مصنف:ہرمن ہیسے
ترجمہ:یعقوب یاور
تبصرہ:علی عبداللہ
ایک خوبصورت ناول کا اختتام ہوا- سکون کی تلاش میں نکلنے اور صرف اپنے ضمیر کی آواز سننے پر بضد سدھارتھ کو روشنی ملی بھی تو کتنے تجربات کے بعد، وہ سدھارتھ بن کے دنیا میں داخل ہوا اور گوتم بن کر اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا- دنیا میں ہوتے ہوئے اس نے لالچ، حرص، ہوس، غرض، انا، ظاہری شان و شوکت سیکھی اور جب گوتم بنا تو اپنے اندر کی آواز، کائنات کی آواز اور زندگی کی آواز سننے کے قابل ہو چکا تھا- کملا کو جس نے چھوڑا وہ سدھارتھ تھا، جس سے کملا کا سامنا ہوا وہ گوتم تھا- گوتم تو وہ پیدائشی تھا اور گیانیوں سے اس نے سوچنا، بھوکا رہنا اور انتظار کرنا سیکھا تھا- یہی اسے دنیا میں مشغول رکھنے کے کام آیا اور پھر بالآخر یہی سب کچھ اسے اپنے من کو اور کائنات کو سننے میں کام آیا- اس ناول کی چند خوبصورت سطور آپ بھی پڑھیے-
1- نصیحت سے کوئی عرفان حاصل نہیں کر سکتا- ذات کے عرفان کے لمحات میں آپ نے کیا محسوس کیا- ان گہرے لمحات کا تجربہ آپ کو کیسا لگا اسے آپ الفاظ میں قید نہیں کر سکتے-
2- وجوہ کا علم ہی فکر ہے اور فکر کے توسط سے ہی محسوسات علم کی شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ختم ہونے کی بجائے زیادہ حقیقی اور مکمل ہونے لگتے ہیں-
3- علم اور اسرار کو سکھایا نہیں جا سکتا، اس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی-
4- خیال اور احساس دونوں عظیم ہیں، دونوں میں عظمت ہے، دونوں کو حاصل کرنا، انھیں استعمال میں لانا، دونوں کو یکساں اہمیت دینا، دونوں کی آواز ہمہ تن گوش ہو کر سننا ہی اچھا ہے-
5- ہر آدمی مقصد تک پہنچ سکتا ہے، اگر وہ سوچنا، انتظار کرنا اور بھوکا رہنا جانتا ہو-
6- لفظ بہتر ہے مگر فکر بہترین، ہوشیاری بہتر ہے مگر صبر بہترین-
7- خودشناسی کی قوت، فکر کا پراسرار فن، لمحہ لمحہ زندگی کی وحدانیت کو محسوس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
8- ہر وہ چیز جو درد کے انجام تک برداشت نہیں کی جاتی، مکمل نہیں کی جاتی- وہ پھر سے رونما ہوجاتی ہے- اور اسے پھر سے ساری تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں-
9- تم بہت زیادہ کی توقع رکھتے ہو اور حاصل اس لیے نہیں کر سکتے کہ زیادہ تلاش کرتے ہو-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)