اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کو کٹھ ملاؤں کی زبان قرار دے کر جس لسانی و مذہبی تعصب کا مظاہرہ کیا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد سیاست دانوں کی زبانی اردو کی مخالفت کرکے ذہنی خباثت کا مظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ ہاں اگر یوگی اردو کے حق میں بولتے تو حیرت ہوتی۔ ان کی سیاست کا محور ہی مسلم دشمنی ہے۔ انھوں نے اردو پر کٹھ ملا پیدا کرنے کا الزام لگا دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اردو پڑھ کر صرف مولوی بنتے ہیں۔ حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مدارس کے متعدد فارغین آئی اے ایس کا امتحان پاس کرکے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور میرا دعویٰ ہے کہ یوگی آئی اے ایس کا امتحان پوری زندگی میں پاس نہیں کر سکتے۔ دراصل تقسیم ملک کے بعد حکومتوں کی متعصبانہ رویے نے اردو زبان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ حالانکہ آزادی سے قبل اردو ہی تھی جو پورے ملک میں بولی لکھی اور پڑھی جاتی تھی۔ ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلموں کی زبان اردو ہی رہی ہے اور ان میں کوئی مولوی یا کٹھ ملا نہیں تھا۔
اردو زبان و ادب اور صحافت کے فروغ میں غیر مسلموں کی خدمات مسلمانوں سے کم نہیں ہیں۔ اس حوالے سے غیر مسلم شعراو ادبا کی خدمات پر متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ غیر مسلم شعرا نے نبی آخر الزماں کی جس انداز میں نعتیں لکھی ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں۔ دہلی میں ایک غیر مسلم اردو داں تھے ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ۔ ان کی ایک ضخیم کتاب کا نام ہے ”ہمارے رسول“۔ اس میں انہوںنے اردو کے غیر مسلم شعرا کا نعتیہ کلام جمع کیا ہے۔ اپنی نوعیت کی اس منفرد کتاب میں اردو کے 492 ، فارسی کے 52، ہندی کے سات، پنجابی کے چار، گوجری کا ایک، سندھی کے دواور مراٹھی کے دو غیر مسلم شاعروں کا نعتیہ کلام اور ان کے مختصر سوانحی حالات جمع کردے ہیں۔ یہ کتاب دہلی میں واقع ایرانی سفارت خانہ نے شائع کیا ہے۔ کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر کا یہ شعر کون بھول سکتا ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
لیکن یہ باتیں یوگی آدتیہ ناتھ کیا سمجھیں گے۔ وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ اردو پڑھ کر صرف مولوی بنا جا سکتا ہے اور اردوکے فروغ سے ملک میں کٹھ ملایت کا رواج ہوگا۔ اگر وہ دور نہ جاتے صرف اپنے گورکھپور پر ہی نظر ڈال لیتے تو ان کو کئی غیر مسلم اردو داں مل جاتے۔ کسی اور کا نہیں تو انھیں فراق گورکھپوری کا نام یاد رہنا ہی چاہیے تھا جو اردو کے ایک بلند پایہ شاعر رہے ہیں۔ کیا یوگی جی بتا سکتے ہیں کہ فراق گورکھپوری مولوی تھے یا کٹھ ملا۔ اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلموں کی خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت کا آغاز ہی دو غیر مسلم صحافیوں نے کیا تھا۔ اس سلسلے میں میری کتاب ”اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلم صحافیوں کی خدمات“ کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ 368 صفحات کی اس کتاب میں سیکڑوں غیر مسلم صحافیوں پر مضامین اور ان کا تذکرہ ہے اور ان غیر مسلم صحافیوں میں کوئی مولوی یا کٹھ ملا نہیں تھا۔
دراصل ملک کا ایک بڑا طبقہ اردو کو مشرف بہ اسلام کرنے پر تلا رہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ حالانکہ اردو نہ پہلے مسلمانوں کی زبان تھی اور نہ اب ہے۔ اس کا کوئی مذہب ہی نہیں ہے۔ وہ بلا لحاظ مذہب و مسلک سب کی زبان ہے اور اس کے شیدائی ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ہندوستان کے تقریباً تمام مذاہب کا علمی ورثہ اس زبان میں موجود ہے۔ اردو کی زلفِ گرہ گیر کو سلجھانے میں جتنی کوششیں مسلمانوں نے کیں اس سے کم کوششیں غیر مسلموں نے نہیں کی ہیں۔
میں یہاں ایک غیر مسلم خاتون اردو صحافی روہنی سنگھ کا بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے انھیں چاہیے کہ وہ روہنی سنگھ سے ملیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ روہنی سنگھ کوئی مسلمان نہیں ہیں۔ وہ ایک سکھ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے آبا و اجداد اردو ہی کو ترسیل و اظہار کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وہ سب اردو داں تھے اور اپنی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب سمیت اپنا تمام مذہبی لٹریچر اردو ہی میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ تبدیلی وقت نے ان کی بعد کی نسلوں کو اس زبان سے دور کر دیا۔ لیکن یہ صرف روہنی سنگھ کے خاندان کا المیہ نہیں ہے بلکہ تمام اردو گھرانوں کا المیہ ہے۔ البتہ روہنی سنگھ جیسے بہت کم ملیں گے جنھوں نے اپنی لسانی جڑوں کی اہمیت کو سمجھا اور اس زبان میں موجود اپنے مذہبی سرمائے کی تلاش کی اور پھر اپنے خاندان میں اس زبان کے رواج کا احیا کیا۔ انھوں نے ایک استاد رکھ کر اردو سیکھی اور اب وہ اردو میں صحافت کرتی ہیں۔
وہ ایک سینئر صحافی ہیں جو انگریزی اخبار ”ڈی این اے“، انگریزی ہندی اور اردو کی ویب سائٹ ”دی وائر“ اور جرمنی کے میڈیا ادارے ”ڈی ڈبلیو“ سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ وائر اور ڈی ڈبلیو میں اردو میں کالم اور بلاگ لکھتی ہیں۔ ان کالموں کا مجموعہ ”اردو میں میرا دوسرا جنم“ ابھی ابھی دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ روہنی سنگھ کا یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی اور زبان نہیں جانتی تھیں۔ وہ انگریزی، پنجابی اور ہندی تین زبانوں میں لکھنے اور بولنے کی قدرت رکھتی تھیں اور ان زبانوں میں لکھتی بھی رہی ہیں۔ ان کے سامنے کوئی مجبوری بھی نہیں تھی کہ وہ خون جگر جلا جلا کر اردو سیکھیں۔ دراصل ان کو اپنے خاندان کے علمی و رثے اور تہذیبی و ثقافتی روایات سے محبت اور دلچسپی ہے اور اس محبت اور دلچسپی نے ہی ان کو اس بات کے لیے ابھارا کہ وہ اردو سیکھیں اور اپنی جڑوں کی تلاش کریں۔
جب دہلی میں ڈی ڈبلیو سے وابستہ سینئر صحافی اور ہمارے دیرینہ دوست جاوید اختر نے مجھ کو اردو سے جنون کی حد تک ان کی محبت کے بارے میں بتایا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے ان سے وعدہ اور خود سے عہد کیا کہ میں اردو سے محبت کے ان کے جذبے کو پروان چڑھانے میں ہر ممکن تعاون دوں گا۔ اسی درمیان ایک اور سینئر صحافی اور ہمارے دوست افتخار گیلانی نے بھی ان کے معاملے میں نہ صرف بے انتہا دلچسپی لی بلکہ راقم الحروف سے بار بار تقاضہ کیا کہ روہنی سنگھ کے اردو کالموں کا مجموعہ ہر حال میں کتابی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔ روہنی سنگھ اور اردو زبان میں ان کی تحریری لیاقت سے متعارف کرانے کے لیے میں ان دونوں دوستوں کا صمیم قلب سے شکر گزار ہوں۔
جب میں نے ان کالموں کا مطالعہ کیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ ان کے موضوعات تو متنوع، دلچسپ اور معلوماتی ہیں ہی، ان کی زبان بھی بہت پختہ اور پر کشش ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ تو نوفارغینِ مدارس سے بھی اچھی زبان جانتی ہیں اور اسے لکھنے کا سلیقہ بھی رکھتی ہیں۔ میں اردو میں ان کی کتاب کی اشاعت پر انھیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ اردو سے محبت کی ان کی آتشِ شوق اسی طرح بھڑکتی رہے اور وہ اردو میں اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار کرتی رہیں۔ جو لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا اس سے روزگار نہیں ملتا انھیں چاہیے کہ وہ روہنی سنگھ سے سبق سیکھیں۔ اردو زبان کے تعلق سے آج کے اس دورِ قحط الرجال میں روہنی سنگھ ایک تابندہ مثال اور اردو مخالفت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک روشن چراغ ہیں۔ میں آخر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یوگی آدتیہ ناتھ بھی روہنی سنگھ سے ملیں اور اردو کے تعلق سے ان کے ذوق و شوق کو دیکھیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ اردومسلمانوں کی زبان نہیں ہے اور اردو پڑھ کر صرف مولوی ہی پیدا نہیں ہوتے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)