آج سے ٹھیک ایک سال قبل 16 مارچ 2021 کو ضلع اردو زبان سیل سیتامڑھی کلکٹریٹ کی طرف سے منعقدہ فروغ اردو سمینار و مشاعرہ میں شرکت کا موقع ملاـ پروگرام کا نظم و ضبط اور آخر تک سامعین کرام کی بھرپور موجودگی سے اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ سیتامڑھی کے محبان اردو اپنی مادری زبان کے تئیں کتنے حساس ہیں. یہ پروگرام مجھے اس لیے بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ یہیں میری پہلی اور آخری ملاقات اشرف مولا نگری صاحب سے ہوئی تھی. اس ملاقات کی یاد ابھی مدھم بھی نہ ہونے پائے تھی کہ یکم مئی 2021 کو اشرف مولانگری صاحب مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئےـ اللہ انہیں غریق رحمت کرےـ
ابھی کچھ روز قبل جناب پھول حسن صاحب نے برادر محترم جمیل اختر شفیق کے توسط سے اردو زبان سیل سیتامڑھی کا ضلع اردو نامہ بھیجوایا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں ـ
ضلع اردو نامہ 2021 کا یہ شمارہ 56 صفحات پر مشتمل ہے. جن میں آخر کے 19 صفحات فون نمبر کی ڈائرکٹری، تصاویر اور خبروں کے تراشوں سے مزین ہیں. یعنی اس مجلہ کا نثری و شعری حصہ 37 صفحات پر ہی مبنی ہےـ
پیش لفظ میں سیتامڑھی کی سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ابھیلاشا کماری شرما نے اردو زبان کے تئیں اپنی محبت کا اظہار بہت ہی فراخدلی کے ساتھ کیا ہے. ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ "ضلع کے اردو اساتذہ اور اردو کے دیگر عہدیداران کو اپنے فرض منصبی کے تئیں جوابدہ اور ایماندار ہونا چاہئےـ جب ذمہ داران میں ایمان داری کا احساس پیدا ہو جائے تو مسائل از خود آسان اور حل ہو جائیں گے”ـ
سونی کماری انچارج ضلع اردو زبان سیل نے "اردو کے عملی نفاذ کی ایک کوشش” کے عنوان سے ضلع اردو زبان سیل کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو کے عملی نفاذ کو اطمینان بخش بتانے کی کوشش کی ہےـ
عرض مؤلف کے عنوان سے محمد پھول حسن نے اعداد و شمار کی روشنی میں سیتامڑھی ضلع میں اردو کی صورت حال کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے. ان کے اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں پورے ملک میں اردو بولنے والوں کی مجموعی آبادی کل آبادی کی 5.1 فیصد ہے جبکہ 2011 میں 5.07 فیصد. اس لحاظ سے اردو بولنے والوں کی آبادی میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے حالانکہ یہ اعداد و شمار 2011 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق درست نہیں ہیں. حقیقت یہ ہے کہ 2011 میں اردو بولنے والوں کی کل تعداد صرف 4.19 فیصد ہے. اس لحاظ سے اردو بولنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جو تشویشناک ہے. بہتر ہوتا اگر یہاں سیتامڑھی ضلع میں اردو کی صورت حال کا بھی اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیا جاتاـ
پھول حسن صاحب کی اس بات سے پوری طرح اتفاق کرنا چاہیے کہ:
"زبان ایک عمومی جذبہ اظہار ہے. یہ اس کی ہی وراثت ہو سکتی ہے جو اسے سنے، بولے، پڑھے، سیکھے اور لکھے. گویا عامۃ الناس کے ہمہ جہت استعمال پر ہی اس کی بقا مضمر ہے. لہذا اردو آبادی اسے سرکار کے ہی بل بوتے نہ چھوڑے بلکہ اسے تعلیم، سماج اور عام بول چال میں شامل کرے تو اس کی ترقی کی ضمانت ہوگی ـ”
ضلع اردو نامہ کے اس شمارہ میں اشرف مولا نگری مرحوم کی ایک بہت ہی اہم تحریر بعنوان اردو تحریک میں سیتامڑھی کا کردار شامل ہے. یہ مرحوم کی آخری نثری تحریر ہے. اس میں انہوں نے تاریخی حقائق و واقعات اور اردو تحریک سے وابستہ اہم شخصیات پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے. اشرف مولانگری مرحوم کا یہ مضمون دستاویزی نوعیت کا ہےـ
محمد عارف انصاری کا مضمون سیتامڑھی میں اردو تعلیم و تدریس تاثراتی نوعیت کا مضمون ہے. اردو تدریس کے تئیں ان کی دردمندی قابل قدر ہے لیکن اس نوع کے موضوعات جذباتیت سے زیادہ اعداد و شمار، معروضیت اور دلائل کے متقاضی ہوتے ہیں. پورے مضمون میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ سیتامڑھی ضلع میں اردو میڈیم اسکول کتنے ہیں؟ کتنے اردو اساتذہ یہاں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں؟ کن کالجوں میں اردو درس و تدریس کا نظم بہتر ہے؟ کہاں اردو کا ایک بھی استاد نہیں ہے وغیرہ. اگر یہ حقائق مضمون میں ہوتے تو اس ضمن میں کوشش کرنے والوں کو ایک راہ ملتی. اس کمی کو کسی حد تک محمد ثناء اللہ اسسٹنٹ پروفیسر گوئنکا کالج سیتامڑھی نے پورا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
….. ” یہاں (سیتامڑھی میں) اعلی تعلیم کے درجنوں کالج تو ہیں لیکن اردو تدریس شہر کے صرف دو کالجوں میں ہے اس کی وجہ سے اردو پڑھنے کا ان کا (طلبا کا) خواب ادھورا رہ جاتا ہے اور مجبوراً انہیں دوسرے کورسوں میں داخلہ لینا پڑتا ہے. اگر ضلع کے سبھی کالجوں میں کم از کم بی اے کی سطح پر اردو تدریس کا انتظام ہو جائے تو اس سے ان طلبا کا اردو میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا دیرینہ خواب پورا ہو سکتا ہے.” اردو تحریک کاروں کو اس مسئلے پر غور کر کے اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
مجلہ میں راشد فہمی، اکرام الحق قاسمی، کلیم اختر شفیق، محمد عمران اور راشدہ تبسم کے مضامین بھی شامل ہیں۔ محمد عمران کا مضمون مجلہ کی مختصر ضخامت کے حساب سے طویل اور موضوع سے غیر متعلق ہے. "سیتامڑھی میں اردو کے لیے ماضی کی سرگرمیاں” کے عنوان سے 2007 کے مختلف اخبارات کی کچھ خبروں کو من و عن مضمون بنانے کی کوشش کی گئی ہے. اگر مضمون میں ماضی کی سرگرمیوں کا ہی جائزہ لینا تھا تو یہاں نہ 2007 سے پہلے کی کسی سرگرمی کا ذکر ہے اور نہ 2007 کے بعد کی ـ اس طرح کی تحریریں رسائل و جرائد کے معیار پر حرف لاتی ہیں ـ
مجلہ کے دوسرے حصے میں سیتامڑھی کے شعرا و ادبا کا مختصر تعارف اور ان کی تخلیقات کے کچھ نمونے شامل کیے گئے ہیں. مجلہ کے آخر میں سیتامڑھی ضلع میں مامور اردو عملوں اور اساتذہ کی تفصیلات اور ان کے فون نمبر شامل کیے گئے ہیں. یہ ایک اہم کام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیےـ
مجموعی حیثیت سے ضلع اردو زبان سیل سیتامڑھی کا یہ شمارہ زبان و بیان اور پروف کی معمولی غلطیوں سے قطع نظر ایک قابل مطالعہ شمارہ ہے. اس کی اشاعت پر بطور خاص جناب پھول حسن مبارکباد کے مستحق ہیں. امید ہے کہ اگلے سال کا مجلہ مزید معیاری اور دیدہ زیب ہوگاـ