Email:[email protected]
ٓ اتوار کو میں ہمیشہ کی طرح اپنے دوست پرویز سے ملنے گیا۔ وہ لگ بھگ میراہم عمر ہے۔لیکن،کم بولنے، آہستہ بولنے،کم مسکرانے اور اپنی سنجیدگی کی وجہ سے وہ مجھ سے بڑا لگتا ہے۔ اسے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔اسکی گفتگو میں علم و ادب کی جھلک نظر آتی ہے۔میں بھی اس سے زیادہ بے تکلف نہیں ہو پاتا ہوںاور اسے عزت سے پرویز بھائی کہتا ہوں ۔ اس دن بھی ہمیشہ کی طرح کافی دیر تک ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔
’’اچھا بھئی! اب ہم اجازت چاہیں گے۔‘‘
اچانک مجھے ایک کام یاد آیا تو میں وہاں سے چلنے کے لیے کرسی سے اُٹھا۔
’’ارے اِتنی جلدی کیسے؟… ابھی بیٹھو ،چلے جانا۔‘‘
پرویز بھائی نے اصرار کرتے ہوئے بہت محبت سے کہا۔
مجبوراً دوبارہ میں کرسی پر بیٹھ گیا کیونکہ میںانکی آنکھوں میں اپنے لئے خلوص دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ خاموشی میں گزر گئے۔
پرویزبھائی ، اور سنائیے آپ۔
میں نے خاموشی توڑی۔
کیا سنائیں؟ غزل یا ٹھمری ؟ کیا پسند ہے تمہیں؟ بھئی تم ہی کوئی ’ کہانی‘ سنائو ۔ آج کل تو تم خوب کہانیاں لکھ رہے ہو۔
پرویزبھائی بڑے اچھے موڈ میں تھے۔وہ اس طرح کم ہی بے تکلف ہوتے ہیں۔
میں ذرا شرمایا اور کچھ بھی نہ کہہ سکا۔اردو زبان کے تلفظ اور ادائیگی کے وہ ماہر ہیں ۔ اس لئے میں ہچکچایا۔
دیکھو بھئی تم شرمایا نہ کرو۔ تم ادیب ہوکر شرماتے ہو۔ اب سنا ڈالو کوئی نئی کہانی۔بالکل نئی کہانی!
پرویز بھائی اصرار کرتے ہوئے بولے۔
’’میں بھی آج ایک ایسی کہانی سنائوںگا کہ پرویز بھائی کا ہمیشہ کے لیے دل بھر جائے گا۔ پھر کبھی کہانی سنانے کے لیے بھول کر بھی فرمائش نہیں کریںگے‘‘۔
میں دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
اچھا سُنیے ایک کہانی۔
میں نے پرویز بھائی کو مخاطب کیا۔
سب سے پہلے تو آپ میری زندگی کی ایک حیرت انگیز اور عجیب و غریب کہانی سنئے۔اس کے بعد دوسری کوئی کہانی سنائوں گا۔
میں اپنے والد کا بڑا بھائی ہوں۔ یعنی جب میرے والد پیدا ہوئے تھے تو میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ میری دادی نے جو میری چھوٹی خالہ تھیں، انھیں پیدا ہوتے ہی میرے سپرد کردیا اور مجھ سے کہا ۔’’اسے باہر لے جاکر ٹہلائو۔
اچھا بھئی تم خاموش ہوجائو۔ پرویزبھائی کہانی سنانے کے بیچ میں ہی بولے۔
ارے صرف ذراسی اور رہ گئی ہے کہانی۔
میں نے یہ کہہ کر کہانی سنانا جاری رکھا۔
ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ ارے ہاں میرے والد صاحب یوں تو میری گود میں رو رہے تھے لیکن قیصر باغ پہنچ کرچپ ہوگئے اور چھڑی ٹیک ٹیک کر اپنے پائوں پر چلنے لگے۔
راستے میں ایک انڈے والا نظر آیا۔ انھوں نے بطخ کا ایک انڈا خریدا اور اپنے گرم کوٹ کی جیب میں رکھ لیا۔
اس وقت سخت لو چل رہی تھی۔ پھر اونی کوٹ میں حرارت پہنچتے ہی انڈے سے ایک موٹا تازہ چوزہ نکل پڑا۔
میں نے راستے میںچار آنے کا ہرا دھنیا خریدا۔ جب میں دھنیا ہاتھ میں پکڑے پکڑے تھک گیا تو اس کو چوزے کی پیٹھ پر رکھ دیا۔ تھوڑی دور آگے چلے تھے کہ چوزہ شتر مرغ کے برابر ہوگیا۔
میں نے اس پرچار آنے کی لال مرچیں بھی لے کر لاد دیں۔ مرچیں اس قدر زہریلی تھیں کہ اس کی پیٹھ سڑ گئی۔
دادی نے ہلدی۔ چونا، گیہوں پیس کر مرہم بنایا اور اس کی پیٹھ پر لگا دیا اور دوسرے ہی دن اس کی پیٹھ ٹھیک ہوگئی۔ تیسرے دن اس کی پیٹھ پر گیہوں اُگ آئے۔ اور چوتھے دن گیہوں پک گیا۔ گیہوں کی بالیاںاس قدر اُگ آئی تھیںکہ ہم کو سو مزدور کرائے پر بلانے پڑے اور مجبوراً اپنے ملک کی ضرورت پوری کرنے کے بعد باقی گیہوں پڑوسی ملکوں کو مفت دینا پڑا۔
خدا کے لیے تم چپ ہوجائو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی بھر ،میںپھر کبھی تم سے کہانی سنانے کی فرمائش نہیں کروں گا۔
پرویزبھائی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور میں اپنی اس کامیاب اسکیم پر خوب کھِل کھِلا کر ہنسنے لگا۔
ہمیشہ خاموش اور گم سُم رہنے والے پرویز بھائی کا مسکان بھرا چہرہ بہت معصوم اور پیارا لگ رہا تھا۔
در اصل کبھی کبھی ہنسنے ہنسانے کا بھی موقع تلاش کر لینا چاہئے تاکہ روز مرہ کی زندگی کی دوڑ بھاگ سے تھکا اور مرجھایا ہوا چہرہ کھِل اُٹھے۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ سنجیدگی اچھی بات ہے لیکن ہر وقت سنجیدہ رہنا بہت اچھی بات نہیں ہے !
شاعرامام بخش ناسخ کیا خوب فرماتے ہیں کہ
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں !
جبکہ تاج سعید مسکراتے ہوئے چہرے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ہر اک کا دل موہ لیتی تھی اسکی اک مسکان
یہ مسکان تھی ساتھ اسکے چہرے کی پہچان
ہمیں اپنے چہرے پرمسکان اور لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر تے رہنا چاہئے تاکہ ہمارے ارد گرد کے باسی ہما رے آس پاس رہنا پسند کریں!!
نہ صرف مسکراتا چہرہ بندوں کو راحت بخش خوشی دیتا ہے بلکہ اللہ کو بھی اپنے ایسے بندے بہت پسند ہیں !!!
ؑ( کہانی کار ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈیافتہ مصنف و ادیب ہیں)