Home مقبول ترین یوگی کا مشن 80 اور یوپی بلدیاتی انتخابات- ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

یوگی کا مشن 80 اور یوپی بلدیاتی انتخابات- ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

اتر پردیش میں میئر کی سبھی 17سیٹوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ریاست میں بھاجپا کا سیدھا مقابلہ سماج وادی پارٹی سے تھا ۔ لیکن سماج وادی پارٹی امیدواروں کا انتخاب کرنے اور چناوی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ۔ شاہجہاں پور میں پہلی بار میئر کا انتخاب ہوا ہے، وہاں سماجوادی پارٹی نے سابق وزیر کی بہو ارچنا ورما کو اپنا امیدوار بنایا تھا ۔ وہ امیدواری کا اعلان ہونے کے بعد پالا بدل کر بی جے پی میں شامل ہوگئیں ۔ بریلی میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے نامزدگی کے بعد اپنا نام واپس لے لیا ۔ ایسا ہی کچھ رائے بریلی میں بھی ہوا، یہاں نگر پالیکا سیٹ پر پارٹی میں بغاوت ہو گئی ۔ سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی کا اتحاد تھا لیکن دونوں نے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے ۔ جس کا سماج وادی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا ۔ سماجوادی پارٹی نگر نگم کی 17 میں سے 8 سیٹوں پر AIMIM سے بھی پیچھے رہی ۔ اس کا کھیل خراب کرنے میں بی ایس پی، عام آدمی پارٹی اور مجلس نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ بی ایس پی نے 11 مسلمانوں کو میئر کا ٹکٹ دیا تھا ۔ اس کی وجہ سے مسلم اکثریتی مرادآباد، سہارنپور، میرٹھ جیسی سیٹوں پر بھی بی جے پی جیت گئی ۔
بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں پچاس ریلیاں کیں ۔ وہ صرف ایودھیا ہی چار پانچ مرتبہ گئے ۔ جبکہ نائب وزیر اعلیٰ اور وزراء نے بھی وہاں کا دورہ کیا ۔ وہیں، اکھلیش یادو صرف ایک درجن ریلیاں ہی کر سکے ۔ جبکہ مایاوتی اپنے قلعے سے باہر ہی نہیں نکلیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 2017 میں اپوزیشن کو میئر کی ملی دو سیٹیں میرٹھ، علی گڑھ بھی اس سے چھن گئیں ۔ نگر پالیکا چیئرمین کی 199 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 88، سماج وادی پارٹی نے 36، بہوجن سماج پارٹی نے 16، کانگریس نے 5 اور آزاد امیدواروں نے 54 پر جیت حاصل کی ۔ نگر پنچایت کی 544 نشستوں میں سے بی جے پی 184، سماجوادی پارٹی 76، بی ایس پی 36، کانگریس 13، عام آدمی پارٹی ایک اور 225 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ۔ میونسپل کارپوریشن کے 1420 وارڈوں میں سے بی جے پی 813، سماجوادی پارٹی 191، بہوجن سماج پارٹی 85 اور کانگریس کے 77 کونسلرز کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ نگر پالیکا پریشد کی کل 5327 نشستوں میں سے 3937 کے نتائج کے مطابق بی جے پی 955، سماج وادی پارٹی 294، بہوجن سماج پارٹی 134، کانگریس 72، مجلس اتحاد المسلمین 26 اور عام آدمی پارٹی کو 22 نشستوں پر کامیابی ملی ۔ نگر پنچایت ممبران کی 7177 سیٹوں میں سے 5364 کی موصول اطلاعات کے مطابق بی جے پی نے 1079، سماج وادی پارٹی نے 349، بی ایس پی نے 148، کانگریس نے 62، عام آدمی پارٹی نے 57، اے آئی ایم آئی ایم نے 15 اور آر ایل ڈی نے 28 پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ میونسپل کونسلرز کی 205، نگر پالیکا چیرمین کی 26، نگر پالیکا ممبر کی 2719، نگر پنچایت صدر کی 165 اور 4165 ممبران کی سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ میئر کی تمام سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کو مایاوتی نے ای وی ایم کی مہربانی بتایا ۔ انہوں نے ای وی ایم پر سنگین سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ صرف میئر کو منتخب کرنے کے لئے ای وی ایم کے ذریعہ ووٹ ڈالے گئے ۔ جبکہ باقی سیٹوں کا انتخاب بیلٹ پیپر کے ذریعہ کرایا گیا ۔
بی جے پی نے پہلی مرتبہ 37 نگر پنچایتوں اور تین نگر پالیکا میں مسلم امیدواروں کو موقع دیا تھا ۔ ان میں سے گورکھپور نگر نگم سے بی جے پی کی کارپوریٹر حقیقون نشاء الیکشن جیت گئی، جبکہ امیٹھی نگر پالیکا کے وارڈ کونسلر پر زیبا خاتون کو جیت ملی ہے ۔ نگر پنچایت سیوال خاص کے وارڈ 5 سے بی جے پی امیدوار شہزاد اور وارڈ 3 سے رخسانہ کامیاب ہوئے ہیں ۔ گوپامؤ ہردوئی نگر پنچایت صدر کی سیٹ پر ولی محمد، چلکانہ سہارنپور نگر پنچایت کی صدر پھول بانو، سرسی سنبھل نگر پنچایت کے صدر کوثر عباس، دھورا ٹانڈہ بریلی نگر پنچایت کے صدر ندیم الحسن اور بھوجپور مراد آباد نگر پنچایت صدر کی سیٹ جیت کر فرخندہ زبی نے بی جے پی کا پرچم بلند کیا ہے ۔
بی جے پی نے سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانے، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم کے ذریعہ بی جے پی کے مخالف ووٹوں کو کٹوا کر بلدیاتی انتخابات جیتنے کی حکمت عملی اپنائی تھی ۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہی ہے ۔ لیکن آزاد امیدواروں نے سخت ٹکر دے کر اس کا کھیل خراب کر دیا ۔ سماج وادی پارٹی نے یہ انتخاب سنجیدگی سے نہیں لڑا کیونکہ اس نے اتر پردیش کی عوام کے مسائل نہیں اٹھائے ۔ اکھلیش یادو کرناٹک کی طرز پر مہنگائی، بے روزگاری، لاء اینڈ آرڈر، کرپشن، صحت، تعلیم، بلڈوزر اور غریبی کے مسائل پر بات نہیں کر سکے ۔ ان کی انتخابی مہم جارحانہ نہیں رہی ۔ الیکشن میں ناکامی کے بعد انہوں نے کہا کہ ان کے ووٹروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا ۔ لیکن جس وقت مسلم خواتین کو برقعہ کے بہانے ووٹ ڈالنے سے روکا جا رہا تھا اس وقت وہ خاموش تھے ۔ یوگی نے کار سیوکوں پر گولی چلانے والوں کو ووٹ نہ دینے کی اسٹیج سے اپیل کی، اکھلیش یادو اس کو بھی مدعا نہیں بنا سکے ۔ وہ نہ ایودھیا میں 2021 میں ہوئے زمین گھوٹالے کی اور نہ ہی کورونا کے دوران حکومت کے رویہ کی لوگوں کو یاد دلا پائے ۔ انہوں نے نہ بی جے پی میں موجود داغیوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر کوئی سوال اٹھایا نہ ہی گجراتیوں کے بڑھتے اثر ورسوخ اور یوپی کا کاروبار حکومت کے ذریعہ گجرات کے لوگوں کو سونپے جانے پر ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی آدھے ادھورے من سے الیکشن لڑ رہی ہے ۔ مانو اس نے بی جے پی کے لیے میدان چھوڑ دیا ہے ۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے مشن 80 کے ہدف کو سامنے رکھ کر یہ الیکشن لڑا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ 2024 میں اگر بی جے پی مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، بہار، مہاراشٹر، کرناٹک اور مغربی بنگال میں کچھ سیٹیں ہارتی ہے تو اس کی تلافی اتر پردیش سے ہو جائے ۔ ایسا کرکے وہ مرکز میں مودی جی کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے مضبوط دعویدار بن سکتے ہیں ۔ دراصل یہ یوپی کی پرانی بیماری ہے، یہاں کا وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو ۔ یوپی کے افسران اسے وزیر اعظم بننے کا خواب دکھانے لگتے ہیں ۔ یوپی کا محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ میئر کی تمام سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی کو زبردست جیت قرار دے کر یوگی کے غیر معمولی کارنامہ کی تعریف کے پل باندھ کر انہیں اگلے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ کہا یہ جائے گا کہ پارٹی کی پوری لیڈر شپ تو کرناٹک میں لگی تھی ۔ یہ جیت اکیلے یوگی ادتیہ ناتھ کی ہے ۔ مایاوتی کے دور میں محکمہ اطلاعات کا بجٹ 100 کروڑ روپے تھا ۔ جس میں ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات بھی شامل تھے ۔ یہ بتدریج بڑھ کر اب 2000 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف یوپی کے افسران یوگی کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں یا آر ایس ایس بھی؟ یاد کیجیے کورونا کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ کو ہٹانے کی بحث شروع ہوئی تو آر ایس ایس نے نہ صرف انہیں بچایا بلکہ یوپی اسمبلی انتخابات بھی ان ہی کی قیادت میں لڑا گیا ۔
یوگی آدتیہ ناتھ آر ایس ایس سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی اس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ انہیں بھگوا دھاری ہونے کے ساتھ ایک کٹر ہندو رہنما کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یوگی کو ہر الیکشن میں اسٹار پرچارقوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے ۔ وہ جگہوں کے نام بدلنے، ووٹوں کو پولرائز کرنے، فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیانات دینے والے، بلڈوزر بابا اور مخالفین کو مٹی میں ملانے والے لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ۔ یوپی کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے نفرتی ایجنڈے اور فرقہ ورانہ پولرائزیشن کو خوب استعمال کیا جبکہ کرناٹک میں یہ فارمولہ کامیاب نہیں ہوا ۔ مسلم اکثریتی سیٹوں پر بی جے پی کی کامیابی میں جہاں فرقہ وارانہ پولرائزیشن معاون بنا وہیں مسلمانوں کے لالچ اور ذات برادری کی عصبیت نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ البتہ اس الیکشن میں ایک خوش آئند پہلو یہ رہا کہ مسلمان کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہ جا کر انہوں نے بہتر امیدوار کو منتخب کرنے کی کوشش کی ۔
یوگی ادتیہ ناتھ کو نمبر دو بننے کےلیے امت شاہ سے مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ یوپی کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے وہ اپنی تشہیر پر امیت شاہ سے زیادہ رقم خرچ کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق وزیر اعظم کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی تصویر اشتہار میں شائع ہوتی ہے، اس کا فائدہ یوگی جی ملے گا ۔ آنے والے وقت میں وہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور دیوالی کیے جانے والے چراغاں کا سہرا بھی اپنے سر باندھ سکتے ہیں ۔ لیکن کرناٹک الیکشن سے عام آدمی تک یہ بات پہنچ چکی ہے کہ بی جے پی پونجی پتیوں کے لیے کام کرنے والی پارٹی ہے ۔ اسے عوام کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ لوگوں کو بانٹ کر، لڑا کر، نفرت پیدا کرکے الیکشن جیتنا چاہتی ہے ۔ غریبی، بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن اور لا قانونیت کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں ہے ۔ ملک کی ترقی اور عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانا اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہے ۔ اس سے سوال کرنے والے ملک کے دشمن، بد عنوان اور مجرم ہیں ۔ کوئی کتنا ہی بڑا بد عنوان یا مجرمانہ بیک گراونڈ والا شخص کیوں نہ ہو وہ بی جے پی کی مشین میں دھل کر بے داغ ہو جاتا ہے ۔ اس کے خلاف کتنے ہی ثبوت موجود کیوں نہ ہوں اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ یوپی اسمبلی انتخابات کے وقت اپوزیشن نے بی جے پی کا جو چہرہ دکھانے کی کوشش کی تھی ۔ اس کی وجہ سے بھاجپا 255 سیٹیں جیتنے میں ہانپ گئی تھی ۔ بلدیاتی انتخابات میں 40 فیصد سیٹوں پر ملی جیت سے بی جے پی 2024 میں مشن 80 کے کامیاب ہونے کا خواب دیکھ سکتی ہے ۔ لیکن نتائج واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ کہیں یہ خوش فہمی اسے 62 سے 50 سیٹوں پر نہ لے آئے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment