نئی دہلی:اردو اکادمی، دہلی اپنی کئی خصوصیات کی بناپر ہندوستان کی دیگر اکادمیوں سے منفرد ہے خواہ وہ جشنِ جمہوریہ کا مشاعرہ یا جشنِ آزادی کا سلسلہ وار مشاعرہ۔ برسہا برس سے جاری جشنِ اساتذہ کے لیے منفرد مشاعرے کا انعقاد اردو اکادمی ، دہلی کے نام ہی ہے جس میں اسکو ل سے لے کر یونیورسٹی کے اساتذہ تک اپنا معیاری کلام پیش کرتے ہیں۔یہ مشاعرہ بغیر کسی رکاوٹ کے تیس برس سے زائد سے جاری ہے جو آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ اردو اکادمی، دہلی کے قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ خوش آمدید کلمات کی ذمہ داری ڈاکٹر فرمان چودھری نے بخوبی انجام دی۔ اسی درمیان سکریٹری اردو اکادمی محمد احسن عابد نے صدرِ مشاعرہ اور تمام شعرا کا پودا دے کر استقبال کیا۔ مشاعرے کی شمع صدر مشاعرہ پروفیسر خالد محمود، سکریٹری اکادمی ، ممبرانِ گورننگ کونسل و معزز شعرا نے روشن کی۔
سکریٹری اکادمی نے شعرا اور سامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یومِ اساتذہ کے مشاعرے کی یہ روایت اردو اکادمی کی قدیم اور منفرد روایت ہے، اسی اکادمی کا یہ اعزاز ہے کہ صرف اساتذہ کے لیے بطورِ جشن مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے جو یقینا دیگر مشاعروں سے جدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد نظامت کی ذمہ داری پروفیسر رحمن مصور نے موجودہ حالات پر اشعار پیش کرتے ہوئے شروع کی ، جس میں اساتذہ کی اہمیت پر خوبصورت انداز میں گفتگو کی جس سے سامعین کے اذہان اساتذہ کی معنویت و اہمیت سے سرشار ہوگئے۔ ناظمِ مشاعرہ نے صدرِ مشاعرہ پروفیسر خالد محمود سے جازت کے بعد نوجوان شاعر سلمان سعید سے مشاعرے کا باقاعدہ آغازکیا۔ اس کے بعد تقریباً بیس شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
حلقہ چاندنی چوک کے معزز ممبر اسمبلی جناب پرہلاد سنگھ ساہنی نے بطور مہمانِ اعزازی شرکت کی۔ سکریٹری اکادمی نے ان کا پوداپیش کرکے استقبال کیا۔ مشاعرے میں گورننگ کونسل کے ممبران میں شیخ علیم الدین اسعدی، ، فیروز احمد صدیقی، محمد مزمل کے ساتھ معروف شعرا میں منیر ہمدم، معین شاداب، انس فیضی، عارف دہلوی، حبیب سیفی، ساحر دائونگری ، یونیورسٹی کے طلبا وغیرہ کے علاوہ کئی معتبر شخصیات شریک تھیں۔
مشاعرے میں پڑھے گئے منتخب اشعار پیش ہیں:
سیلاب کی آمد پہ نہ حیرت ہے نہ ڈر ہے
خالد کا تو دریا کی گزرگاہ میں گھر ہے
پروفیسر خالد محمود
کل تلک تاجِ رعونت پر بلا کی آب تھی
اب ہوا پلٹی تو کیسا بدنما ہونے لگا
ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی
بس اب پچھلے سفر کی دھول جھاڑو اور چل دو
وہ دیکھ سامنے پھر ایک سفر رکھا ہوا ہے
راشد جمال فاروقی
بولتا تھا جھوٹ جو وہ تو سزا باہر ہوا
اور مقدر میں مرے ساری، سزائیں آگئیں
پروفیسر کوثر مظہری
ندی کے دو کنارے ہیں یہ ہرگز مل نہیں سکتے
محبت صبر کرتی ہے سیاست ظلم ڈھاتی ہے
اعجاز انصاری
ہمیں لکھتے رہے روزانہ لہو سے کالم
ہم ہی بکتے رہے بازار میں اخبار کے ساتھ
رئوف رامش
وہم کی برچھائیوں سے دل کو بہلاتے نہیں
اہلِ دانش اس فریبِ شوق میں آتے نہیں
ڈاکٹر شبانہ نذیر
وہ ساغر و مینا جام و سبو ووہ خم ووہ صراحی وہ شیشہ
میں مے کش پیاسا تشنہ بلب سرشار نہ ہوتا کیا کرتا
پروفیسر ابوبکر عباد
دوست ہی ہار کا سبب ہوںگے
جانتا ہوں مگر بنا لیے ہیں
پروفیسر رحمن مصور
امید دل میں خواب جگانے سے آگئی
یہ روشنی چراغ بجھانے سے آگئی
پروفیسر ظہیر رحمتی
موضوعِ حسن و عشق ہے اتنا رہے ملحوظ
کہہ دو یہ جنوں سے حدِ آداب میں آئے
ڈاکٹر سلمیٰ شاہین
گفتگو کا مجھے انداز سکھانے والے
کتنے کمیاب تھے بچپن میں پڑھانے والے
جھلملاتے ہوئے ستاروں کی طرح ہوتے ہیں
علم کے روز خزانوں کو لٹانے والے
ڈاکٹر وسیم راشد
اپنے ہاتھوں جلادی ہیں ہم نے کشتیاں
دنیا کو یہی حوصلہ اچھا نہیں لگا
ڈاکٹر واحد نظیر
جو بھی گیا یہاں سے ہمیں روند کر گیا
ہم تھے عروجِ شہر ہمی راستہ ہوئے
ڈاکٹر عادل حیات
ذہن شہری ہے مگر دل ہے بہت دشت پسند
اے بیاباں تجھے وحشت نہیں ہوگی ہم سے
ڈاکٹر خالد مبشر
نہ سوچا تھا نہ سمجھا چلے آئے ہیں بس یونہی
تری محفل میں آکر توانا کی آزمائش ہے
ارشاد احمد ارشاد
پابندِ وفا ہم تھے پابندِ وفا ہم ہیں
کیا حاکمِ دوراں کو یہ بات بتانی ہے
ڈاکٹر شہلا نواب
یہ دنیا کیا ہے میں نے تو کسی کے دل کو جیتا ہے
مجھے کم مت سمجھنا میں سکندر سے زیادہ ہوں
اختر اعظمی
اس سے بہتر تو ٹک جاؤ یار کسی کے جوڑے میں
ورنہ تو پھولوں کی کیا ہے شاخ پہ بھی مرجھاتے ہیں
سلمان سعید