زمیں سے پھول فلک سے ستارہ غائب ہے
نمو پزیر ہیں نظریں نظارہ غائب ہے
بنا رہا ہے خدا جانے کوزہ گر کیا چیز
گُھما رہا ہے فقط چاک گارا غائب ہے
بھٹک رہے ہیں مسافر گھنے سمندر میں
چٹک رہے ہیں بدن اور کنارہ غائب ہے
ہمیں ملا نہیں ناظر کوئی ٹھکانے کا
ہمیں کہا گیا حاضر تمھارا غائب ہے
ہمارے اشک کہیں رایگاں نہ ہو گئے ہوں
کتابِ غم سے حوالا ہمارا غائب ہے
کہیں کہیں کوئی موجودگی ہے منظر میں
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے سارا غائب ہے
سخن میں گُم ہیں زمانے کی ساری تشبیہات
علامتوں میں کہیں استعارہ غائب ہے
دلوں پہ اُس کا اثر ہو بھی کس طرح آزر
وہ شعر جس سے محبت کی دھارا غائب ہے