میرٹھ:آج کا دن واقعی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ استاد کی ذات ہی وہ شے ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے طلبا کو کتابی علم سے مزین کرتا ہے بلکہ قدم قدم پر بہترین تربیت کے ذریعے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھ کر انہیں باہر لانے کا کام بھی کرتا ہے۔ایک استاد نہ صرف اپنے شاگردوں کو علم کی دولت سے مالا مال کرتا ہے بلکہ وہ ان کے بہتر مستقبل کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے شاگرد ان سے بھی آگے نکل جائیں اور یہ ہی ایک اچھے استاد ہونے کی علامت ہے۔ یہ الفاظ تھے سابق صدر شعبۂ تاریخ پروفیسر آرادھنا کے جو شعبۂ اردو میں اب نما کے تحت یوم اساتذہ کے موقع پر منعقدٹیب لیٹ تقسیم پروگرام میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ادا کرہی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے اس مبارک دن میں شعبۂ اردو کے طالب علموں کی خوشی دوگنی ہوجاتی ہے کیونکہ ہماری حکومت کی جانب سے ملنے والے ٹیب لیٹ بھی طلبا کو تقسیم کیے گئے۔ سبھی کو مبارکباد۔
اس سے قبل پروگرام کا آغاز فاروق شیروانی نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ بعد ازاں عظمیٰ پروین نے ہدیۂ نعت پیش کیا۔یہ پروگرام آن لائن و آف لائن منعقد کیا گیا۔ پروگرام کی سر پرستی معروف فکشن نگار و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فر مائی۔ صدارت کے فرائض معروف ادیب وشاعر عارف نقوی جرمنی نے انجام دیے اور مہمان خصوصی کے بطور سابق صدر شعبۂ تاریخ پروفیسر آرادھنا نے شر کت فرمائی۔ استقبال ڈاکٹر ارشاد سیانوی، نظامت کے فرائض ریسرچ اسکالر سیدہ مریم الٰہی اور شکریے کی رسم عظمیٰ سحر نے انجام دی۔اس دور ران مہمانان کے ذریعے الینا،اسما پروین ، دلکش، فرح ناز، فاروق شیروانی، روضا،محمد عمران، نوازش،نایاب پروین،راحیل، شبنم، شفا،عظمیٰ پروین کو ٹیب لیٹ تقسیم کیے گئے۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ آج کا دن اپنے اساتذہ کو یاد کرنے کا دن ہے اور میری زندگی میں بھی ابتدا ئی تعلیم سے لے اعلیٰ تعلیم تک کئی اساتذہ ایسے رہے ہیں جنہوں نے مجھے نہ صرف تعلیم کی دولت سے نوازا بلکہ میرے اندر بے شمار صلاحتیں پیدا کیں اور آج میں جو کچھ بھی ہوں انہی اساتذہ کی بدولت ہوں خصوصا! شاداں واسطی، جوہر بلیاوی، سید احمد شمیم، عظیم الشان صدیقی، شمیم حنفی، عنوان چشتی وغیرہ ایسے اساتذہ رہے ہیں جن کو یاد کرتے ہوئے آج بھی میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ایک اچھے استاد کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ معاشرے میں پھیل رہی برائیوں پر بھی نظر رکھے۔
ایک بہتر معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اساتذہ کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے شعبے کے استاد ڈا کٹر آصف علی نے کہاکہ استاد ہی وہ عظیم ہستی ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کی تعلیم ،تربیت اور کردار میں روح پھونک کر انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ آگے چل کر صحت مند معاشرے کی تعمیرو تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بڑا افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ آج بہت سے اساتذہ صحیح ڈھنگ سے اپنے فرائض کی ادائیگی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اساتذہ کو ان تمام مسائل پر بھی غور و فکر کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر شاداب علیم نے کہا کہ دنیا کے ہر کامیاب انسان کے پیچھے اساتذہ کا ہی ہاتھ ہو تا ہے۔ والدین تو اولاد کی پرورش کے ساتھ ان کی تربیت کرتے ہیں لیکن ایک استاد اپنے شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر، ان میں جلا اور حوصلہ بخش کر جہا لت کے اندھیروں کو دور کر کے علم کی روشنی سے منور کردیتا ہے ۔جس طرح والدین بچوں کی زندگی میں ان مٹ نقوش چھوڑتے ہیں ایسے ہی اچھے اور بہتر اساتذہ اپنے طالب علموں کی زندگی میں سدا بلند مقام رکھتے ہیں اور یہ وہ رشتہ ہو تا ہے جو کبھی بھی نہیں بھلا یا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر الکا وششٹھ نے کہا کہ ایک اچھا استاد ہی اچھے معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ استاد بیک وقت والدین اور اساتذہ دو نوں کا کردار ادا کرتا ہے۔تمام اسا تذہ متحد ہو کر معاشرے میں پھیلی برائیوں پر غور کریں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
آخر میں اپنے صدارتی خطبے میں عارف نقوی نے کہا کہ ایک استاد ہی ہو تا ہے جو معاشرے کو نہایت خوبصورت بنا سکتا ہے۔ایک استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ ان میںانسانیت کے جذبے کو فروغ دے۔اس دنیا کو امن و امان اور انسانیت کی بہت ضرورت ہے۔
آج مجھے وہ دن بھی یاد آ رہا ہے جب میں طالب علم تھا اور اس وقت میں رادھاکرشنن کے بارے میں سوچتا رہتا تھا اور ان کی تصویریں دیکھتا رہتاتھا۔آج معاشرے کو پھر سے ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جوتعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں میں ایسا جذبہ پیدا کریں جو انسانیت اور امن وا مان کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں۔
پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر فرح ناز، شعبے کے ریسرچ اسکالر شاہِ زمن،اطہر خان، سید ہ مریم الٰہی، فرح ناز، عظمیٰ پروین، انکت کمار، فاروق شیروانی،شبنم،محمد عمران اور طلبہ طالبات نے سبھی اساتذہ کو مبارک باد اورتحائف پیش کیے۔