Home نقدوتبصرہ ذکر محبوب کتابوں کا – ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

ذکر محبوب کتابوں کا – ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

by قندیل

شعبہ اردو ، رام لکھن سنگھ یادو کالج، بتیا (مغربی چمپارن )

بچپن میں سب سے پہلی کتاب جس نے ذہن و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا وہ ہے ریاست ِ بہار کی نصابی کتاب "دارا ، داور ، روزی ” اس کےبعد مولانا سید محمد میاں کی کتاب "دینی تعلیم کا رسالہ "اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے”اردو زبان کا قاعدہ” نے بھی کتابوں سے انسیت پیدا کی ۔
کتابوں سے دوستی میں بچوں کے ماہنامہ امنگ کا بھی بڑا اہم رول رہا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حروف و الفاظ جوڑ کر اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا ۔اب اپنی پسند کی کتاب کی جستجو رہتی ؛ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میرے رشتے کا ایک بھانجا شمشاد عرف پُتول آسنسول سے اپنی ننھیال مشکی پور آیا اور ساتھ ہی ماہنامہ امنگ کی ایک کاپی بھی لایا ، ہمیں دکھایا ، ہم اپنے ہم جولی زاہد اور اسرار وغیرہ کے ساتھ اسے دیکھنے لگے ، یہ ہمارے لیے ایک نئی چیز تھی ، ہمیں بہت پسند آئی ، ذوق شوق اور پورے انہماک کے ساتھ اس کی کہانیوں میں ہم کھو گئے ، بندروں والی اس کی ایک کہانی نے تو ہمیں دیوانہ ہی کر دیا ۔ اب ہم میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ وہ رسالہ اسی کے قبضے میں رہے اور وہ اسے حرز ِ جان بنائے رکھے ۔ بالآخر جنگ کی نوبت آن پہنچی اور ہوئی بھی ۔جانی نقصان تو کچھ نہیں بلکہ مالی بھی نہیں ؛ بس ذرا سا جذباتی نقصان یہ ہوا کہ آپس کی چھینا جھپٹی میں ہماری محبوب و معشوق کتاب شہید ہو گئی ۔
جب حصول ِ تعلیم کے لیے دیوبند جانا ہوا اوروہاں کی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا تو ایک نئے ماحول سے سابقہ پڑا ۔ ویسے بھی یہاں کا قیام میرے لیے ایک نیا تجربہ ثابت ہونے جارہا تھا ۔ ہر طرف پڑھنے لکھنے کا چرچہ ، کہیں تقریر اور زبانی مشق و مزاولت کا غلغلہ توکہیں تحریری مسابقت کی ہوڑ، کہتے ہیں نا کہ ماحول سب سے بڑا استاذ ہوتا ہے ۔ اسی فضا میں راقم کے اندر مطالعے کی جوت جگی ،کچھ مشفق اساتذہ نےاپنے مفید مشوروں سے نوازا اور بعض مخلص احباب نے بھی رہنمائی کی۔ اس سلسلے میں استاذ محترم مولانا سلمان بجنوری اور مفتی اسعد اللہ سلطان پوری کی ذات گرامی سرِفہرست ہے اور دوستوں میں شاداب سہیل اور مظہر سوپولوی کے نام یاد رکھے جانے کے لائق ہیں ۔ کچھ کتابوں نے اندرون کو جنجھوڑااورکچھ نے کھردری راہوں پہ چلنا سکھایااور منزل کا راستہ آسان کیا ۔ ایسی پیاری کتابوں کی کہکشاں میں مولانا علی میاں کی ‘ پاجا سراغ ِ زندگی’ ،شیخ عبد الفتاح ابو غُدہ کی’ وقت کی اہمیت ‘ ، مولانا محمد ساجد قاسمی کی ‘ تحصیل ِ علم میں اسلاف کی قربانیاں’ ، مولانا محمد اسلم قاسمی شیخو پوری کی ‘بڑوں کا بچپن ‘، مولانا محمد عمران خان ندوی کی ‘ مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ‘، مولانا عبد الماجد دریابادی کی ‘ آپ بیتی’ ، شورش کاشمیری کی ‘ شب جائے کہ من بودم’،مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ‘روائع ِ اقبال’ کا اردو ترجمہ ‘ نقوش ِ اقبال ‘(پروفیسر شمس تبریز خاں قاسمی )، ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کی کتاب ‘ وہ جو شاعری کا سبب ہوا’اور ماہنامہ ‘رفیق ِ منزل ‘دہلی (مطالعہ نمبر) جیسی کتابیں بطور خاص شامل ہیں ۔ ان کتابوں نے میری مطالعاتی زندگی میں جوالہ مکھی کا کام کیاجس کی چنگاری آج بھی گرم اور روشن ہے۔
آج کے اس ڈیجیٹل عہد میں بھی دیوبند میں کتابوں کا کلچر کسی قدر بحال ہے اور پندرہ بیس سال قبل تو یہ روایت مزید مستحکم تھی، طلبہ کے مختلف پروگرام منعقد ہوتے اور طلبہ کو انعامات سے نوازا جاتا اور بیشتر کتابوں ہی کی صورت میں انعامات دیے جانے کا رواج تھا اور آج بھی ہے ۔اساتذہ کی طرف سے بھی ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی تلقین کی جاتی جن سے طلبہ میں وقت کی اہمیت اور آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ ملے ، ساتھ ہی زبان و بیان بھی پختہ ہو اور اسلوب و انداز بھی درست و شگفتہ ہو ۔ اس سلسلے میں راقم نے غالباً سب سے پہلے مولانا علی میاں کی ” پاجا سراغ ِ زندگی ” خریدی ، اس کے نام ہی میں دلکشی محسوس ہوئی لیکن مطالعے کے بعد اس نے مزید سحر زدہ کیا اور اس نکتے کی طرف رہنمائی کی کہ ایک طالب علم کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے اور عملی زندگی میں کیوں کر انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔ سچ پوچھیے تو اس کتاب سے کئی اہم کتابوں کے پڑھنے کی تحریک ملی ۔تحصیل ِ علم میں اسلاف کی قربانیاں ،وقت کی اہمیت اورنقوش ِ اقبال نے کتابوں کا ایسا دیوانہ بنایا کہ اپنی درسی مصروفیات کے علاوہ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی کتاب میرے ہاتھوں میں ہوتی ، چائے پیتے ، کھانا کھاتے ،قیلولہ کرتے ہوئے اور ٹرین و بس میں سفر کرتے ہوئے مطالعہ جاری رہتا ؛ آج بھی خالی بیٹھنا میرے لیے بہت دشوار ہوتا ہے ۔
وہ جو شاعری کا سبب ہوا ،بھی بڑی البیلی کتاب ہے ، ویسے تو کلیم عاجز مرحوم نےاس کتاب میں اپنے ، گھر ، خاندان اور پورے گاؤں کی شکست و ریخت کی خونی داستان رقم کی ہے اوراپنے گاؤں کی سنگی مسجد کی زبانی اپنی آپ بیتی ہمیں سنائی ہے ۔ کوئی بھی اس داستان کو پڑھ کر چھلک اٹھتا ہے اور بمشکل ہی اپنے آنسو روک پاتا ہے لیکن شاعر غمزدہ کے لہجے میں بجائے شکوہ شکایت اور نفرت و عداوت کے لفظ لفظ میں محبت کی خوشبو، حرف حرف میں صبر و شکیبائی اور نقطہ نقطہ میں ہمت و حوصلے کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ عاجز مرحوم کی یہ کتاب کٹھن وقتوں میں ہمیں جینے کا حوصلہ بخشتی ہے ۔
شورش کی ‘شب جائے کہ من بودم’ اور دریابادی کی آپ بیتی نے اردو ادب سے مصافحہ و معانقہ کرایا ۔ اول الذکر نے اردو زبان کی بلندی و برتری کو سمجھایا ، اس کی وسعت و ندرت کو بتایااور محبت کی اس زبان کی عظمت و وقعت دل میں بٹھائی ۔ اردو نثر میں پختگی پیدا کرنے کے لیے یہ کتاب تعویذ بنائے جانے کی مستحق ہے ۔ دریابادی کی آپ بیتی نے جوش بشمول ہوش اپنے اندر ذوق ِ مطالعہ کی طرح ڈالی اور انگلی پکڑ کر مضمون نگاری کی راہ دکھائی ۔ اس کتاب نے یہ بھی بتایا کہ ایک مبتدی مضمون نگار کو کن کن پگڈنڈیوں سے گزرنا پڑتا ہے ، کیوں کر ایک کامیاب مضمون نگار اور جاندار مصنف بنا جاسکتا ہے ؟دریا بادی نے اپنی اس کتاب میں یہ گُر بھی سکھایا کہ کیسے تھوڑے وقت میں زیادہ کام کیا جا سکتا اور کم لفظوں میں زیادہ معانی پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔ نوواردان ِ قلم کے لیے اس آپ بیتی کا مطالعہ میل کا پتھر ثابت ہوسکتا ہے ۔
نثری ادب میں مجھے خود نوشت سوانح ، خاکے اور سفرنامے بہت پسند ہیں بطور خاص حج کے سفرنامے ۔ اس سلسلے کی بھی درجنوں کتابیں پڑھیں لیکن آپ بیتی میں دریا بادی کی ‘آپ بیتی’ ، داکٹر کلیم عاجز کی ‘ وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘،علامہ سید
مناظر احسن گیلانی کی ‘ احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ‘ مولانا جعفر تھانیسری کی ‘ کالا پانی ‘اور شورش کاشمیری کی ‘بوئے گل، نالہ دل ، دودِ چراغ ِ محفل ‘کے مطالعہ نے دل میں عجیب بھونچال پیدا کیا تھا اور ذہن درد و کرب اور غم و مسرت کی مختلف کیفیات سے دوچار ہوا ۔ اول الذکر دو کی تفصیل اوپر آچکی ہے ۔علامہ گیلانی کی یہ آپ بیتی مکمل تو نہیں کہی جاسکتی لیکن دیوبند رہتے ہوئے کچھ اپنے اور کچھ دیگرطلبہ کی مصروفیات، ان کے مشغلے اور دارالعلوم دیوبند کے علمی جاہ و جلال ، دینی شوکت اور ادبی شان کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے یا تو خود اسی فضا میں گم ہوجاتا ہےیا پھر وہ ان مناظر کو دیکھنے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ کتاب زبان و بیان کے لحاظ سے بھی اور اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی لائق ِ مطالعہ ہے ۔ کالا پانی ایک مجاہد ِ آزادی کی دردناک داستان ہے ، کچے ذہن کو اس کے مطالعے سے بچنے ہی میں عافیت ہے تاہم کتاب اپنے اندر بے پناہ دلکشی رکھتی ہے اور ساتھ ہی وطن پر جان نچھاور کرنے والے متوالوں کی لازوال قربانیوں کے بہت سے اسرار بھی ۔شورش کی آپ بیتی محض آپ بیتی نہیں؛تحریک آزادی ہند کی تاریخ کا ایک اہم باب بھی ہے ۔ اس میں ہندو مسلم کی قربانیوں ، باہمی رویوں ، فرقہ وارانہ فساد کی جڑوں اور سفید پوشی میں کالے دلوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ شورش کا تعلق احرار سے تھا اور وہ خود ایک پریکٹیکل مسلمتھے تاہم ؛ جانبداری ، تعصب اور ناانصافی سے کوسوں دور تھے ۔انھوں نے اپنی آپ بیتی کتاب پڑھ کر نہیں زندگی کا مطالعہ کرکے لکھی تھی ۔تقسیم ہند پر یہ کتاب ایک قیمتی دستاویزکا درجہ رکھتی ہے ۔اس کا سب سے بڑا امتیاز غیر جانبدارانہ اسلوب ہے ۔ انداز ِ نگارش انتہائی البیلا اور اچھوتا ہے اور معلومات سے بھرپور اس کتاب کا مطالعہ ہر ہندوستانی کو کرنا چاہیے۔
اردو خاکوں میں منٹو کے خاکوں نے بہت متاثر کیا اور حال کے خاکوں میں پروفیسر غضنفر کے خاکے مجھے بے حد پسند ہیں کہ معلومات کی فراوانیوں کےباوجود افسانوی طرز پر یہ خاکے ڈھلے ہیں ۔ ان میں اسراف کے بجائے کفایت ِ الفاظ کی رعایت ملتی ہے ۔ منٹو کی کتاب ‘ گنجے فرشتے ‘ اور ‘ لاؤڈسپیکر ‘ 1937 سے 1948 تک کی فلمی دنیا ممبئی کا ایک خوبصورت تاریخی البم ہیں۔ ان میں چراغ حسن حسرت ، ستارہ اور رفیق غزنوی کے خاکے کم از کم اس درجے کے تو ضرور ہیں کہ ان پر مقدمے قائم ہوتے لیکن پتہ نہیں کیوں قائم نہیں ہوئے ، ممکن ہے یار لوگوں کے تحت الشعور میں یہ بات ہو کہ ان کے اس اقدام سے منٹو کا قد کہیں ایک مشت اور نہ بڑھ جائے ۔ یہ خاکے خاکہ نگاروں کے لیے ایک رہنما کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی غضنفر کے خاکوں کے مجموعے ‘سرخ رو’ اور ‘روئے خوش رنگ ‘بھی تخلیقیت اور زبان و بیان کی چاشنی سے بھرپور ہے۔ انھیں معلومات کے لیے کم اور فن خاکہ نگاری سے واقفیت کے لیے زیادہ ، کے بطور پڑھنا چاہیے ۔
سفرنامے بھی درجنوں پڑھے ،ان میں مفتی تقی عثمانی کی ‘ جہانِ دیدہ ‘ ، ‘ شبلی کی ‘ سفرنامہ روم و مصر و شام ‘ اور مولانا منت اللہ رحمانی کی ‘ سفر مصر و حجاز ‘ایسی کتابیں ہیں جو ذہن کووسعت اورنظر کو کشادگی عطا کرتی ہیں ۔ جہان ِ دیدہ اسم با مسمیٰ کتاب ہے ، شاید اردو کا یہ پہلا سفرنامہ ہے جو بیس ملکوں کے اسفار پر محیط ہےاور وہاں کی جغرافیائی ،تاریخی ، دینی ، علمی اور تہذیبی احوال کا ایسا مرقع پیش کرتاہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے خودکو ان ممالک کی سیر کرتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ ویزا پاسپورٹ کی جھنجھٹ کے بغیر اگر کوئی بیس ملکوں کی سیر کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔شبلی اور رحمانی کے سفر کے بیچ (1894-1964)ستر برسوں کا وقفہ ہے تاہم دونوں کے سفرناموں میں نقطہ مشترک یہ ہے دونوں میں متعلقہ ممالک کا تعلیمی سروے پیش کیا گیا ہے ۔ ایک میں بطور خاص قدیم ترکی کا اور دوسرے میں مصر کا ۔ اُس وقت یہ کتابیں تعلیمی صورت حال کا نمونہ تھیں اِس وقت یہ کتابیں ان ملکوں کی تعلیمی تاریخ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ شبلی کا سفر بحری اور طویل تھا اس لیے دوران ِ سفر کئی واقعات پیش آئے جنھیں بڑے پرلطف انداز میں سفرنامہ نگار نے بیان کیا ہے اور رحمانی کا سفر ہوائی اور مختصر تھا اس لیے سفرنامہ بھی مختصر ہی ہے تاہم دونوں سفرناموں میں زبان و بیان کی لطافت اور اسلوب و انداز کی شائستگی و برجستگی ہر جگہ برقرار ہے ، شبلی کی نثر تو جادو اثر ہے ہی لیکن رحمانی کی نثر بھی آبشاری ہے اور قاری کو قابو میں رکھنے کا ہنر رکھتی ۔
اس کورونائی عہد اور لوک ڈاؤن کے زمانے میں بھی کئی کتابوں کے پڑھنے کا موقع ہاتھ آیا ۔ ‘سفر مصرو حجاز’ اور’ بوئے گل’ کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔ ایک اور کتاب ‘ کتابیں ہیں چمن اپنا ‘ کے مطالعے سے بھی ذہن آسودہ ہوا ۔ یہ کتاب عبد المجید قریشی کی ہے جو علی گڑھ کے فاضل اور ملتان کے رہنے والے ہیں ۔ کتابوں سے ان کا عشق ، ان کا لگاؤ اور ان کی دیوانگی قابل ِ دید و داد ہے ۔ ان کے ان ہی جذبات و احساسات کا ایک خوب صورت البم یہ کتاب ہے ۔
جناب اسے کتاب کیا کتابی کائنات کہیے ۔ بیک وقت یہ کتاب دنیا بھر میں بسے اپنے خاندان کی مختلف شاخوں سے باتیں کراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آپ بغیر کسی ْ ہرے پھٹکری ٗ کے بیٹھے بٹھائے دنیا کی کئی اہم لائبریریوں کی سیر کر لیتے ہیں اور سینکڑوں ادبا و شعرا اور اہل قلم سے آپ کی بات و ملاقات ہوجاتی ہے ۔ بھئی کتابوں کا عاشق ہو تو عبد المجید قریشی جیسا ؛بلکہ عاشقِ زار کہہ لیجیے ! کتابوں کو ماں جیسا پیار دینے والے اس دیوانے کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ کتاب بد صورت ہو ، کمزور ہو ، اسے ٹھوکر لگ جائے ، اس پر دھول جم جائے ، اس کا ورق مڑ جائے ، کتاب پر کوئی کچھ لکھ دے ؛ یہاں تک کہ ڈاک سے آئی کتاب پر بندھی رسی کا داغ بھی اس کے لیےنا قابل ِ برداشت تھا ۔
کتاب کی تمام رنگا رنگی کے ساتھ مصنف کی علیگیریت ، سرسیدی اسلوب اور مجازی شعریت ، لکھنؤ کے ٹونڈے کباب ، دہلی کی نہاری اور حیدر آبادکی بریانی کو بھی پیچھے چھوڑ تی محسوس ہوتی ہے۔اس البیلی کتاب کے مطالعے سے جہاں کتابوں سے عشق اور مطالعے کا ذوق بیدار ہوتا ہے وہیں وہ آج کے ایام ِ نظر بندی کی وحشت کو مانوسیت سے بدلتی ہے اور اس کی تنہائی سے دوستانہ بھی قائم کر دیتی ہے ۔ اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ مصنف نے اپنے اس کتابی انسائیکلو پیڈیا کو کائنات کی تمام کتابوں کی ماں قرآن مجید سے منسوب کیاہے ۔

You may also like

Leave a Comment