ، پھر ملازمت (Job) کی تلاش میں تاخیر ہوتی چلی جاتی ہےـ چنانچہ لڑکے اپنا نکاح دیر سے کرتے ہیں اور لڑکیوں کے سرپرست بھی ان کی تعلیم کی وجہ سے یا اعلیٰ ملازمت والے لڑکے کے انتظار میں ان کے نکاح میں تاخیر کرتے ہیں ـ

جنس (sex) کا جذبہ ایک خاص عمر کو پہنچ جانے کے بعد ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی میں پایا جاتا ہےـ وہ جوش مارتا ہے تو تسکین چاہتا ہےـ پھر اگر جائز طریقے سے اس کی تسکین نہیں ہوتی تو ناجائز راستوں کی طرف میلان ہوجاتا ہےـ

قرآن کی تاکید ہے : ” تم میں سے جو لوگ مجرّد (بغیر جوڑے کے) ہوں… ان کے نکاح کر دو ۔” ( النور : 32) یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں کے سرپرستوں سے بھی ہے اور سماج سے بھی _ جو لوگ اس معاملے میں کوتاہی کریں گے ان سے بازپُرس کی جائے گی ـ

جذبۂ جنس کی تسکین کے لیے اسلام نے واحد صورت نکاح کی بتائی ہے اور کھلے عام ناجائز جنسی تعلق اور خفیہ آشنائی دونوں کو حرام قرار دیا ہےـ اس نے ایک طرف ناجائز تعلق پر سخت سزائیں تجویز کی ہیں تو دوسری طرف نکاح کو بہت آسان بنایا ہےـ

عہدِ نبوی میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی یا مرد یا عورت نے نکاح کی خواہش کی ہو اور اس کا نکاح نہ ہو پایا ہوـ عمروں یا سماجی حیثیتوں کا تفاوت ، یا کسی عورت کا مطلّقہ یا بیوہ ہونا اس معاملے میں رکاوٹ نہیں بنتا تھاـ نکاح کے انتہائی آسان ہونے کی وجہ سے بدکاری کے واقعات بہت شاذ و نادر پیش آتے تھےـ

مسلم سماج نے دیگر سماجوں کی تقلید میں نکاح کے غیر شرعی اور مُسرفانہ رسوم کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں ہےـ منگنی ، جہیز ، تلک ، بارات ، چوتھی اور نہ جانے کیسی کیسی رسمیں ہیں جن پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ـ مصارفِ نکاح اکٹھا کرنے میں غریب ماں باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہےـ لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں _ بالآخر ان میں سے بعض بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں ـ

اگر سماج کو پاکیزگی کی راہ پر ڈالنا ہے تو ہمیں نکاح کو آسان بنانا ہوگاـ ہمیں ایسا ماحول تیار کرنا ہوگا کہ اگر کسی شخص کی تین چار پانچ لڑکیاں ہوں تو وہ بھی ان کے نکاح میں کوئی دشواری محسوس نہ کرے اور آسانی سے اس کو رشتے مل جائیں ـ

بہت قابلِ مبارک ہیں وہ نوجوان جو نکاح کی مارکیٹ میں اپنی قیمت نہیں لگاتے اور اپنے علم ، حیثیت اور جاب کا سودا نہیں کرتے ، بلکہ بہت سادگی سے نکاح پر تیار ہوجاتے ہیں ـ اسی طرح بہت قابلِ مبارک باد ہیں لڑکوں کے وہ سرپرست جو کھلے یا چھپے جہیز کا مطالبہ نہیں کرتے اور رسوم کے نام پر دولت نہیں سمیٹے ، بلکہ سنّت کے مطابق اپنے بیٹوں کے نکاح کو ترجیح دیتے ہیں ـ

سماج میں اسی وقت تبدیلی آسکتی ہے جب سماج کے سربرآوردہ ، باشعور اور سنجیدہ لوگ آگے بڑھیں اور سادہ اور آسان نکاح کی تحریک چلائیں ـ آسان نکاح کے موضوع پر تقریریں بہت ہوچکیں _ اب ضرورت ہے آسان نکاح کے مثالی نمونے پیش کرنے کی ـ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ، یا رب العالمین !

You may also like

Leave a Comment