Home تجزیہ ذکر دو افطار پارٹیوں کا – سہیل انجم

ذکر دو افطار پارٹیوں کا – سہیل انجم

by قندیل

رمضان المبار ک کا مقدس مہینہ رخصت پذیر ہے۔ اس ماہ کی بہت سی نمایاں خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت افطار پارٹیوں کا اہتمام بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب پورے ملک میں افظار پارٹیوں کی دھوم رہا کرتی تھی۔ یہ پارٹیاں مختلف شعبہ ہائے حیات اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے دی جاتیں۔ یہ پارٹیاں سماجی ہم آہنگی اور برادرانہ و فرقہ وارانہ میل ملاپ کا اہم ذریعہ تھیں۔ سیاسی افطار پارٹیوں کا اپنا الگ مزا تھا۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے وہ تعلقات استوار کرنے کا بہانہ تھیں۔ وہ منظر بڑا ہی دیدنی ہوتا جب مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب کے افراد ایک جگہ جمع ہو کر غروبِ آفتاب کا انتظار کرتے اور وقتِ افطار ہوتے ہی سب ایک ساتھ لذت کام ودہن سے لطف اندوز ہوتے۔ وہیں باجماعت نماز کا اہتمام بھی ہوتا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ انسانی ہمدردی، اخوت و محبت اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے جذبے کو فروغ دینے کا ذریعہ تھا۔ اب ہندوستان میں ایسا ماحول بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ صدر، نائب صدر، وزیر اعظم، مرکزی وزرا اور سیاسی جماعتوں کے صدور کی جانب سے افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ صرف بند ہو گیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے اس کو جرم سمجھا جانے لگا ہے۔ لیکن اس حوصلہ شکن ماحول میں بھی کچھ لوگ ہیں جو اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور افطار پارٹیوں کا اہتمام کرکے نفرت و کدورت کے غبار کو صاف کرکے میل جول کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہواؤں کے لیے فضا سازگار کرتے رہتے ہیں۔ میں عام طور پر ایسی افطار پارٹیوں میں شرکت سے گریز کرتا ہوں جن کا مقصد نام وونمود ہوتا ہے۔ خاص طور پر بھیڑ بھاڑ والی پارٹیوں سے دور ہی رہتا ہوں۔ لیکن آج میں ایسی دو افطار پارٹیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو دو مختلف بلکہ متضاد نظریات کی حامل شخصیات کی جانب سے منعقد کی گئیں اور جو یقیناً فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنیں۔ پہلی افطار پارٹی کا اہتمام سماجی کارکن، دانشور اور سیکولر نظریات کے حامل او پی شاہ نے کی اور دوسری کا ایک سماجی کارکن، کاروباری اور ایک بی جے پی لیڈر کی جانب سے کیا گیا۔
اوپی شاہ ’سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس‘ کے چیئرمین ہیں۔ وہ گزشہ چالیس برسوں سے کلکتہ میں افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ دو سال سے ان کا قیام دہلی میں ہے اور یہاں بھی وہ افطار پارٹی دیتے ہیں۔ لیکن ان کی پارٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک تو ان کے اہل خانہ، بیٹا، بیٹی اور داماد سب دیدہ و دل فرش راہ کیے رہتے ہیں اور دوسرے وہ صرف دس بیس منتخب افراد کو ہی مدعو کرتے ہیں اور وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی سماجی خدمات ہیں اور جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور جو فسطائی نظریات کے مخالف ہیں۔ گزشتہ سنیچر کو دہلی کے پنچ شیل پارک میں واقع ان کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والی افطار پارٹی میں جولوگ شریک ہوئے ان میں پاکستانی ہائی کمیشن کے چارج ڈی افیئرس سعد احمد وڑائچ، سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایر، سابق انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، جماعت اسلامی کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم، سوامی سشیل گوسوامی، فادر ایم ڈی تھامس، سرکردہ عیسائی رہنما جان دیال، کشمیری رہنما مظفر شاہ، قربان علی، اے یو آصف، ویمن پریس کور کی صدر بنی یادو، ماجد نظامی اور سرفراز احمد فراز قابل ذکر ہیں۔ یہ میری خوش بختی تھی کہ اوپی شاہ نے مجھے بھی مدعو کیا۔ اس محفل میں راقم الحروف کو چھوڑ کر باقی تمام لوگ قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ اوپی شاہ نے دو سوا دو گھنٹے قبل ہی لوگوں کو پہنچنے کا وقت دیا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر مذاکرے کا بھی اہتمام کیا جس کا موضوع ’اسلام‘ تھا۔ نفرت و تعصب کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک غیر مسلم کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والی تقریب میں اسلام پر گفتگو نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ شرکا میں سے بیشتر نے اظہار خیال کیا اور جہاں اسلام کی بنیادی باتوں اور ا س کی خوبیوں کا یہ کہتے ہوئے ذکر کیا گیا کہ آج اس کے اصول و نظریات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے وہیں موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال پر بھی کھل کر گفتگو کی گئی۔ تقریباً تمام لوگوں نے موجودہ حالات پر اظہار تشویش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ صورت حال ہر حال میں بدلنی چاہیے۔ یہ رائے بھی ابھر کر سامنے آئی کہ موجودہ صورت حال کو دوام حاصل نہیں ہے، جلد یا بدیر ذہنوں پر چھائے تاریکی کے بادل چھٹیں گے اور عقل و شعور کی روشنی پھیلے گی۔ پاکستانی چارج ڈی افیئرس نے جو باتیں کہیں ان کا ذکر زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ گو کہ اس کا براہ راست تعلق ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال سے نہیں ہے لیکن بالواسطہ تعلق ضرور ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ابھی ڈیڑھ ماہ قبل ہی سفارت خانے میں تعینات ہوکر آئے ہیں۔ یہاں آنے سے قبل ان کے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ وہ اجنبی لوگوں میں جا رہے ہیں۔ لیکن جب ہائی کمیشن میں کہیں دور سے مغرب کی اذان کی آواز سنائی دی تو انھیں حیرت ہوئی کہ ہندوستان میں اب بھی اذان ہوتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ فجر کے وقت بھی انھوں نے اذانیں سنیں اور مندروں میں ہونے والے بھجن کی آوازیں بھی ان کے کانوں میں پڑیں۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں اور انھیں اپنی مذہبی رسوم پر چلنے کی آزادی نہیں ہے۔ نشست گاہ میں انجینئر محمد سلیم کے برابر میں سوامی سشیل گوسوامی، فادر تھامس اور جان دیال بھی بیٹھے تھے۔ سعد احمد وڑائچ کے بقول انھیں جماعت اسلامی کے امیر کو ایک ہندو مذہبی رہنما کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ کیونکہ ’پاکستان میں ایسا تصور ہی نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کا امیر کسی ہندو مذہبی رہنما کے برابر میں بیٹھے‘۔ دراصل ہندوستان اور پاکستان میں یہی فرق ہے۔ پاکستان مذہب کے نام پر بنا ہے اس لیے وہاں مذہبی شدت پسندی زیادہ ہے۔ جبکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا اس لیے یہاں بعض طاقتوں کی جانب سے بھائی چارے کی روایت کو توڑنے کی کوششوں کے باوجود وہ اب بھی قائم ہے اور قوی امید ہے کہ مذہب کے نام پر نفرت کا جو انجکشن لگایا گیا ہے اس کے اثرات جلد ہی زائل ہو جائیں گے۔
اب چند باتیں دوسری افطار پارٹی کی جس کا اہتمام بی جے پی رہنما آلوک وتس نے نوئیڈا میں اپنی ہوزری فیکٹری میں کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی فیکٹری میں تقریباً تین ہزار ورکر ہیں جن میں ڈیڑھ سو مسلمان ہیں۔ وہاں مذہب کے نام پر کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے۔ وہ 32 برسوں سے افطار پارٹی کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ آس پاس کی فیکٹریوں میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے لیکن انھو ں نے ایک فلور پر ایک جگہ نماز کی ادائیگی کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔ ان کے یہاں نماز کی سہولت صرف رمضان میں نہیں بلکہ بقیہ مہینوں میں بھی رہتی ہے اور اپنی اور دوسری فیکٹریوں سے جو بھی مسلمان چاہے وہاں نماز ادا کر سکتا ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل مصلیٰ، چٹائی، ٹوپی اور لوٹوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور رمضان کے بعد اضافی اشیا کسی مدرسے میں تحفتہً دے دی جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق الگ سے گفتگو میں ان کے ایک ملازم شفیق الرحمان نے کی۔ آلوک وتس اپنے سینے میں ایک دردمند دل رکھتے ہیں جو سب کے لیے دھڑکتا ہے۔ وہ ضرورت مندوں بالخصوص مسلم ضرورت مندو ں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وہ یوں تو بی جے پی کے پینلسٹ ہیں لیکن آزاد ضمیر کے مالک ہیں۔ اکثر و بیشتر ٹی وی چینلوں میں ہونے والے مباحثے میں شریک ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ضمیر کی آواز پر پارٹی لائن سے الگ موقف بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اس ملک میں اوپی شاہ اور آلوک وتس جیسے لوگ موجود ہیں، فرقہ وارانہ میل جول اور باہمی محبت کی روایت کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی طوفان مستقل نہیں عارضی ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تخریب کاری کے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ لیکن تخریب کے اسی بطن سے تعمیر بھی جنم لیتی ہے اور تباہی و بربادی کے نشان بہت جلد مٹ جاتے ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like