شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
آج صبح انگریزی اور ہندی زبان کے ایک بہترین تعلیم یافتہ دوست نے سوشل پلیٹ فارم پر ایک سنجیدہ علمی نکتہ پیش کیا کہ یونانی فلسفیوں اور بادشاہوں کے ناموں میں اِس قدر فرق کیوں ہے؟کیوں کہ ارسطو کو ہندی والے ارسطو لکھیں گے مگر انگریزی داں طبقہ ارسٹوٹل لکھتا ہے۔یہی حال افلاطون، سقراط، سکندر کا بھی ہے جن کے انگریزی ناموں میں بھی بہت تفاوت ہے۔ انھوں نے سوال کو لطیف بنانے کے لیے ایک زمینی سوال بھی پیدا کیا کہ ناموں کی اِن تبدیلیوں میں ہندی یا اردو زبان کے ماہرین یا مترجمین کی کچھ غیر ضروری مہارت تو کوئی تماشا نہیں کر رہی ہے؟ سوال جتنا سنجیدہ تھا، خلاف توقع جواب میں اتنی سنجیدگی نہ دیکھی گئی۔ مورخین اور فلسفیوں کی طرف سے بھی زیادہ ردِ عمل سامنے نہیں آسکے، اِس کے بر عکس مختلف افراد نے غیر سنجیدہ جوابوں پر بھی قناعت کرنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ حد تو یہ ہے کہ بعض افرادنے سستے سیاسی انداز میں اِس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے دوسرے انداز کا بھی ماحول بنایا۔
ہندستان میں ناموں کی تبدیلی کا ایک باضابطہ سلسلہ چلا ہوا ہے۔ اِس میں اکثر و بیشتر سیاسی اعتقادات کو دخل دینے کا موقع ملتا ہے۔ عربی، فارسی اور اسلامی کیفیات کے ناموں سے خود کو الگ کرنے کی ایک ایسی مہم چلی ہوئی ہے جس کے اثر سے ایسی تبدیلیاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے نام، شہروں کے نام اور گاؤں محلوں کے نام بھی اِسی مخصوص سیاسی کیفیت کا شکار ہیں۔ ملک کے دانش وروں کا ایک بڑا طبقہ ایسی ترمیمات کو غلط اور مفاد پرستانہ مانتا رہا ہے۔مگر یہ سچائی ہے کہ ایسی آندھیاں اب بھی چل رہی ہیں۔
غالباً تبدیلیِ نام کی ہنگامہ زائی کا ہی یہ اثر ہوگا کہ اب پرانے ناموں کے پیچھے بھی نئے سرے سے غور و فکر کرنے کا ایک رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ تاریخ کے کچھ مسلمات ہوتے ہیں اور حقائق کے ساتھ فرو گذاشتیں بھی ہوتی ہیں۔اچھے سماج میں اسے تاریخ کے ایک عمل ِ مسلسل کے طور پر قبول کرنے کا رجحان ہوتا ہے ورنہ دنیا کے ہر گوشے کا امن و امان متاثر ہو جائے اور ہم سب انتشار کا شکار ہوتے رہیں مگر دینا کا ہر کام تعصب اور علمی شرارت سے ہی انجام تک نہیں پہنچتا بلکہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نئے پرانے موضوعات میں داخل ہو کر زمانے کی تبدیلیوں اور وقت کی دھڑکنوں کا مطالعہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ انھیں قوم کا سچا نبض پیما کہنا چاہیے۔ ایسے طبقے کی جانب سے زبان، قومیت،تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت کے پہلو سے نئے پرانے سوالات سامنے آتے ہیں تو ہمیں سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ٖضرورت آن پڑتی ہے۔ کیوں کہ اُن کے پیچھے کوئی خفیہ مقصد نہیں ہوتاہے بلکہ وہ اپنے طور پر ایک علمی بحث و مباحثے میں شامل ہو کر نئے تصورات گڑھنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔
ہندستان میں رہنے والوں کے لیے یہ بات بیشک ایک سوال ہے کہ ارسٹوٹل ارسطو کیسے ہو گیا؟ الکذنڈر، سکندر اورسقراط، سوکریٹس اور اِن سے بڑھ کر پلیٹو افلاطون بنا تو کیسے بنا؟ سامنے سے یہ سوال فطری بھی معلوم ہوتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اس سوال کو سوچتے ہوئے کہیں الزام تراشی یا کہیں شر پسندانہ رجحان روا نہ رکھا گیا تھا۔ یہ سوال زبان کے ارتقا، لین دین یا تہذیبی اثرات کے حلقے کا ہے۔ یہ تاریخ اورفلسفہ کے مضمون سے وابستہ ہے، یا کسی نئے دبستا نِ فکر کا بنیاد گزار ہے؟ اکثر عام طالبِ علم یا عام مفکرین تاریخ اور ادبیات کا عالمی تناظر اپنی دسترس میں نہیں رکھ سکتے۔ انھیں کیوں کر یہ بات یاد ہوگی کہ یونانی زبان، اُس کی تہذیب، وہاں کی کتابیں اور وہاں کے مصنفین ہم تک کس کس راستے سے پہنچے، اِس کی تفصیل جاننا مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ یونان سے لاطینی اور عربی،عبرانی زبانوں کا رشتہ اور علمی لین دین کا جو تیز رفتار سفر رہا ہے، اس سے موجودہ عہد میں ایک عام بے خبری نظر آتی ہے۔ ہم جدید چھاپا خانے کی آمد سے پہلے کی کتابوں، اُن کے مسودات کے تحفظ، تراجم اور نقول تیار کرنے کے امور پر کم سے کم متوجہ ہوتے ہیں۔ ایک عام پڑھنے والے آدمی سے یہ کیسے توقع کی جائے کہ وہ پوئٹکس(ارسطو) کے انگریزی، ہندی اور اردو کے متن سے استفادہ کرتے ہوئے لازمی طور سے یہ جانے کہ یہ تمام الفاظ جو اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں،وہ ارسطو کے لکھے ہوئے ہر گز نہیں بلکہ سب کے سب تراجم ہیں۔ ارسطو نے جب یہ کتا ب لکھی، اُس وقت دنیا میں انگریزی زبان تو آئی ہی نہیں تھی۔ اِس لیے انگریزی میں جب انھیں ارسٹوٹل کہا گیا تو دوسری زبانوں کے افراد کے لیے اُس کا ہو بہو استعمال کرنا لازم نہیں تھا بلکہ وہ اس کے بدل کے لیے بھی مجاز تھے۔
یورپ میں جب مسلمانوں نے فتح یابی کے بعد ایک طویل مدت تک حکمرانی کا فریضہ ادا کیا، اُس وقت انھیں یونانی مفکرین کی وہ عظیم کتا بیں ہاتھ لگی تھیں جن کے تذکرے کے بغیر جدید دنیا کا کوئی علمی کام پورا ہی نہیں ہو سکتا۔ چھاپا خانہ ابھی دنیا میں کام نہیں کر رہا تھا اور یورپ بھی دنیا میں نئی ترقیات کا قطب مینار نہیں بنا تھا۔ اسلامی تہذیب میں کتابوں کی حفاظت اور علمی کاموں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے کا ایک عام چلن رہا ہے۔ یورپ میں مسلمان پہنچے تو انھوں نے نہ صر ف یہ کہ یونانی مفکرین کے محفوظ مسودات سے استفادہ کیا بلکہ انھیں عربی زبان میں منتقل کرکے دنیا میں پھیلانے کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اُٹھائی۔
تاریخ کا یہ وہی موڑ ہے جب عرب کے عالموں کو یونانی مفکرین کے ناموں اور ان کی اصطلاحوں کو عربی میں حسب ضرورت تبدیل کرنے کا موقع ملا ہوگا۔ ورنہ یہ بات اہالیان ِ عربی،فارسی اور اردوکے ذہن میں آتی ہے کہ یونانیوں کے نام میں تو، غ،ق،اور خ کی آوازیں آخر کیسے شامل ہو گئیں۔ یہ صر ف فلسفیوں کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ سیاست دانوں، حکام، سائنس دانوں او ر شعرا و ادبا کے ساتھ بھی ہوا۔ جن لوگوں کو تراجم کے مواقع ملتے رہتے ہیں، اُن لوگوں کو آج بھی اِس طرح کے مسائل سے الجھنا پڑتا ہے۔حقیقی زبان کے لکھنے اور بولنے والوں کے انداز کے ساتھ اپنی زبان کے بولنے والوں سے مطابقت بیٹھانا اور تحریر کے ساتھ تلفظ کے مسائل سے بھی نبرد آزماہونا بیشک کانٹوں بھرے راستے سے گزرنا ہے۔ جگہ جگہ ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔
یونانی علوم کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر اہل ِ اسلام نے اُن کے باضابطہ تراجم کی کوشش نہ کی ہوتی تو آج دنیا یورپ کے اُن بڑے چراغوں سے فیض نہیں اُٹھا پاتی کیوں کہ اُن بنیادی کتابوں کے متون کہاں غائب ہو گئے یا تلف ہو گئے، اِس کا اتا پتہ لگانا مشکل رہا۔ اِس وجہ سے عربی کے اُن ہزار بارہ سو سال پرانے ماہرین کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ یونان اور یورپ کے علمی ذخیروں کو اپنے علمی تراجم کے ذریعہ انھوں نے محفوظ کر لیا۔ورنہ ڈارک ایج کی طرح جہاں ہزاروں چیزیں ہمیشہ کے لیے پردہئ خفا میں چلی گئیں، ارسطور اور افلاطون بھی ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ راستوں کے ہم راہی بن گئے ہوتے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)