مسعود جاوید
ما بعد آزادی ہند ،تقسیم ہند، ١٩٤٧ کے فوراً بعد خاک و خون کے المناک واقعات ، ان کے تھمنے کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ، مخصوص ذہنیت کی منظم جماعت کی طرف سے ، ابتدا میں محدود تعداد میں ہونے کے باوجود، مسلم تشخص کو مٹانے کی پے در پے کوشش، سیکولر حکومت کی جانب سے پس پردہ اس اینٹی مسلم جماعت کی حمایت اور مسلمانوں کے حقیقی مسائل پر سردمہری !بات کہاں سے شروع کی جاۓ؟ کہیں سے شروع کرتا ہوں ختم اس پر ہوتی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے گونا گوں مسائل کو ملی قیادت اور مسلم سیاسی لیڈروں نے زخم سے ناسور بننے دیا اس کے بعد ان مسائل کے حل کی طرف سنجیدہ کم سنجیدہ یا غیر سنجیدہ توجہ دی۔
بابری مسجد قضیہ
٢٣ دسمبر ١٩٤٩ مسجد میں غیر قانونی طور پر مورتی رکھی گئی مقدمہ ہوا اور مسجد میں عدالتی فیصلہ آنے تک کے لئے تالا لگا دیا گیا۔
یکم فروری ١٩٨٦ ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے پر تالا کھولا گیا۔۔۔ یوپی اور مرکز میں مضبوط کانگریس کی حکومت تھی۔
٦دسمبر ١٩٩٢ مسجد شہید کی گئی۔ مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔
٢٠١٠ میں ہائی کورٹ نے تالا کھلوانے کے فیصلے پر اعتراض درج کراتے ہوئے اسے غیر قانونی بتایا۔
٩نومبر ٢٠١٩ کو عدالت عظمیٰ نے تسلیم کیا کہ :
١- ١٩٤٩ میں رام للا پرکٹ نہیں ہوۓ تھے بلکہ مجرمانہ طور پر مورتی رکھی گئی تھی۔
٢- مسجد میں ١٩٤٩ تک نماز ادا کی جاتی تھی۔
٣- مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔
٤- مسجد غیر قانونی طور پر ١٩٩٢ میں توڑی گئی۔ #تاہم عدالت عظمی نے اس بابری مسجد – رام جنم بھومی متنازع زمین کو رام جنم بھومی ٹرسٹ کو سونپنے کا حکم دیا۔
٥ پانچ اگست ٢٠٢٠ بھومی پوجن یعنی مندر تعمیر کا افتتاحی تقریب ہوا۔
١٩٤٩ سے لے ٢٠١٤ تک اچھی تعداد میں ملی شخصیات اور بااثر مسلم سیاسی لیڈران اقتدار میں شامل معاون اور حامی رہے (جواہر لعل نہرو سے لے کر آئرن لیڈی اندرا گاندھی اور سوفٹ ہارٹیڈ راجیو گاندھی تک، اور سیکولر وزرائے اعظم چندر شیکھر اور وی پی سنگھ تک )۔۔۔ یہ مسلم رہنما انعامات و اعزازات سے نوازے جاتے رہے، لیکن اس مسئلے کا مناسب حل نہیں نکالا گیا۔
شمالی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان ہو رہا ہے لوگوں کے مکانات اور دکانوں میں آگ لگا دی جاتی ہے لوگ جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں مساجد کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور پولیس کی زیادتی اور غیر جانبدرانہ تصرفات کی رپورٹ آرہی ہے۔ ۔۔۔۔ تمام بڑی ملی تنظیموں کے مرکزی دفاتر دہلی میں ہیں مگر قائدین خاموش ہیں کوئی وزیر داخلہ اور متعلقہ وزراء و افسران کے سامنے ان مظلوموں کی جان و مال کی فریاد نہیں کرتا کوئی دھرنا پر نہیں بیٹھتا آخر کیوں ؟ ۔ ۔۔۔۔۔ اس کے کئی دنوں کے بعد ملی تنظیموں کے نمائندے ریلیف کا کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی پہلے جان و مال کا نقصان ہونے دیں پھر ان لٹے پٹے بچے ہوئے مسلمانوں کی مدد کے لئے آئیں۔
مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات۔۔۔ حالات اتنے خراب ہوۓ کہ عدالت عظمیٰ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔۔۔ یوپی اسمبلی میں ستر ممبران کوئی استعفیٰ نہیں کوئی دھرنا پردرشن نہیں وزیر اعلی کے داہنے ہاتھ سمجھے جانے والے نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا ملی تنظیموں نے کوئی اجتماعی ردعمل کا عندیہ تک نہیں دیا۔ اس کے بعد ریلیف اور دو تین کمروں پر مشتمل مکانات کی تعمیر!
ٹارگیٹڈ اینٹی کمیونل رایٹ قانون بنانے کی عوامی تحریک چلانے کی ضرورت پر توجہ کب دی جائے گی؟ اس بل کو کانگریس نے ٢٠٠٨ سے ٹھنڈے بستہ میں رکھا یہاں تک کہ ٢٠١٤ میں شکشت فاش کو گلے لگا کر اقتدار سے باہر ہوئی۔
کشمیر کی صورت حال کا ذمے دار کون ہے۔ جب مرکز میں اقتدار کے پایہ کے لوگوں کے ساتھ کشمیری لیڈروں کا یارانہ تھا ان دنوں سنجیدگی سے اس کا حل نہیں ڈھونڈا ٣٧٠ ختم کرنے کا اعلان بہت پہلے انتخابی منشور کے ذریعہ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔ مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی کوئی اس گمان میں رہا کہ بی جے پی مرکز میں حکومت نہیں بنا پائے گی تو کوئی بی جے پی کے ساتھ الائنس کر کے ریاست میں حکومت بناتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ دن آ گۓ کہ نظر بند رہنا پڑ رہا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، منشور میں موجود تمام نقاط پر عملدرآمد ہوگا۔ ہمارے ملی لیڈران کہتے رہیں کہ کامن سول کوڈ کے نفاذ میں خود غیر مسلموں کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اس لئے یہ بل پیش نہیں کیا جائے گا ! پھر اچانک ایک دن بل پاس ہو جائے گا۔ ابھی اس کا خدشہ ہے، کبھی کھل کر کبھی دبے لفظوں میں اظہار کیا جاتا ہے یعنی ابھی زخم ہے عنقریب ناسور بن کر ابھرے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)