عبدالباری قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی
ذکرِ اقبال شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ کے سوانحی احوال و کوائف کا مجموعہ ہے، جسے مولانا عبدالمجید سالکؔ جیسے اعلیٰ درجہ کے قلمکار، صحافی، افسانہ گارا ور شاعر نے مرتب کیا ہے،سالکؔ ایک اعلیٰ درجہ کے قلمکار تھے، ان کے قلم میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو کسی قلمکار کو اعلٰی مقام پر پہچاتی ہیں ، عبدالمجید سالکؔ نے یہ اہم سوانحی خاکہ بزم اقبال لاہور کی فرمائش پر مرتب کیا ، چوں کہ سالک ؔ کو چوتھائی صدی سے زیادہ کا عرصہ علامہ اقبال کی صحبت میں گذارنے کا اتفاق ہوا، اور اقبال کے ساتھ ساتھ ان کے دوست ،رفقاء، اعزا،اقربا اور احباب سے بھی نیاز مندی کا زیادہ موقع ملا، اس لیے سالک ایک بہترین سوانح مرتب کر سکتے تھے اور انہوں نے ایک بڑی حد تک اس حق کو ادا بھی کیا اور اقبال کی پیدائش سے لے کر وفات تک اور افکار و خیالات سے لیکر تصانیف اور اساتذہ اکرام تک ، داخلی زندگی سے لے کر خارجی تک اور عادات و اطوار سے لے کر اخلاق و کردار تک عبدالمجید سالک کے ہر پہلو پر نہایت ہی خوبصورتی سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے ایسی نژنگاری کا نمونہ پیش کیا ہے کہ جس میں سلاست وروانگی بھی ہے، تصویر کشی بھی، افسانویت بھی ہے تو حقیقت و اقعیت بھی، اثر آفرینی بھی ہے اور سادگی بھی غرض ایک سوانحی کتاب میں جتنی خوبیاں ممکن ہیں ساری پائی جارہی ہیں، ان خوبیوں کی وجہ سے کتاب کی اہمیت دوبالہ ہوگئی ہے اور چوں کہ عبدالمجید سالک ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے ، اس لیے اس انداز سے خشک سے خشک موضوع کو بھی پیش کرتے ہیں کہ قاری بوجھل ہونے کے بجائے کچھ اور کچھ اور کی کیفیت میں مبتلا ہوجا تا ہے اور اسے احساس نہیں ہوتا کہ وہ کوئی سوانحی کتاب پڑھ رہا ہے یا افسانہ، سالکؔ کا کمال ہے ،کہ انہوں نے علامہ اقبالؔ کی زندگی کے ہر پہلو پر گفتگو اس انداز سے کی ہے کہ قاری جہاں سے چاہے پڑھتا ہی چلا جائے ۔اس میں جہاں ایک طرف علامہ اقبال کی پہلودار اور پرکشش شخصیت کا دخل ہے وہیں سالکؔ جیسے ماہرقلمکار ، صحافی اور افسانہ نگار کا بھی اور ساتھ ساتھ سالک کو اقبال سے تلمذ کا بھی شرف حاصل تھا اس لیے عقیدت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے جواں اور رواں قلم کو جنبش دے رہے تھے، اس باب میں تو کسی کا انکار نہیں سالکؔ نے اقبال کی شخصیت جس معلوماتی اور خاص انداز سے مرتب کی اس طرح آج تک کسی نے نہیں کی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مواقع پر سالک کے قلم نے اقبال کے سلسلہ میں ایسے جملے بھی لکھ دیے جس سے اقبال کی شخصیت پر حرف نظر آتا ہے اسے بعض حضرات نے سالک کی جرأت اور انصاف پسندی سے تعبیرکی ہے توو ہیں کچھ حضرات نے اس کی مخالفت بھی کی ہے حمایت کرنے والوں میں ڈاکٹر ممتاز فاخرہ اور ڈاکڑ محمد نسیم الدین فریس وغیرہ ہیں تو مخالفت کرنے والوں میں شورش کاشمیری جیسے قلمکار ہیں انہوں نے ’’اقبالی مجرم‘‘ نامی کتاب میں ذکرِ اقبال اور عبدالمجید سالک کے اس رویہ پر جم کے طعن کی ہے البتہ عبد المجید سالک کی زندگی جس طرح سادی ہے اسی طرح ان کی تحریر اور اسلوب بھی سادہ ہے اور تصنع کی جگہ اور آمد کی کیفیت ہے۔
عبدالمجید سالکؔ : مولاناعبدالمجید سالکؔ شاعر، نثر نگار اور اعلیٰ درجہ کے صحافی تھے،12دسمبر 1894ء کو بٹالہ ضلع گرداس پور میں پیدا ہوئے، قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور 1914ء میں ’’رسال�ۂ فانوس خیال‘‘ جاری کیا ،ا س کے بعد پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور یکے بعد دیگرے رسائل نکالتے ہوئے روزنامہ انقلاب تک پہنچے، اس میں’’افکار و حوادث‘‘ کے نام سے ان کا کالم مشہور تھا ، اسی میں انہوں نے اپنی آپ بیتی سرگذشت کے نام سے جاری کیا، ابتدائی تعلیم اینگلو عر بک کالج سے ہوئی ، انہوں نے تنقید، ادب ،شاعری اور سوانح نگاری وغیرہ پر مشتمل تقریباََ بیس سے زائد کتابیں تصنیف کیں جس میں ذکرِ اقبال اور مجموعۂ کلام راہ و رسم منزلی شامل ہے ، 27 ستمبر1959 کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔
ذکرِ اقبال کے مشمولات کا ایک جائزہ: ذکرِ اقبال نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال کی مکمل سوانح ہے، بلکہ اردو کی ابتدائی اور اہم سوانحی شاہکار کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے ، تبھی تو شورش کا شمیری نے سالکؔ کے قلم کو باغ و بہار سے تعبیر کیا۔ یہ کتا1955ء میں بزم اقبال نر سنگھ کارڈن کلب روڈ لاہور سے شائع ہوئی اور یہ ایسی کتاب ہے جس میں علامہ کے آباؤ اجداد سے لے علامہ کے وفات تک کے احوال انتہائی باریکی سے موجود ہیں ، یہ سات ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب کا عنوان ’’اقبال کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے ہے اس میں سالک نے تین فصل قائم کر کے اقبال کے آباؤ اجداد سے لے کر تعلیم و تربیت اور شاعری کی ابتدا تک کا تذکرہ کیا ہے۔دوسرا باب ’’اقبال زندگی کی شاہ راہ پر‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس میں سالک نے پانچ فصل قائم کر کے ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک اقبال کے حالات قلم بند کیے ہیں، تیسرا باب مرض الموت اور انتقال پر مشتمل ہے ، چوتھے باب میں اسلوب زندگی پر گفتگو کی ہے، پانچویں باب میں علامہ اقبال کے مختلف موضوع پر ارشادات وفرمودات کو نقل کیا ہے، چھٹے باب میں اقبال کے سب سے خاص استاد مولانا میر حسن کے حالات لکھے ہیں اور ساتویں و آخری باب میں علامہ اقبال کی تصانیف کامختصر جائزہ پیش کیا گیا جس سے علامہ کی پوری زندگی اور پورا فن ایک جگہ جمع ہوگیا ہے، بالفاظ دیگر سالک نے اقبال کی سوانح پر مشتمل ایسا’’جام جمشید‘‘ تیار کر دیا ہے جس میں اقبال کے جس پہلو کو جب چاہیں دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔
ذکرِ اقبال لکھنے کی وجہ: علامہ اقبال کی شخصیت شروع سے ہی اس قدر متعارف تھی کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے افکار و خیالات اور فن پر کتابیں منظرِ عام پر آنے لگیں تھیں اور ہندوستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی اقبال کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پسند کیا جارہاتھا ، مگر اقبال کے انتقال کے دو دہائی گذرجانے کے باوجود بھی کوئی ایسی کتاب منظرِعام پر نہیں آئی تھی جس میں اقبال کے داخلی و خانگی معاملات و حقائق کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے پر پہلو پر گفتگو کی گئی ہو، چوں کہ عبد المجید سالک تقریباََ پچیس سال تک اقبالؔ کے ساتھ رہ چکے تھے اور اقبال کے دوست، شاگرد اور عقیدت مند بھی تھے ، اس لیے بزم اقبال لاہور نے عبد المجید سالک سے یہ کتا ب لکھوائی جس کا اظہار عبد المجید سالک نے ذکرِ اقبال کے مقدمہ میں ان الفاظ میں کیا ہے
’’جب بزمِ اقبا ل نے مجھے حکم دیا کہ میں علامہ اقبال کے سوانحی حالات مرتب کروں تو میری سمجھ میں نہ آیا کہ جس شخص کی زندگی علی العموم گوشہ نشینی اور خلوت نشینی میں بسر ہوئی اور جو دنیا و مافیہا سے بے پروا آغاز سے انجام تک اپنے فکر کی ہی دنیا میں سر گرداں رہا، اس کی زندگی کے واقعات ایک مقالے کی صورت میں مرتب ہوسکیں تو ایک پوری کتاب کا مواد کیوں کرمہیا ہوگا۔‘‘ (ص ؛۳، ذکرِ اقبال)
اس کشمکش کے باو جود بھی عبد المجید سالک نے وہ کا م کردیا جوا س سے قبل نہیں ہوا تھا اور ،296 صفحات پر مشتمل پوری کتاب تیار کردی، جس میں پیدائش سے لے وفات اور فکر سے لے کر فن تک ہر پہلو پر کچھ نہ کچھ گفتگو ہوتی ہے۔
زبان: ذکرِ اقبال میں عبدالمجید سالک نے اوسط درجہ کی عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ نہ نوطرزِ مرصع کی طرح تکلف و تصنع سے پر زبان ہے ، نہ ہی بالکل دیہاتی زبان کہ خواص کا طبقہ اس سے اجتناب کرے، بلکہ ایسی صحافتی زبان استعمال کی ہے جسے عوام و خاص سب پڑھ سکیں اور ساتھ ساتھ اس پہلو کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا کہ طبقۂ خواص کو پڑھتے ہوئے پھیکے پن کا احساس نہ ہو، بلکہ جا بجا عالمانہ استدلالی ز بان سے بھی کام لیا ہے۔ انگلش، عربی اور فارسی کے بھی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ مگر بر محل اور مقدار کے موافق، بے جا قافیہ پیمائی کی بالکل کو شش نہیں کی ، ذکرِ اقبال سے ایک اقتباس جسے پڑھ کر بہ آسانی جزوی طور پر ا س کی زبان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’’گلینسی کمیٹی کی سفارشات یہ تھیں کہ کشمیر میں پوری مذہبی آزادی ہو، عبادت گاہوں کو سرکاری قبضے سے نکال کر عوام کے سپرد کر دیا جائے، تعلیم عام کی جائے ، ابتدائی مدارس زیادہ تعداد میں کھولے جائیں، مدرسین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایک خاص عہدہ دار مقرر کیا جائے، تمام ملازمتوں کا باقاعدہ اشتہار دیا جائے اور ہر فر قے کو متناسب حصہ دیا جائے۔‘‘ (ص؛۱۷۴، ذکرِاقبال)
اسلوب اور انداز پیشکش: عبدالمجید سالک صحافی، شاعر اور افسانہ نگار تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ صحافت اور مضمون نگاری میں گذرا تھا ، اس لیے ان کا اسلوب بھی اطلاعی تھا جسے انگریزی میں Informative Style سے تعبیر کیا جاتا ہے، البتہ انہوں نے سادگی، سلاست و روانی ، افسانوی انداز، حقیقت نگاری اور منظر کشی کے جو نمونے پیش کیے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں انہوں نے اقبال کی زندگی کے ہر پہلو کی منظر کشی بہت خوبصورتی سے کی ہے اور پوری کتاب میں مقدمہ سے لے کر آخر تک ایک ہی اسلوب نظر آتا ہے، انہوں نے اس کتاب میں خوبیوں کے علاوہ اقبال کی کچھ خامیوں کی بھی نشاندہی کی ہے شورش کشمیری نے ان کے متعلق لکھا ہے۔
’’مولاناسالک ایک باغ و بہار ادیب تھے ان کے سیاسی خیالات سے قطعِ نظر انہیں قلم پر قدرت حاصل تھی۔‘‘(ص؛۲۳، اقبالی مجرم)،
ذکرِ اقبال کے اسلوب کو اس اقتباس سے سمجھا جا سکتا ہے ۔
’’مدت دراز سے علا مہ کے دماغ میں تجویزِ گردش کر رہی تھی کہ ایک علمی مرکز قائم کیا جائے، جہاں دینی و دنیا وی علوم کے ماہرین جمع کیے جائیں اور ان ماہرین کو خوردونوش کی فکر سے بالکل آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ ایک گوشے میں بیٹھ کر علامہ کے نصب العین کے مطابق اسلام، تاریخ اسلام، تمدنِ اسلام، ثقافت اسلامی اور شریعت اسلامی کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دنیا ئے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں‘‘ (ص؛۲۱۲ ، ذکرِ اقبال)
اس اقتباس سے ذکرِ اقبال کے اسلوب کے فطری پن ، سلاست و روانگی اور اطلاعاتی اسلوب کو سمجھا جا سکتا ہے۔
سادگی و سلاست: ذکر اقبال کی ایک اہم خاصیت جس نے اسے ممتاز مقام پر پہنچایا ہے وہ سادگی اور سلاست ہے،سادہ زبان کے ساتھ ساتھ اسلوب و انداز پیش کش بھی سادہ ہے اور نہایت ہی بھولے بھالے انداز میں لکھتے چلے جاتے ہیں ، تکلف اور آوردگی کی بالکل کوشش نہیں کرتے ، ابتدا سے لے کر انتہا تک پوری کتاب میں ’’آمد‘‘ کی ہی کیفیت نظر آتی ہے،شروع سے آخر تک کہیں ایسا انداز اختیار نہیں کیا جس سے سالک کی عقیدت پر شبہ ہو، اس کے باوجود کچھ چیزیں ایسی لکھ گئے جو علامہ کے خیالات کے بر عکس ہے۔ سادگی و سلاست کا اندازہ اس اقتباس سے لگا یا جا سکتا ہے ۔
’’عطائے خطاب پر اقبال کو مسلم ، ہندو سکھ معززین لاہور کی طرف سے مقبرۂ جہاں گیر(شاہدرہ لاہور) میں ایک عظیم الشان پارٹی دی گئی، جس میں پنجاب کے تمام سرکاری وغیرہ سرکاری عمائدہ و حکام شامل ہوئے، اقبال نے اس موقع پر انگریزی مین تقریر کی اور اس میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا نام پیام مشرق ہوگا۔‘‘(ص؛ ۱۱۷، ذکرِ اقبال)
حقیقت نگاری: عبدالمجید سالک گرچہ شاعر، افسانہ نگار اور صحافی تھے،مگر ان کی زیادہ شہرت صحافی ہی کی حیثیت سے تھی، بعد میں انہوں نے ذکرِ اقبال اور سرگذشت لکھ کر سوانح نگاری کے باب میں لوہا منوایا۔ چوں کہ عام طور پر صحافیوں کا ذہن متجسانہ ہوتا ہے ہمیشہ بال کی کھال نکالنے کی کوشش ہوتی ہے یہی معاملہ سالک کا بھی تھا، ذکرِ اقبال میں بھی انہوں نے اسی وصف کو اختیار کیا اور داخلی و خارجی ان چیزوں کو بھی منظر عام پر لائے جن سے اقبال کی شخصیت مجروح ہوتی ہے۔انہوں نے سیکڑوں الفاظ عقیدت والے لکھے مگر چند بشری کمزوریوں اور زبان و لب و لہجہ تک کے سقم کی پردہ پوشی نہیں کی بلکہ اسے بھی تحریر کیا، اس تعلق سے ڈاکٹر نسیم الدین نے لکھا ہے کہ :
’’ انہوں (سالک) نے اقبا ل کی زندگی کے ظاہری و باطنی کیفیات، رحجانات ، خیالات اور کارناموں کی سچی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے ایک دیانتداری سوانح نگار کی طرح اقبال کی بعض بشری کمزوریوں مثلاََ پنجابی تلفظ و لب و لجے کا بھی ذکر کیا ہے‘‘(ص؛ ۱۰۰، غیر افسانوی نثر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)
اس اقتباس اور ذکرِ اقبال کو پڑھ کر حقیقت نگاری کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
عہدِ اقبال کی سیاسی و سماجی منظر کشی: سالک نے ذکرِ اقبال میں جہاں اقبال کے سوانحی کو ائف میں باریک سے باریک تر چیزوں کو ڈھو نڈ کر لانے کی کوشش کی ہے اور جزئیات نگاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس عہد کے سماجی و سیاسی حالات کی بھی بہت ہی اچھے انداز سے منظر کشی کی ہے اور اس وقت جو تحریکات چل رہی تھیں اور ان کے متعلق اقبال کے کیا نظریات تھے اس پہلو کو بھی سنجیدگی سے ذکر کیا ہے اور سالک نے رد بھی کیا ہے، خواہ قادیانیوں کا معاملہ ہو یا ہندو مسلم اختلاف کاسبھی کی طرف اشارہ کرنے کوشش کی ہے، قادیانی کے متعلق اقبال کے نظریے کی سالک نے بڑے دھیمے انداز میں تردید کی ہے۔
’’خدا جانے علامہ اقبال نے کسی عقیدت مند کی درخواست پر ایک مضمون لکھ دیا جس میں بتا یا کہ اس فرقے کی بنیاد غلطی پر ہے ۔‘‘ (ص؛۲۱۰ ،ذکرِاقبال)
اس وقت ملکی سیاست کا کیا رنگ تھا اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔
’’ملکی سیاست کا رنگ یہ تھا کہ ایک طرف مختلف مقامات پر ہندو اور مسلم عوام کے درمیان ذبیح گاؤ، مساجد کے سامنے باجا بجانے اور جلوس نکالنے اور شدھی وتبلیغ کے سلسلہ میں فسادات ہورہے تھے۔‘‘(ص؛۱۳۸ ذکرِاقبال)
اثر آفرینی: ذکرِ اقبال میں عبدالمجید سالک نے جس نثر نگار ی کا نمونہ پیش کیا ہے، اس کی ایک اہم خصوصیات اثر آفرینی بھی ہے، شروع کتاب سے آخر تک کتاب کے جس حصہ کو بھی پڑھیے ایسا لگتا ہے کہ قرأت کے ساتھ ساتھ دل پر بھی نقش ہوتا چلا جاتا ہے، اس باب میں سالک کو مہارت حاصل ہے کہ ایسے اسلوب میں ڈھالا جوئے کہ حیرت انگیز طور پر قاری کے دل پر اثر کرے اور وہ متاثر ہو۔
افسانویت:عام طور پر حقیقت اور افسانہ ضد کے طور پر بولا اور الکھا جاتا ہے، مگر سالک نے اپنے اس معرکۃ الآراکتا ب میں ا ن چیزوں کو جمع کر دیا ہے۔ چوں کہ سالکؔ افسانہ نگار تھے۔ا س لیے افسانوی رنگ اور ہنر کا پایا جانا ان کی نثر میں لازمی امر تھا ، مگر بعض ایسی چیزیں بھی اقبال کے متعلق تحریر کر دی جن کو افسانہ ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، دیکھیے اس اقتباس میں کیسے افسانہ نگاری کا جوہر دکھلا یا ہے۔
’’ رنگ رلیوں کا ذکر آگیا تو یہ بھی سن لیجیے کہ اقبال عنفوان شباب میں اپنے عہد کے دوسرے نوجوانوں سے مختلف نہ تھے، بلا شبہ وہ مصری کی مکھی ہی بنے رہے، شہد کی مکھی کبھی نہیں بنے، لیکن آج بھی ان کے بعض ایسے کہن سال احباب موجود ہیں جوا س گئے گذرے زمانے کی رنگین صحبتوں کی یاد کو اب تک سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔‘‘ (ص؛ ۷۰-۷۱، ذکرِ اقبال )
خلاصہ: عبد المجید سالک ایک باغ و بہار قلم کے مالک شخص تھے، افسانہ نگار، شاعر اور صحافی کی حیثیت سے مقبول و متعارف ہوئے ایک درجن سے زائد قلمی تصانیف ان کی قابلیت پر دال ہیں، ذکرِ اقبال کے نام سے انہوں نے اقبال کی سوانح عمری مرتب کی اور اقبال کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے ذکر کے ساتھ ساتھ اقبال کے عہد اور ان کے فن کو بھی بہت ہی سلیقے سے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔ سالک نے یہ کتاب اقبال کے انتقال کے دو دہائی گذرنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں لکھی، اسے اقبال کی اولین سوانحی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ سوانح نگاری کے اہم ترین کتابوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ زبان و بیان ، اسلوب و انداز پیش کش ، حقیقت نگاری اور منظر کشی تمام ہی خوبیوں سے مزین ہے اور جزیات بھی بڑے سلیقے سے لکھا ہے، ادبی اعتبار سے بھی اس کی حیثیت مسلم ہے اور بہت سے تعلیمی اداروں میں داخلِ نصاب ہے۔
9871523432