گذشتہ ڈیڑھ صدی سےتعلیم وتعلّم اور سیاست ومعاشرت کےشعبے میں چمن سرسید کے فرزندان اَپنی سرگرمیوں اور کارناموں کی عطربیز خوشبوؤں سےپوری عالمی برادری کومہکائےہوئےہیں اور اَپنی کامیابیوں کا عَلم کم وبیش دنیا کے کونے کونے میں نصب کرچکے ہیں۔جدیدتعلیم وتعلّم کے لحاظ سے دیکھاجائے تو تقریباً دنیاکے تمام چھوٹے بڑے اداروں میں کسی نہ کسی سطح پرعلیگ برادران پائے جاتےہیں۔ معاشیات واقتصادیات اورصنعت وتجارت کےشعبے میں اعلیٰ سے اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایوان ِسیاست سے لے کرمیدانِ سیاست تک ہرجگہ اعلی سے اعلی مناصب پر فائز نظرآتے ہیں۔سائنس اورمیڈیکل کی دنیا میں اپنے منفرد ومثالی کارناموںکی وجہ سے متعارف ہیں۔سماج ومعاشرت کی ترقی اور فلاحی ورِفاہی معاملات میں ہمیشہ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔کھیل کود کے گراونڈ پربھی ملک وملت کا نام برابر روشن رکھے ہوئے ہیں، اوراِن تمام ترکامیابیوں کا سہرا براہِ راست اگر کسی کے سربندھتا ہے ،تو وہ تن تنہا سرسیداحمد خان ہیں۔
سرسید نے جن ناگفتہ بہ حالات میںاپنے انقلابی مشن کو لانچ کیا ، بظاہر اُس کا منزل مقصود تک پہنچنا بڑا ہی مشکل امر دیکھائی پڑتا تھا۔ کیوں کہ اُن کے اِس انقلابی مشن پر نہ صرف بیگانے اور مخالفین چیں بہ جبیں تھے بلکہ بعض اپنے بھی بباطن ناخوش تھے۔ لیکن اُن کی لگن اور محنت شاقہ نے اُن تمام خدشات اور مانعات کو دُورکردیا جو اُن کے مشن کو لے کرظاہر ہورہےتھے۔تاریخ شاہد ہےکہ جس قدر غیرانسانی وغیراخلاقی مغلظات سرسید کو سننے پڑے تھےاُس کی مثال اُن کے معاصرین سےلے کر اَب تک کے عہد میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔مگر چوںکہ سرسید اَپنے مشن میں مخلص تھے اور جنون کی حد تک اپنے مشن سے عشق بھی کرتےتھے اِس لیے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے محض چندہ پر مدار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص پاکٹ سے مشن کی ضروریات کو پورا کرنے میں یقین رکھتے تھےاور اپنے دست وبازوپر اعتماد کے ساتھ اِس بات کا بھی اُنھیں یقین تھا کہ اُن کا مالک اُن کی محنت کو ضائع نہیں کرےگا۔ کیوں کہ اُس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہرکیے کا بدلہ تمھیں دیا جائےگا،یعنی وہ اپنے بندوں میں سے کسی کی محنت کوکبھی رائیگاں نہیں ہونے دیتاہے،لہٰذاکسی بھی نوع کے نامساعد حالات کے سامنے سرسید کے قدم ڈگمگانہ سکے اور آج دنیا اُن کی کامیابیوں کو اَپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، اور مخالفین کی نسلیں بھی چمن سرسید سے فیضیاب ہورہی ہیں اور آج وہ بھی اُس کی تعمیروترقی میں ہرممکن سطح پر کوششیں کررہی ہیں۔ بلکہ اکبر الہ آبادی جیسےعظیم ومستند ناقد اور پُرمزاح وپُرمذاق شاعر جنھوںنے سرسید کی مخالفت بڑے ہی اُوپن انداز میں کی تھی اور ایک عرصے تک ہرمحاذ اور ہرموڑ پر سرسیدپر طنزوتضحیک کے تیر برساتے رہےتھے لیکن اُنھوں نےبھی جب سرسید کے ہمالہ نما عزم مصمم کو محسوس کرلیا تووہ اپنے نظریےپر اَزسر نو غور کیے بغیر نہ رہ سکے اور اُنھیں بھی اپنے نظریے سے تائب ہوناپڑااورپھروہ یہ کہتے نظرآئےکہ’’اکبر محض باتیں کرتا ہے اورسید کام کرتا ہے۔‘‘
اِس اقرار کے ساتھ کہ سرسید سے دینی معاملات میں کچھ تسامحات ہوئے ہیں لیکن جدید طرز پراَور حالات حاضرہ کے پیش نظر اُن کی دینی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہےکہ اُنھوں نے دینیات سےمتعلق باضابطہ ایک شعبہ قائم کیاجس کی اہمیت وافادیت ہرزمانے میں اِس قدر رہی کہ تقریباً تمام مکاتب فکر کے ماہرین اِس شعبے سے منسلک ومتعلق رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔پھرجو شخص عصمت نبوی کے تحفظ کے لیے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے اعتراـضات کے دفاع کےلیے اپنا سارا سازوسامان فروخت کردے اور اُف بھی نہ کرےاُسےیکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔زبان وادب میںجدت طرازی اور سہل نگاری جیسے نئے رنگ وآہنگ کے فروغ میں بھی اُن کا کردار بےنظیرہے۔ اخلاقیات کے اصلاح آمیز اِسباق کو جس سلیقے سے سرسید نے پیش کیا ہے ، یہ اُنھیں کا حصہ تھا جو اُنھیں کے ساتھ چلاگیا۔البتہ!اُس کی ضیابار کرنیں تاہنوز زبان وادب کےایوان کو روشن کی ہوئی ہیں اوراِس کی اعلی ترین مثال’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔القصہ! آج کے عہد میں بھی چمن سرسید کےبالمقابل کوئی ایسا علمی ادبی اور تہذیبی وثقافتی چمن ہمیں دکھائی نہیں دیتا جسے ہم فخریہ طورپردنیا کے سامنے پیش کرسکے۔بلکہ چمن سرسیدنےجس اعلیٰ پیمانےپرہماری چوطرفہ ساکھ کو بحال اور برقراررکھا ہے،وہ ہم سب کے لیے انتہائی قابل رشک ہےاور اس کا حسان چکانا مشکل لگ رہا ہے۔
اِن تمام باتوں سے قطع نظر جب ہم سرسید کے عہد کا موازنہ آج کے عہد سے کرتے ہیں تو علمی وادبی،تہذیبی وثقافتی اور دینی ومذہبی امور کے لحاظ سے کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا ہے۔بلکہ موجودہ عہد میں کچھ زیادہ ہی تاریکی نظر آتی ہے۔یعنی جس طرح سرسید کے زمانے میںسیاسی وسماجی،دینی ومذہبی اورعلمی ادبی سطح پر ایک سنگین مسئلہ ہمیں درپیش تھا، آج بھی کم وبیش ہمارے سامنے اُسی قدرمسائل درپیش ہیںکہ سیاست وسماج،دین ومذہب اور علم وادب کے میدان میں ہمارے حالات ناقابل بیان ہوگئےہیں، تو اَیسے میں ہمارے خیال سے ضرورت اِس بات کی ہے کہ جس نہج پرسرسید نے ایک پالیسی اور حکمت عملی کے تحت اپناقدم بڑھایاتھا اور جس راستےاورڈگر پر چلتے ہوئے ملک وملت، سیاست ومعاشرت اور دین ومذہب کے حق میں مفید ترثابت ہونے کی کوششیں کی تھیں اور ہوئے بھی ، آج ہم بھی وہی حکمت عملی اور پالیسی اختیار کریں، اور پھرملک وملت ،سیاست ومعاشرت اور دین ومذہب کے حق میں مفید سے مفیدتر ثابت ہونے کی کوششیں کریں۔ ایساکرنا مشکل ضرورہے لیکن ناممکن نہیں، اور یہ بھی صد فیصد ممکن ہے کہ سرسید والی راہ میںکانٹے بہت ہیںاورپھر اَپنے- بیگانے سبھی ناخوش اور ناراض ہوںگے لیکن اِن تمام باتوں سےاُوپر اُٹھتے ہوئےاخلاص کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ
میںکہاں رکتاہوں عرش وفرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے