(464 سالہ بابری مسجد کا 107سالہ قضیہ)
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے دہشت گردانہ انہدام کے بعد ایک طرف جہاں مسلمان صدمہ میں تھے وہیں دوسری طرف بی جے پی اور اسی قبیل کی دوسری شرپسند جماعتوں نے خوشیاں منائیں اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔۔ان شرپسند جماعتوں سے وابستہ کارسیوکوں نے مختلف اخبارات کے صحافیوں کو جو بیانات اور انٹرویو دئے تھے ان میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اپنے لیڈروں کے جوش دلانے پر بابری مسجد کو ڈھاکر ’غلامی کے کلنک‘ کو مٹادیا ہے۔
تیسری طرف کانگریس پارٹی میں ایک طبقہ نرسمہاراؤ کے خلاف غصہ میں تھا۔۔نرسمہاراؤ نے‘اس وقت ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب کیا جب سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔۔انہوں نے یوپی کی بی جے پی حکومت پر حلف شکنی کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ از سر نو تعمیرکیا جائے گا۔
یہاں یہ بتانا بہت اہم ہوگا کہ کانگریس میں اس وقت کئی مسلم قائد موجود تھے۔۔ان میں سے کچھ تو وزیر بھی تھے۔غلام نبی آزاد‘احمد پٹیل اور سی کے جعفر شریف چند بڑے نام تھے۔ موخرالذکر اب زندہ نہیں ہیں لیکن جب دوسری صف کے مسلم قائدین ان سب کے ساتھ اکٹھے ہوکر نرسمہا راؤ سے ملنے گئے تو ان کا ارادہ استعفی دینے کا تھا۔۔سی کے جعفر شریف تو جیب میں استعفی رکھ کر لے گئے تھے۔۔ان لیڈروں کے ساتھ ہفت روزہ نئی دنیاکے ایڈیٹر اور مشہور صحافی شاہد صدیقی بھی تھے۔۔ وہ بھی بہت غصہ میں تھے۔۔اور بقول ان کے انہوں نے نرسمہاراؤ کو بہت سخت سست کہا بھی تھا۔۔ والله اعلم بالصواب۔ لیکن یہ مسلم لیڈرجب راؤ کے دربار میں پہنچے تو سب کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا اور کسی نے اپنی جیب سے استعفی نہیں نکالا۔
شرپسندوں کے حوصلے بلند تھے اور اب وہ نعرے لگارہے تھے کہ اب متھرا اور کاشی کی باری ہے۔ نرسمہاراؤ پراپوزیشن کا مسلسل دباؤ بڑھ رہا تھا۔۔انہوں نے بہر حال پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کرالیا جس کی رو سے 15اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو پوزیشن تھی اس کو بدلنا ممنوع قرار دیدیا گیا۔۔اس ایکٹ کو عرف عام میں عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون کہتے ہیں۔۔ لیکن بابری مسجد کے قضیہ کو اس ایکٹ کے نفاذ سے باہر رکھا گیا۔۔کہا یہ گیا کہ چونکہ اس کا معاملہ عدالتوں میں ہے اور وہ انتہائی متنازعہ ہوچکا ہے اس لئے اسے اس ایکٹ سے الگ رکھا گیاہے۔۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ پھر نرسمہاراؤ نے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے 6 دسمبر 1992 کی شام ٹی وی پر یہ وعدہ کیوں کیا تھا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ از سر نو تعمیر کیا جائے گا؟
مسلمان چونکہ غصہ اور صدمہ میں تھے اور دوسری طرف خوشیاں منائی جارہی تھیں اس لئے انہوں نے جہاں جہاں بن پڑا احتجاج کیا۔۔لیکن ان کا احتجاج کرنا بھی شرپسندوں اور بی جے پی کو گوارا نہ ہوا۔۔ان پر حملے کئے گئے اور مابعد انہدام ملک بھر میں جو فسادات پھوٹے ان میں دو ہزار کے آس پاس بے گناہ جاں بحق ہوگئے۔۔فیض آباد میں بی جے پی کے ایک مسلم لیڈر تک کو نہیں بخشا گیا اوراس کی داڑھی نوچ کر خود اسے آگ کے حوالہ کردیا گیا۔۔اس نے دہائی دی کہ وہ بی جے پی میں ہے لیکن شرپسندوں نے کہا کہ مسلمان تو ہے اس لئے تجھے چھوڑ نے کا کوئی مطلب نہیں۔۔ یہ تمام معلومات اس وقت کے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔۔ دنیا بھر سے انٹر نیشنل میڈیا نے بھی اس موقع پر کوریج کی اور پوری دنیا میں بابری مسجد کے انہدام اور مابعد مسلم کش فسادات پر غصہ کا اظہار کیا گیا۔۔شرپسندوں نے بہت سے صحافیوں پر بھی حملے کئے۔
شر پسندوں کے حوصلے بڑھتے چلے گئے اور مسلمان سر اٹھاکر چلنے سے گھبرانے لگے۔۔پورا دسمبر اسی میں گزرگیا۔جنوری 1993 میں بھی حالات سنور نہ سکے۔۔ممبئی‘مالیگاؤں اور بھیونڈی جیسے مقامات بھی فسادات اور فرقہ وارانہ کشمکش سے بہت متاثر ہوئے۔۔ ممبئی میں جنوری 1993میں لگاتار ایک سے زائد بم دھماکے ہوئے اور اسٹاک ایکسچینج کی بلڈنگ سمیت کئی مقامات کو سخت نقصان پہنچا۔۔257 لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔۔ نہیں معلوم کہ یہ بم دھماکے کس نے کئے تھے۔۔ لیکن پولس اور حکومت کا یہی کہنا تھا کہ یہ بم دھماکے داؤد ابراہیم نے کئے تھے۔اس ضمن میں اس کے خاندان کے کئی افراد کو سزا بھی ہوئی۔ لیکن یہ بھی ہوا کہ اس کے بعد شرپسندوں کے حوصلے بھی ٹوٹ گئے اور مسلمان خوف ودہشت کے سائے سے باہرآئے۔
ادھر انہدام سے پہلے سپریم کورٹ نے جس اسٹیٹس کو (صورتحال کا جوں کا توں رکھنے) کا حکم دیا تھا ہرچند کہ اس میں ہمالیائی تبدیلی آگئی تھی اور بابری مسجد کی جگہ اب مٹی کا ڈھیر اور اس پر رام کی مورتی تھی۔۔اس کی پوجا بھی شروع کردی گئی تھی اور درشن بھی جاری تھے۔۔لیکن مسلمانوں کے لئے اب بھی ’اسٹیٹس کو‘ ہی تھا۔۔الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی انہدام کے بعدایک اور ’اسٹیٹس کو‘ لگادیا تھا۔۔ یعنی مسلمان اب بابری مسجد کے ملبہ کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتے تھے۔۔اب وہاں پوری طرح شرپسندوں کا قبضہ تھا۔ ملک بھر میں جو فسادات ہوئے تھے ان میں بھی نقصان انہی کا ہوا تھا۔۔ اب وہ ہرطرف سے اور ہر طرح سے ٹوٹ چکے تھے۔۔ یہ فہم سے بالاتر ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہوئی تھی اور یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے عدالت میں دئے گئے حلف نامہ کی دھجیاں اڑائی تھیں توصورت حال کو درست کرنے کیلئے مرکز ی حکومت کے ہاتھ کس نے پکڑ رکھے تھے۔
نرسمہاراؤ سے تمام اپوزیشن پارٹیاں جو مطالبہ 6 دسمبر 1992 سے پہلے کر رہی تھیں اس پر بابری مسجد کے انہدام کے بعد عمل کیاگیا۔ راؤ نے یوپی کی حکومت کے ساتھ ہی راجستھان اور مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومتوں کو بھی برخاست کردیا۔۔ اس کا کوئی فائدہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔۔ابھی راؤ کے پاس پورے چار سال تھے۔مگر راؤ نے بابری مسجد کی از سر نوتعمیر کیلئے کچھ نہیں کیا۔۔ 1996 میں جب لوک سبھا انتخابات ہوئے تو نرسمہاراؤ نے پوری طاقت جھونک دی اور مسلم مذہبی قائدین کو خریدنے کیلئے تجوریوں کے دہانے کھول دئے۔چونکہ عام مسلمان ان سے سخت ناراض تھے لہذا انہوں نے بعض نام نہاد مسلم قائدین کی خدمات حاصل کیں اور انہیں اس کا ’نذرانہ‘ بھی دیا گیا۔۔ کیا بریلوی‘کیا دیوبندی سبھی کو خریدنے کیلئے اپنے قاصد دوڑائے۔ لیکن مسلمانوں کی ناراضگی میں کمی نہیں آئی اور نرسمہاراؤ کا دوبارہ وزیر اعظم بننے کا خواب بھی بابری مسجد کی طرح منہدم ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ نرسمہاراؤ سے کانگریس قیادت خاصی ناراض رہی اور وہ کانگریس میں شجر ممنوعہ بن گئے۔ سونیا گاندھی نے قیادت سنبھالی اور راؤ نواز لوگوں کو حاشیہ پر لگادیا۔ 1996 میں حکومت بی جے پی کی بن گئی اور اٹل بہاری باجپائی وزیر اعظم بن گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نرسمہاراؤ نے جن نام نہاد مسلم قائدین اور دانشوروں کو خرید کر ان کی خدمات حاصل کی تھیں 1997 میں ان قائدین اور دانشوروں نے اٹل بہاری باجپائی کیلئے کام کیا۔
اب آئیے ایک بار پھر دسمبر 1992میں لوٹتے ہیں۔۔ بابری مسجد کے مجرمانہ اور دہشت گردانہ انہدام کے بعد یوپی پولیس نے دو ایف آئی آر درج کیں۔۔ پہلی ایف آئی آر (نمبر197-92) لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج کی گئی۔۔ دوسری ایف آئی آر (نمبر 198-92) بی جے پی کے چند بڑے لیڈروں کے خلاف درج کی گئی۔ان میں ایل کے اڈوانی‘مرلی منوہر جوشی‘اوما بھارتی‘اشوک سنگھل‘ونے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا وغیرہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ 47 ایف آئی آر مزید درج کی گئیں جن میں صحافیوں پر حملے سے متعلق شکایات تھیں۔
اسی کے ساتھ 16دسمبر 1993کو مرکزی وزارت داخلہ نے ریٹائرڈ جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کی سربراہی میں ایک کمیشن آف انکوائری بھی قائم کردیا۔اس کمیشن کو لبراہن کمیشن کے نام سے جانا گیا۔بنیادی طورپراس کمیشن کو ان تمام سلسلہ وار واقعات کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ تین مہینے کے اندر پیش کرنی تھی جوبابری مسجد کے انہدام کا سبب بنے۔اس کی تحقیقات کے لئے 6 نکات قائم کئے گئے تھے جن کی رو سے کمیشن کو یہ بھی تفتیش کرنی تھی کہ انہدام میں حکومت یوپی اور اس کے وزیروں اور افسروں کا کیا کردار رہا‘سیکیورٹی میں کہاں کمی رہی اور مختلف تنظیموں کا کیا کردار رہا۔اسی طرح میڈیا پر حملوں کی بھی تفتیش اسی کمیشن کو کرنی تھی۔۔ ہم اس کمیشن کی تفصیلی رپورٹ پر تیسری قسط میں روشنی ڈالیں گے۔ لیکن اتنا جاننا اہم ہوگا کہ جس کمیشن کو محض تین مہینے کے لئے بنایا گیا تھا اس نے رپورٹ تیار کرنے میں 17سال لگادئے۔ کمیشن کو 48 مرتبہ ایکسٹنشن دیا گیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ بات تھی۔
بابری مسجد اب موجود نہیں تھی۔۔لیکن یوپی حکومت کی سازش کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔۔ نامعلوم لاکھوں کارسیوکوں کے خلاف درج ایف آئی آر تو سی بی آئی کو سونپی گئی جو مرکز کے تحت آتی ہے۔لیکن بی جے پی کے بڑے لیڈروں کے خلاف درج دوسری ایف آئی آر کو یوپی کی مقامی انٹلی جنس یونٹ سی آئی ڈی کے سپرد کیا گیا۔پھر 27 اگست 1993 کو تمام معاملات سی بی آئی کے سپرد کردئے گئے۔اس وقت یوپی میں صدر راج نافذ تھا۔اکتوبر 1993 میں سی بی آئی نے اڈوانی اور دوسروں کو سازش کا ملزم مانتے ہوئے چارج شیٹ داخل کردی۔
حیرت انگیز طورپر سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ نے مئی 2001 میں بی جے پی کے ان تمام لیڈروں کے خلاف جاری کارروائی کو ختم کردیا۔۔سی بی آئی کو اس کے خلاف اپیل کرنے میں تین سال لگے اور اس نے نومبر 2004 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں بی جے پی لیڈروں کے خلاف کارروائی کو ختم کرنے کے خلاف اپیل دائر کی۔۔اس پر مزید حیرت انگیز طور پر ہائی کورٹ نے 6سال لگائے اورمئی 2010 میں سی بی آئی کی اس اپیل کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ اس میں کوئی دم نہیں ہے۔۔ فروری 2011 میں سی بی آئی نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔۔اس پر سپریم کورٹ نے بھی 6 سال لگادئے اور مارچ 2017 میں اڈوانی وغیرہ کے خلاف سازش کے الزامات کو برقرار رکھنے اور اڈوانی وغیرہ اور کارسیوکوں کے خلاف جاری الگ الگ مقدمات کویکجا کرنے کے احکامات دیدئے۔
ادھر 1986 میں مقامی عدالت کے ذریعہ بابری مسجد کا تالہ کھولنے کے حکم کے خلاف جو اسٹیٹس کو الہ آباد ہائی کورٹ نے لگایا تھا اس میں ٹائٹل سوٹ (یعنی بابری مسجد کس کی ملکیت کی زمین پر بنی ہے) کا مقدمہ بھی چل رہا تھا۔اس مقدمہ کا فیصلہ 24 سال بعدستمبر 2010 میں آیا۔تین رکنی بنچ نے 2:1کی اکثریت سے یہ فیصلہ کردیا کہ بابری مسجد اور اس سے ملحق زمین (2.77 ایکڑ) کو تین حصوں میں تقسیم کرکے سنی سینٹرل وقف بورڈ‘ رام للا براجمان اور نرموہی اکھاڑے کو دیدیا جائے۔۔ دو ججوں کی رائے ایک تھی جبکہ تیسرے جج کی رائے مختلف تھی۔۔ لیکن اس نکتہ پر تینوں متفق تھے کہ جس جگہ اس وقت رام کی مورتی رکھی ہے اور جو مسجد کی کلیدی محراب تھی‘ وہی جگہ رام للا براجمان کو دی جائے گی۔۔ حالانکہ تینوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ مورتی 23 دسمبر 1949کی شب میں وہاں رکھی گئی تھی۔
8000 صفحات پر مشتمل اس فیصلہ میں جسٹس سدھیر اگروال نے کہا کہ اندرونی احاطہ پر ہندو مسلم دونوں کا حق ہے۔جسٹس ایس یو خان نے کہا کہ ہندو اور مسلمان دونوں صدیوں سے ایک ساتھ عبادت کرتے آئے ہیں اور یہی اس مقدمہ کی بے مثال خوبی ہے۔۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی تاہم یہ ضرور کہا کہ بابر کے حکم پر مسجد اس جگہ بنائی گئی تھی جہاں ایک لمبے عرصہ سے ٹوٹے ہوئے مندر کے باقیات پڑے ہوئے تھے۔۔ لیکن باقی دو ججوں نے کہا کہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔
بہر حال اس فیصلہ پر مسلمانوں کے تو اتفاق کرنے کا سوال ہی نہیں تھا خود ہندو فریقوں نے بھی اس سے عدم اطمینان ظاہر کیا۔۔نرموہی اکھاڑے کو اس پر اعتراض تھا کہ اسے اندرونی احاطہ سے محروم کردیا گیا اور اسے صرف رام چبوترہ دیا گیا جبکہ رام للا براجمان (بی جے پی وغیرہ) کو 2.77 ایکڑ زمین کی تقسیم پر ہی اعتراض تھا۔۔لہذامئی 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر اسٹے لگادیا۔
اب تین نکتے بہت اہم باقی رہ گئے ہیں۔۔جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ‘ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ اور اڈوانی وغیرہ کو سازش کے تمام الزامات سے بری کرنے کا لکھنؤ کی اسپیشل کورٹ کا تازہ فیصلہ۔۔سچی بات یہ ہے کہ بابری مسجد کے صاف ستھرے قضیہ کو کانگریس‘ بی جے پی‘ان دونوں کی حکومتوں‘مقامی عدالتوں‘ہائی کورٹ اور خود سپریم کورٹ نے بھی خوب الجھایا اور اتنا پیچیدہ بنادیا کہ آخر میں خود سپریم کورٹ کو ہی بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالہ کرنے کے لئے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے انتہائی خصوصی اختیارات کا استعمال کرنا پڑا۔۔ یعنی کوئی ثبوت نہیں‘کوئی شہادت نہیں لیکن چونکہ بابری مسجد کا نام ونشان مٹانا تھا اور مسلمانوں کو محروم کرتے ہوئے جگہ ہندؤں کے حوالہ کرنی تھی اس لئے سپریم کورٹ نے آئین کی سب سے خطرناک دفعہ 142 کا استعمال کرڈالا۔ میں دوبارہ استعمال کر رہا ہوں کہ آئین کی دفعہ 142 سب سے خطرناک ہے۔اور جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں تو انتہائی خطرناک ترین ہے۔