Home تجزیہ یوگی اور بہرائچ! -شکیل رشید

یوگی اور بہرائچ! -شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز ) 

جب اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ اعلان کیا تھا کہ کسی بھی دھرم اور مذہب کی مذہبی اور عظیم شخصیات کی توہین کرنے والوں کو ، چاہے وہ جس دھرم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ، برداشت نہیں کیا جائے گا ، انہیں سخت سے سخت سزادی جائے گی ، تو لگا تھا کہ شاید وہ ایک منتخب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنا ’ راج دھرم‘ نبھانے کے لیے تیار ہیں ، لیکن سچ یہی ہے کہ ان کی کتھنی اور کرنی میں بڑا فرق ہے ، اور یہ فرق اترپردیش کے بہرائچ ضلع کے فرقہ وارانہ فسادات سے خوب واضح ہوکر سامنے آگیا ہے ۔ بہرائچ کے فسادات مذہبی منافرت کی بدترین مثال ہیں ۔ مذہبی منافرت کی بھی اور ’ راج دھرم‘ نہ نبھانے کے یوگی کے عمل کا منھ بولتا ثبوت بھی ۔ بہرائچ میں فرقہ وارانہ تشدد ایک مسلمان کے گھر پر لگے ’ گیارہویں شریف ‘ کے جھنڈے کو اتار کر وہاں پر بھگوا جھنڈا لہرانے کے نتیجے میں پھوٹا ۔ مشرا نامی جس نوجوان نے مکان پر چڑھ کر سبز جھنڈا کھینچ کر اتارا اور اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لگایا تھا ، اسے کسی شْخص نے نیچے سے گولی ماردی ، وہ مرگیا اور اس کے نتیجہ میں تشدد شروع ہوگیا ۔ گولی سے مرنے والے نوجوان کا عمل مذہبی منافرت کی ایک مثال تھا ۔ بھلا وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اُسے مکان پر چڑھنے اور سبز جھنڈا اتار کر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرانے کے لیے اکسایا تھا ؟ مکان کو ایک بھیڑ گھیرے ہوئے تھی ، سب ہی غیر مسلم تھے اور اُس نوجوان کی سبز جھنڈا اتارنے کے لیے حوصلہ افزائی کررہے تھے ۔ گولی کس جانب سے چلائی گئی اور کس نے چلائی اس سوال کا ہنوز کوئی پتا نہیں چلا ہے ، لیکن یوگی کی پولس نے چار مسلمانوں کے خلاف معاملہ درج کرلیا ہے ، یہ معاملہ کہ گولی انہوں نے ہی ماری ہے ۔ کیوں ، گولی جو بھیڑ مکان کو گھیرے کھڑی ہوئی تھی کیا اس بھیڑ سے کوئی نہیں چلاسکتا تھا ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے ہندوتوادیوں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ اپنی ہی بھیڑ پر پتھراؤ کرو ۔ اپنے لوگوں پر خودتشدد کرو اور الزام دوسروں پر لگاکر تشدد کا بازار گرم کردو ۔ بہرائچ میں یہی کھیل کھیلا گیا ہے ، اور اس کھیل کے نتیجے میں مسلم اقلیت کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے اور لوگ اپنے گاؤں اور دیہاتوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں ، لوگوں کا بھاری نقصان ہوا ہے ۔ گرفتاریاں یکطرفہ ہورہی ہیں ۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ شخص جو گولی لگنے سے مرا وزیراعلیٰ یوگی نے اس کے گھر پہنچ کر اس کے اہل خانہ کو دلاسہ دیا اور دس لاکھ روپے بطور معاوضہ دیا ۔ کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ جس مہلوک نوجوان کے عمل کے سبب تشدد پھوٹا اس کے گھر جانے کی وزیراعلیٰ کو کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ کھلی ہوئی عصبیت نہیں ہے ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح گجرات میں سابرمتی ایکسپریس کے مہلوکین کی ’ شویاترا ‘ نکالی گئی تھی اسی طرح مہلوک نوجوان کا شو لے جایا گیا ۔ کیوں ، اس کی اجازت کیوں دی گئی تھی ؟ یہ اہم سوالات ہیں لیکن ان سوالوں کے جواب ملنے والے نہیں ہیں ، کیونکہ بہرائچ میں فساد کیوں ہوا ، اس کے اسباب نہیں تلاش کیے جارہے ہیں بلکہ کوشش یہ ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو خوب خوف زدہ کردیا جائے اور انہیں بھاری نقصان پہنچایا جائے ۔ یقیناً اس کے پس پشت ووٹ کی سیاست بھی ہے ! بہرائچ کو مزید جلنے سے بچانے کے لیے سِول سوسائٹی کو اور اپوزیشن کے لیڈروں کو میدان میں اترنا ہوگا ، ورنہ پورا اترپردیش بارود کے ڈھیر پر جاکر بیٹھ جائے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like