اشتیاق احمد چمپارنی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ این آر سی اور سی اے اے کا براہ راست نشانہ مسلمان ہیں لیکن خوشی اس بات سے ضرور ہے کہ مسلمان اب بیدار ہو چکے ہیں اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بہکاوے میں نہ آنا یہ ان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے.
موجودہ احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت لوگوں کو بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ این آر سی اور سی اے اے مسلمانوں پر اثر انداز نہیں ہونگے اور جو ہندوستان کے شہری ہیں انہیں کچھ نہیں ہوگا لیکن اس یقین دہانی سے خوش ہوکر اس نئے پیش کردہ قوانین کے خلاف اپنی سرگرمیاں روک دینا اس حدیث کو نظر انداز کر نے کے مترادف ہوگا جس میں ہمارے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، کیا آپ کو بابری مسجد کا واقعہ یاد نہیں؟ جب نرسمہاراؤ کی حکومت اور سپریم کورٹ نے یقین دلایا تھا کہ مسجد نہیں توڑی جائے گی حتی کہ وہاں جمع ہونے والے کار سیوکوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ہم لوگ ریہرسل کے لیے جمع ہورہے ہیں مسجد توڑنے کے لیے نہیں لیکن آخر کار مسجد گرا دی گئی، اگر اس بار بھی ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور یقین کر لیا کہ اس ایکٹ کا اثر ہم پر نہیں پڑےگا تو یاد رکھیے ایک مرتبہ پھر ہم تاریخ میں گنہگار تسلیم کیے جائیں گے،
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ایکٹ کا مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ان سے ذرا پوچھیے کہ جو حکومت بڑھتی ہوئی آبادی کو لے کر فکر مند ہے وہ کیسے چاہے گی کہ شہریت دیکر آبادی اور بڑھا دی جائے؟ یاد رکھیں یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سے شہریت چھین کر باہری غیر مسلموں کو بسانا ہے بلکہ میرا خیال یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو شہریت سے محروم کردیا جائے گا اور جب تک آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائینگے بہت سارے الیکشن گزر جائیں گے اور آپ حق ووٹ اور سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور پھر اس کا اثر کیا ہوگا آپ خود تصور کر لیجیے، اس لیے خدا را اس نئے قانون کی مخالفت کرنا مت چھوڑیئے، اس کے لیے ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت پر امن احتجاج ہے اگر ہم نے احتجاج کرنا بند کر دیا تو یقین جانیے عدالت میں ہونے والی سماعت پر بھی اس کا اثر پڑیگا جو کہ ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، جیسا کہ بابری مسجد سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلہ سے ثابت ہوتا ہے جس میں یہ مانا گیا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی اور مسجد توڑنا غلط تھا لیکن آخری فیصلہ اکثریت کے حق میں آیا، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہماری خاموشی اور اکثریت کی طرف سے بار بار مندر وہیں بنانے اور فتنہ و فساد کی دھمکی نے سپریم کورٹ پر ضرور دباؤ بنایا ہوگا؟ اور یقیناً دباؤ یہی ہوگا کہ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سے فتنہ و فساد ہوگا جبکہ ہندوؤں کے حق میں فیصلہ پر مسلمان خاموش رہینگے
امت شاہ جس پر جج لویا کو قتل کرنے کا الزام ہو، جس پر مظفر نگر فساد میں اہم رول ادا کرنے کا الزام ہو اس آدمی سے مسلمانوں کے لیے بھلائی کی امید رکھنا ہی جرم ہے؛ لیکن سی اے اے اور این آر سی کی خطرناکیت آپ اس وقت اور اچھی طرح سمجھ لینگے جب گجرات فساد میں امت شاہ کے گھناؤنے کردار کا مطالعہ کرینگے، یہی وہ آدمی ہے جس سے ایک سینیئر گجراتی صحافی راجیو شاہ نے سوال کیا تھا کہ آپ دونوں کمیونٹی کے لوگوں کو بلا کر بھائی چارے کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ تو امت شاہ نے مسکراتے ہوئے صحافی سے پوچھا تھا تمہارا گھر کس جانب ہے؟ صحافی کے اس جواب پر کہ میرا گھر تو ہندوؤں کے علاقہ میں ہے امت شاہ کا جواب تھا کہ پھر تم فکر مت کرو تم کو کچھ نہیں ہوگا جو کچھ ہوگا مسلم علاقہ میں ہوگا یہ تھا اس آدمی کا جواب جو اس وقت گجرات کا وزیر داخلہ تھا اور آج بدقسمتی سے ہندوستان کا وزیر داخلہ ہے، یاد رکھیں یہ وقت ہمارے ملک کی جمہوریت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے اگر ماضی کی طرح ہم اب بھی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں کبھی بھی سر اٹھا کے نہیں چل سکیں گی اور اس کے ذمہ دار ہم ہونگے اس لیے کہ ظلم پر خاموش رہنا جرم ہے.