” امیرالھند ” ہو یا امارت، ہندوستان کے پس منظر میں ان کی ضرورت اور افادیت پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہے بھی،احقر کا شمار اگرچہ اربابِ بصیرت میں کبھی نہیں رہا، مگر الحمد للہ مالک نے مجھے صاحب نظر ضرور بنایا ہے،اس سلسلے میں میری بھی ایک رائے ہے، جس کا اظہار سابق میں بارہا کرتا رہا ہوں اور حسب موقع آئندہ بھی کرون گا- آج کی نشست میں کچھ دوسری بات عرض کرنی ہے ـ
آزاد ہندوستان میں ملی مسائل کے لئے بہت سی تنظیمیں سرگرم رہی ہیں، ہر تنظیم کا اپنا طریقۂ کار اور پالیسی ہوتی ہے ،جس سے ہمارا آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے، تاہم مجموعی کارکردگی کے اعتبار سے جب بھی ملت اسلامیہ ہند کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا ذکر آئے گا،تو ان میں جمیعۃ علماء ہند کو سرفہرست ضرور رکھنا پڑے گا ـ
ماضی قریب میں جس طرح ہندوستانی مسلمانوں کی اس مفید اور فعال تنظیم کے اندر آپسی اختلافات پیدا ہوئے، کوئی مانے یا نہ مانے ان اختلافات کا اثر جماعت کی مجموعی کارکردگی میں بھی صاف دیکھا گیا،اس لیے ملت کی موجودہ زبوں حالی اور درماندگی پر کُڑھنے والے ہر دردمند مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ کاش قوم کی یہ متحرک تنظیم ایک بار پھر متحد ہوکر میدان سنبھالے ـ
شکرِ ربی کہ دعائیں قبول ہوئیں اور امیر الھند کے متفقہ انتخاب سے ” قران السعدین ” کا آغاز ہوگیا ہے، دعائیں جاری رہیں، اللہ نظر بد سے بچائے ـ